بھارت نے ایک اور محاذ کھول لیا ہے۔ بدحواسی ایسے ہی گل کھلایا کرتی ہے۔ جب ذہن سے کام لینا ترک کردیا جائے اور محض خواہشات کی غلامی اختیار کرلی جائے تو بالعموم ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔ بھارت کے پالیسی میکرز بھی اس وقت خواہشات کی غلامی کے پیکر ہیں۔ وہ زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے ہر وہ راہ منتخب کر رہے ہیں‘ جس پر گامزن رہنے سے ملک صرف خرابی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ تجزیہ نگار اور تجزیہ کار جی بھر کے اور ''نِرنتر‘‘ انتباہ کر رہے ہیں کہ یہ خطرناک روش ترک کردی جائے ‘مگر مودی سرکار اصلاحِ احوال پر مائل نظر نہیں آتی۔ بھارت کا بھی عجیب ہی مخمصہ ہے؛ ایک طرف وہ پاکستان‘ بنگلہ دیش اور نیپال سے الجھ رہا ہے اور دوسری طرف چین سے مار کھارہا ہے۔ پاکستان سے الجھنے کے معاملے میں بھارت کو جس قدر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ وہ دنیا کے سامنے ہے۔ پاکستانی سے سرحدی مناقشوں میں بھارت کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے۔ پاکستان غیر معمولی طاقت کا حامل نہ سہی‘ منہ دینے کی ہمت ضرور رکھتا ہے۔ بالا کوٹ پر نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کے بعد پاکستان نے بھارت کو جس بھرپور انداز سے ہزیمت سے دوچار کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ ''ابھینندن ایپیسوڈ‘‘ کے بعد سے بھارت مزید کسی مہم جُوئی کی ہمت پیدا نہیں کرسکا۔
بنگلہ دیش مجموعی طور پر بھارت کے آغوش میں رہا ہے‘ مگر اب وہ بھی تنگ آگیا ہے۔ کوئی بھی غلط بات بلا جواز طور پر برداشت کرنے سے گریز نے بنگلہ دیش کو بھارت سے سرحدی جھڑپوں پر مجبور کردیا ہے۔ یہی معاملہ نیپال کا بھی ہے۔ نیپال سے بھی بھارت کے سرحدی تنازعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ نیپال کی قیادت اب بھارت کے زیر نگیں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔ بنگلہ دیش کے رویے میں تبدیلی حیرت انگیز ہے۔ بنگلہ دیشی معیشت اور معاشرت پر ہندو معاشرے کی گہری چھاپ رہی ہے۔ اس چھاپ کو مکمل طور پر ختم کرنا کم و بیش ناممکن ہے‘ مگر خیر‘ بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ کو خیال آگیا کہ ہر معاملے میں ''یس مین‘‘ کا کردار ادا کرنا کسی بھی اعتبار سے دانش مندی نہیں۔ لازم ہے کہ جہاں ناگزیر ہو وہاں اپنی بات محض کہی نہ جائے ‘بلکہ منوائی بھی جائے۔
نیپال خشکی سے گِھرا ہوا ہے۔ آئینی طور پر واحد ہندو ریاست ہونے کے باوجود نیپال کو اب تک بھارت سے کچھ خاص فیض نہیں پہنچا۔ اب‘ چین نے نیپال پر متوجہ ہونا شروع کیا ہے تو بھارت کیلئے حقیقی معنوں میں خطرے کی گھنٹی بج گئی ہے۔ سیاست اور معیشت کا معاملہ بگڑنے سے بھارت کیلئے پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔ یہ فطری امر ہے‘ کیونکہ چین نے اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنا شروع کردیا ہے۔ ایسے میں بھارت کی بدحواسی کے گراف کا بلند ہونا بھی لازم ہے۔ چین اتنی بڑی قوت ہے کہ بھارت اُس سے با طریقِ احسن نبرد آزما ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ ایسے میں صرف پریشان اور بدحواس ہونے کا آپشن ہی بچتا ہے۔ پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت سے دوچار ہونے پر گزشتہ برس 5 اگست کو بھارتی قیادت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کرکے اُسے بھارت میں ضم کرنے کا عمل شروع کیا۔ خصوصی حیثیت ختم کردیئے جانے کے ساتھ ہی مقبوضہ جموں و کشمیر کو لاک ڈاؤن کردیا گیا۔ پہلے ہی کیا کم پریشانیاں تھیں کہ اہلِ کشمیر پر زندگی مزید بوجھ بنادی گئی۔ بھارتی قابض فورسز کے ہاتھوں قتل و غارت اور گرفتاریوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا‘ جس کی پوری دنیا نے مذمت کی ہے۔ تب سے اب تک اہلِ کشمیر بھارتی مظالم سہہ رہے ہیں۔ مودی سرکار نے ہندو ازم پر مبنی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے ہر وہ حماقت کی ہے‘ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ سمجھانے والے سمجھا سمجھاکر تھک گئے ہیں ‘مگر نریندر مودی نے قسم کھا رکھی ہے کہ کوئی سبق سیکھنا ہے‘ نہ کسی معاملے سے عبرت پکڑنی ہے۔ ''ابھینندن ایپیسوڈ‘‘ سبق سکھانے کیلئے کافی تھی‘ مگر کوئی سبق نریندر مودی نے سیکھا نہ پالیسی میکرز نے۔ تب سے اب تک بھارت پڑوسیوں سے معاملات کو مزید بگاڑتا آرہا ہے۔ اب حد ہوگئی ہے۔
پاکستان‘ بنگلہ دیش اور نیپال نے معاملات کو نچلی سطح پر رکھا تھا اور سرد جنگ کو سرد جنگ رکھنے کو ترجیح دی تھی۔ چین کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ بڑی طاقت ہے۔ ہر بڑی طاقت کو کچھ نہ کچھ تو کرکے دکھانا ہی پڑتا ہے‘ تاکہ بھرم باقی رہے۔ ارونا چل اور لداخ سے متصل سرحدی علاقے میں ڈوکلام کے مقام پر پہلے بھی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں‘ مگر اس بار چین نے طے کیا کہ بھارت کو کسی بھی اعتبار سے کوئی رعایت نہی دینی۔ ایک حالیہ جھڑپ میں اعلیٰ افسران سمیت 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت نے نئی دہلی کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن بھی کھل کر میدان میں آگئی ہے۔ آنا ہی تھا کیونکہ مودی سرکار ہندو ازم پر مشتمل اپنے انتخابی ایجنڈے کو بڑھاوا دینے کے نام پر حماقت کے مظاہرے کیے جارہی ہے۔ بھارت بھر میں مسلمانوں کو تیسرے یا چوتھے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہر معاملے میں مسلمانوں کو ملوث کرکے ہندو اکثریت کو اُن کیخلاف کرنے کی سازش پر عمل ہو رہا ہے۔ ملک بھر کے سنجیدہ ہندو بھی معاملات کی نزاکت کو دیکھ اور سمجھ رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مودی سرکار کی پالیسیاں کسی بھی اعتبار سے ملک کے مفاد میں نہیں۔
بھارت کے بیشتر پڑوسی اس پوزیشن میں نہیں کہ اُسے قابلِ رشک انداز سے سبق سکھا سکیں۔ بِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مصداق بھارت نے چین سے چھیڑ چھاڑ کی ہے‘ اسے کہتے ہیں آ بیل‘ مجھے مار۔ پاکستان اور دیگر پڑوسی خود کچھ زیادہ نہیں کرسکتے۔ ایسے میں چین اُن کی امیدوں کا مرکز بن کر ابھرا ہے‘ لہٰذا تمام پڑوسی چین سے یہی کہیں گے '' جا بیل‘ اُسے مار!‘‘۔