تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     23-06-2020

سلامتی کونسل میں غیر مستقل نشست

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پندرہ ارکان میں سے امریکہ‘ برطانیہ‘ روس‘ چین اور فرانس کا تعلق مستقل ‘جبکہ دس غیر مستقل ارکان کی مدت دو دو سال مقرر ہے۔ان میں سے پانچ ارکان کا تعلق افریقا اور ایشیاء کی پیسیفک ریاستوں سے‘ ایک کا تعلق یورپی یونین اور باقی چار نشستیں لاطینی امریکہ ‘مغربی یورپ اور اس کی دوسری ریا ستوں کیلئے مختص ہوتی ہیں۔ بد قسمتی سے اسلامی بلاک کیلئے ایک بھی نشست مخصوص نہیں ہے۔ مسلم ممالک کی اس بے چارگی اور کسمپرسی کو اپنوں اور بیگانوں کے ہاتھوں بد ترین توہین ہی کہا جا سکتا ہے۔ 
ذہن نشین رہے کہ اس مرتبہ سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشستوں کے انتخاب کیلئے کووڈ19 سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کی وجہ سے چند مخصوص مقامات سے رائے شماری کرائی جائے گی۔ اس مرتبہ د س نشستوں میں سے پانچ نشستوں کاانتخاب ہو گا‘ جن میں سے ایشیاء پیسیفک سے چونکہ بھارت اکیلا ہی امیدوار ہے‘ اس لئے اس کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کے واضح امکانات ہیں ۔گوکہ اسے یہ نشست حاصل کرنے کیلئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔ اس سے پہلے اس کوٹے سے انڈونیشیا دو سال کیلئے غیر مستقل رکن منتخب ہوا تھا ‘ لیکن اقوام متحدہ کے آئین کے مطا بق کوئی بھی غیر مستقل رکن اپنی دو سالہ مدت پوری کرنے کے بعد اگلے دو سال تک حصہ لینے کا مجاز نہیں ہوتا۔ بھارت کی اس کامیابی پر ہماری اپوزیشن کے کچھ ارکان حکومت کے اس طرح لتے لے رہے ہیں ‘جیسے یہ کوئی انہونی ہو گئی ہے اور مضحکہ خیز حد تک قومی اسمبلی میں سب سے زیا دہ شور مچانے والے مسلم لیگ نواز کے خواجہ آصف شاید بھول چکے ہیں کہ اس مرتبہ بھارت کا سلامتی کونسل کیلئے انتخاب اس کی کسی طاقت یا سفارت کاری کی وجہ سے نہیں‘ بلکہ ایشیا پیسیفک گروپ میں اس کی باری آنے کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔
قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر اور پھر ٹی وی چینلز پر جب نواز لیگی اپوزیشن لیڈران‘ حکومت پر بے جا تنقید کر رہے ہوتے ہیں‘ تو کوئی انہیں یہ یاد کرانے والا نہیں ہوتا کہ جناب!بھارت ایک مرتبہ ان کے دور حکومت میں اور دوسری مرتبہ جب مرکز اور صوبوں میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) آپس میں میثاق جمہوریت کے بندھن میں اتحادی بن کر اقتدار میں تھے‘ سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہو چکا اور یہ عرصہ بالترتیب1991-92ء اور2011-12ء پر مشتمل ہے‘ جب بھارت سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہو ا تھا ۔ اسے بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ سوائے ترکی اور ملائیشیا کے بھارت کے خلاف سرکاری طور پر ایک لفظ کہنے کو بھی تیار نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ شاید یہ سب یا تو امریکہ یا بھارت سے ڈرتے ہوئے دلی طور پر نریندر مودی سرکار کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتے یا پھر بھارتی میڈیا کے پراپیگنڈے کا شکار بنتے جا رہے ہیں۔
کیا سلامتی کونسل کیلئے بھارت کی تائید کرنے والوں کو مقبوضہ کشمیر کے تین سے پندرہ برس کے بچوں اور لڑکوں کو بھارتی فوج کی چلائی گئی پیلٹ گنوں سے زندگی بھر کیلئے اندھا کرنے والے بھارت کا مکروہ چہرہ دکھائی نہیں دیتا ۔ کیا انہیں آئے روز کشمیری نوجوانوں کا بھارتی فوج کے ہاتھوں ٹارگٹڈ قتل عام دکھائی نہیں دے رہا؟ مظلوم اور مجبور اقلیتوں کو چیرنے پھاڑنے والے بھارت جیسے سفاک قاتل کو ووٹ دینے والے اقوام متحدہ تو بہت دو رکی بات ہے‘ دنیا کے کسی بھی معاشرے میں انسانوں کیلئے بنائے گئے فورم کے قریب سے گزرنے کے لائق بھی نہیں ۔ بھارت ایک مرتبہ پھر ایشیا پیسیفک خطے سے دوسال کی مدت کیلئے جو جنوری2021 ء سے شروع ہو کر دسمبر2022ء تک ہو گی۔ سلامتی کونسل کا بلا مقابلہ غیر مستقل رکن منتخب ہو رہاہے ۔بھارت کے علا وہ آئر لینڈ‘ میکسیکو اور ناروے بھی اس نشست کیلئے منتخب ہو گئے ہیں‘ جبکہ کینیڈا جیسے ملک کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔انڈیا کی کامیابی پر جب اپوزیشن کے میڈیا نے اسے بہت بڑا مسئلہ بنا نا شروع کر دیا‘ جیسے یہ موجودہ حکومت کی کوئی بہت بڑی ناکامی ہے تو جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے درست کہا کہ '' اس سے کوئی آسمان تونہیں ٹوٹ پڑے گا‘‘ کیونکہ ریکارڈ کی درستی کیلئے بتاتا چلوں کہ اس سے پہلے بھارت ایک مرتبہ نہیں‘ بلکہ7 مرتبہ سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہو چکا اوراس سے پہلے بلاول بھٹو کے والد صاحب کے دور ِحکومت میں جب2010 ء میں وہ منتخب ہوا تو اس وقت خفیہ ووٹنگ کی بجائے براہِ راست ووٹنگ ہوئی‘ جس میں انڈیا 190 میں سے187 ووٹ حاصل کر کے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن منتخب ہوا۔بھارت جب7 مرتبہ سلامتی کونسل کی یہ نشست حاصل کرتا رہا ‘تو کیا شہباز شریف‘ خواجہ آصف یا بلاول بھٹو سمیت کوئی بتانے کی ہمت کرے گا کہ اس وقت پاکستان میں کن کی حکومتیں تھیں؟اور ریکارڈ کی درستی کیلئے یہ بتاتا چلوں کہ ساتویں مرتبہ کسی بھی پاکستانی حکومت نے بھارت کا سلامتی کونسل کی اس نشست کیلئے منتخب ہونے پر آواز نہیں اٹھائی تھی اور اس دفعہ جب بھارت اس نشست کیلئے منتخب ہونے جا رہا ہے تویہ اعزاز بھی وزیر اعظم عمران خان کو حاصل ہوا ہے اورپہلی مرتبہ پاکستان انتہائی شدو مد سے مذہبی اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے والے بھارت کو یہ نشست دینے پر سخت احتجاج کر رہا ہے۔ 
موجودہ حکومت اور پاکستان کی تمام فیصلہ ساز قوتوں کو کو اچھی طرح جان لینا ہو گا کہ مسلم ممالک کو بھارت کی غلامی کی چاٹ پڑ چکی ہے اور آگے چل کر خدشہ نہیں‘ بلکہ مجھے یقین ہے کہ بھارت دو سال تک سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت کے ذریعے اپنے لئے مستقل رکنیت کی بھر پور کوششیں کرے گا‘ اس لئے پاکستان کو ابھی سے محتاط رہتے ہوئے اپنے دوستوں اور دشمنوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس سلسلے میں یاد کرواتا چلوں کہ جب جون1998ء میں جنیوا میں ہونے والے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کے اجلاس کے بعد بھارت کی سکیورٹی کونسل میں ممکنہ شمولیت بارے سوال کے جواب میں کلنٹن حکومت کی سیکرٹری آف سٹیٹ میڈلین آلبرائٹ نے بڑے ہی نپے تلے الفاظ میں کہا تھا '' بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے اپنے تصور کوبہت زیا دہ گہنا لیا ہے‘ ا س لئے آج کے بعد بھارت سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کی بات تو ایک طرف اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دے‘ لیکن پھر وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ میڈلین آلبرائٹ کی اسی ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے بارک اوبامہ نے امریکی صدارت کا منصب سنبھالا تو اسی بھارت کو امریکہ نے نت نئی نیو کلیئر ٹیکنالوجی اور سول نیوکلیئر کلب کا رکن بنانے اور ا س پر ہر طرح کی پابندیوں سے ماورا ایٹمی تجربات کرنے کی کھلی چھٹی دینے کے بعد نئی دہلی میں کھڑے ہو کر امریکی صدر بارک اوبامہ کہہ رہے تھے '' ہماری خواہش ہے کہ بھارت جلد از جلد سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن کر دنیا کے معاملات کو حل کرنے میں ہم سب کی مدد کرے‘‘۔
الغرض امریکی پالیسی کی وجہ سے پاکستان اس کی رکنیت سے محروم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved