کورونا نے بالآخر وہی غضب ڈھایا‘ جس کا ڈر تھا۔ کل مرزا تنقید بیگ سے ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ کچھ نہ کرنا ہر انسان اور اُس کے متعلقین کیلئے کیسے ٰقیامت خیز لمحے لے کر آتا ہے۔ جب ملک بھر میں کورونا کی وبا تیزی سے پھیلی تو لاک ڈاؤن متعارف کرایا گیا۔ لاک ڈاؤن نے معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی سعی کی جو مکمل طور پر کامیاب نہ ہوسکی۔ ہوتی بھی کیسے؟ ہم‘ خیر سے‘ لاک ڈاؤن کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے۔ گھر کی چار دیواری تک محدود کیے جانے کو ہم میں سے بیشتر جیل کی سی اسیری تصور کرتے ہیں‘اگر دن میں دو تین بار گھر سے نکلنا نہ ہو تو طبیعت بے چین سی ہو جاتی ہے۔ مرزا کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ کم و بیش تین ماہ سے وہ کام پر نہیں گئے۔ ویسے وہ کام پر جاتے تھے تب بھی کون سے تیر مار لیتے تھے‘ یہ ایک الگ (اور یقینا خاصی طویل) بحث ہے۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد مرزا کم و بیش پانچ سال سے ایک نجی ادارے میں کام کر رہے ہیں۔ ملازمت دینے والوں کی شامتِ اعمال کہیے کہ انہوں نے مرزا کو رکھ لیا۔ اب بے چارے پچھتا رہے ہیں۔ مرزا چونکہ پینتیس چھتیس سال سرکاری ملازم رہے اس لیے کام کرنے کی عادت کبھی پروان ہی نہیں چڑھی۔
مرزا کام نہ کرنے کا رجحان پروان چڑھانے کے لیے لاک ڈاؤن کے محتاج نہ تھے۔ جب کورونا وائرس کا نام و نشان نہ تھا‘ تب بھی وہ کام کرنے کے معاملے کو لاک ڈاؤن کیے رہتے تھے۔ جب کورونا کی وبا پھیلی اور اُس کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن متعارف کرایا گیا تب مرزا کے لیے مزید آسانی پیدا ہوئی‘ جس ادارے کے وہ ملازم ہیں اُس نے انہیں گھر بٹھادیا اور یوں مرزا کے لیے وہی ماحول پیدا ہوگیا ‘جو ریٹائرمنٹ سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ جب سے دوستی ہوئی ہے ہم نے مرزا کو اسی حالت میں دیکھا ہے ‘یعنی وہ کام کیے بغیر کھانے کے عادی رہے ہیں۔ ڈیوٹی کے اوقات میں پوری جاں فشانی کے ساتھ کام کرنے والوں کو مرزا ہمیشہ قدرے بے اعتنائی کی نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ محنت پر یقین رکھنے والا ہر شخص اُنہیں ذاتی دشمن سا لگتا ہے۔ آپ سوچیں گے‘ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اُن سے ہماری دوستی اب تک کیوں سلامت ہے۔ آپ کے ذہن میں بھی یہی خیال اُبھرے گا کہ شاید ہم بھی کام نہ کرنے عادی یا ہڈ حرام ہیں! عرض ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔ مرزا کا حلقۂ احباب خاصا وسیع ہے‘ جس طرح میلے میں طرح طرح کے سٹال لگے ہوتے ہیں‘ بالکل اُسی طرح مرزا کی زندگی میں بھی طرح طرح کے دوست ہیں۔ وہ ہر طرح کے لوگوں سے نبھا لیتے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ جو اُن کی دوستی کے دائرے میں آگیا ‘اُسے بہت کچھ جھیلتے ہوئے معاملات نبھانے ہی پڑتے ہیں۔
خیر‘ لاک ڈاؤن نے ایک زمانے کو کچھ کا کچھ کر ڈالا ہے۔ غضب یہ ہوا ہے کہ مرزا کا چلن عام ہوگیا ہے۔ ڈھائی ماہ سے بھی زائد مدت تک گھروں میں رہنے والوں کو جب دوبارہ کام پر طلب کیا گیا ہے تو ایک نئی الجھن اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ کوئی گاڑی اگر کئی ماہ کھڑی رہے تو آسانی سے سٹارٹ نہیں ہوتی اور اگر ہو جائے تو ڈھنگ سے چل نہیں پاتی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اُن کا بھی ہے ‘جو لاک ڈاؤن کے دوران گھر بٹھادیئے گئے تھے۔ اب‘ جبکہ نرمی کا معاملہ متعارف ہوا ہے‘ گھر بٹھائے جانے والوں کو واپس بلایا گیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ گھر بیٹھے بیٹھے تنخواہ لینے والے بہت سے اہلِ وطن کام کرنا (مزید) بھول سا گئے ہیں! کورونا کی وبا نے عجب ہی غضب ہی ڈھایا ہے۔ کورونا وائرس انسان کے جسم پر اثر انداز ہوتا ہے‘ مضمحل کردیتا ہے‘ جان کے درپے ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی جان لے کر ہی ٹلتا ہے۔ یہ تو ہوا وائرس کا معاملہ۔ اس وائرس سے بچنے کے لیے نافذ کیا جانے والا لاک ڈاؤن تو جسم کے ساتھ ذہن کو بھی دبوچنے پر تُلا ہوا ہے۔ جسم کو تو ہم وائرس سے بچالیں گے‘ مگر سوال ذہن‘ یعنی فکر اور مزاج کا ہے۔ لاک ڈاؤن کی مہربانی سے سوچنے کا ڈھنگ ہی بدل گیا ہے اور بدل کیا گیا ہے‘ کام سے بے رغبتی بڑھ گئی ہے۔ مرزا تنقید بیگ جیسے لوگ تو خوش ہیں کہ لاک ڈاؤن کی بدولت ایک بار پھر ہاتھ پیر ہلائے بغیر کمانے‘ کھانے کا موقع مل گیا۔ ہم نے مرزا کو مطعون کرنا چاہا تو ذرا بھی شرمندہ ہوئے بغیر کہنے لگے ''تم جیسے لوگ دوسروں کو کھاتا پیتا نہیں دیکھ سکتے۔ تمہیں صرف جلنا‘ کُڑھنا آتا ہے۔ہم نے عرض کیا کہ معاشرے اور ملک کو چلانے کا یہ ڈھنگ نہیں ہوا کرتا۔ یہ کہاں کی دانش‘ کس سیّارے کی حکمتِ عملی ہے کہ کوئی کچھ نہ کرے اور اُسے تنخواہ یا اجرت دی جائے؟ ایسے اقدامات سے تو معیشت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ ہماری اس بات سے مرزا کے دماغ کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ تنک کر بولے ''کون سے دھڑن تختے کی بات کر رہے ہو؟ سات عشروں سے ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ جو کام میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لیتے اُنہیں پریشان دیکھا ہے؟ ہم نے تو ہمیشہ اُنہی کو پریشان دیکھا ہے ‘جو تمہاری طرح ہر وقت محنت کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور دن رات ایک کرکے معاشرے کو بدلنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اپنا خون جلاکر بھی کچھ ہاتھ نہ آئے تو اس سے بہتر یہ ہے کہ انسان زیادہ ہاتھ پیر ہلائے بغیر‘ سکون کی زندگی بسر کرے۔‘‘
ہم نے جواباً عرض کیا کہ معاشرے اسی طرح تو بربادی کے گڑھے میں گِرا کرتے ہیں‘ اگر سب کی سوچ آپ کی سی ہوجائے تو چل چکی سماج کی گاڑی؟ یہ تو غضب ہی ہو گیا۔