گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا ایک نئی معیشت کے میدان میں داخل ہو چکی ہے‘ جسے ورلڈ اکنامک فورم کے بانی کلاز شوابے نے چوتھے صنعتی انقلاب کا نام دیا۔ اس معیشت کی خاصیت یہ ہے کہ صارفین‘ وسائل اور کام کرنے والوں کو ٹیکنالوجی کی وساطت سے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ تجربہ سب کے لئے فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ اس کی بنیادی سی مثال عالمی سطح پر کام کرنے والی وہ ٹرانسپورٹ کمپنیاں ہیں‘ جہاں متعلقہ ایپس کے ذریعے رابطہ کر کے آپ گاڑی منگوا سکتے ہیں۔ ایسی ہی ایک بڑی کمپنی کی دیکھا دیکھی کسی پاکستانی نے خلیجی ممالک میں ایک اور کمپنی بنا ڈالی اور پھر پہلے والی کمپنی نے اسے خرید کر اپنے اندر جذب کر لیا؛ اگرچہ اس کا انفرادی نام ابھی قائم ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں بڑی مچھلی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں کھا کر موٹی تازی ہو جاتی ہیں۔ ایسی ہی تین بڑی کمپنیوں نے اس وقت دنیا بھر میں روایتی ٹیکسیوں کی جگہ سنبھال لی ہے۔ فقط ان تینوں کی مجموعی مالیت کو یکجا کریں تو عالمی طور پر دنیا کے اٹھائیسیوں دولت مند ملک کے برابر بنتی ہے۔ صرف ایک بڑی کمپنی کی مالیت اس وقت بہتر ارب ڈالر کے قریب ہے؛ اگرچہ گزشتہ دو برسوں میں اس میں کچھ کمی آئی ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ تینوں کے پاس ایک بھی اپنی کار نہیں ہے جو کرایے پر چلتی ہو۔ ان کمپنیوں کے تحت چلنے والی سب گاڑیاں عام لوگوں کی ملکیت ہیں۔ زیادہ تر کاروں کے مالک کسی ایسی کمپنی کے ساتھ رابطہ کر کے خود کو اور کار کو رجسٹرڈ کرواتے ہیں‘ جس کی شہرت اچھی ہو اور مارکیٹ میں جس کی اچھی ساکھ ہو۔ کمپنیاں ان کے پس منظر‘ تعلیم‘ ڈرائیونگ لائسنس‘ صحت اور دیگر کوائف جمع کرتی ہیں۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ انہوں نے کوئی جرم تو نہیں کیا‘ انہیں کمپنی کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کمال یہ ہے کہ ایسے کار مالکان وقت کی سہولت کی نسبت سے کام پر روانہ ہوتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق کام ختم کرتے ہیں‘ یعنی ان پر یہ پابندی نہیں ہے کہ فلاں وقت انہوں نے کام شروع کرنا ہے اور فلاں وقت پہ ختم کرنا ہے‘ وہ کسی بھی وقت کام شروع کر سکتے ہیں اور جب چاہیں ختم کر سکتے ہیں؛ البتہ روزانہ ڈرائیوز کی ایک مخصوص تعداد ضرور پوری کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ نے پاکستان میں یہ سروس کبھی استعمال کی ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کے موبائل فون پر ہی کرایے کی کل رقم کا پیغام آ جاتا ہے‘ ہیرا پھیری نہیں ہو سکتی۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ سے زیادہ رقم وصول کر لی جائے۔ شفافیت ہی اس کی خوبی ہے جو ٹیکنالوجی نے فراہم کر دی ہے۔ اگر آپ نے اپنا برقی ڈاک کا پتا بھی دیا ہوا ہے تو آپ کو سب تفصیل مل جاتی ہے ‘ اور اگر آپ کسی وجہ سے فراہم کی گئی سروس سے نا خوش یا مطمئن نہین ہیں تو اپنی شکایت بھی درج کرا سکتے ہیں‘ اس لئے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کمپنی کے طے کردہ اصولوں کو ٹیکسی چلانے والے ملحوظ رکھ رہے ہیں۔
مذکورہ بالا اور دوسری کمپنیاں جو شراکتی معیشت کے زمرے میں آتی ہیں‘ تقریباً پچیس سے ستائیس فیصد تک کمائی کو اپنا حق سمجھتی ہیں۔ آپ ٹیکسی چلانے والے کو نقد ادائیگی کرتے ہیں یا آپ نے اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کیا ہے‘ کمپنی کی جانب سے ہفتہ وار یا ماہانہ حساب کتاب کر کے گاڑی والے کے ساتھ معاملات طے کر لئے جاتے ہیں۔ اس خاکسار کو تقریباً سات سال پہلے شراکتی معیشت کے تحت چلنے والی مذکورہ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے بارے میں معلوم ہوا‘ تو اس کے بعد کبھی پیلی ٹیکسی یا کوئی اور سروس استعمال نہیں کی۔ لوگوں کے تجربات مختلف ہو سکتے ہیں‘ لیکن ساری دنیا میں ان شراکتی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔
یہ انقلاب یوں ہے کہ کسی کے پاس اگر کار گھر میں موجود ہے‘ اور وہ فارغ وقت میں اپنی آمدنی میں کچھ اضافہ کرنا چاہتا ہے تو اس پلیٹ فارم کو آسانی کے ساتھ استعمال کر سکتا ہے۔ میں نے کئی بار ایسے افراد کے ساتھ لاہور میں سفر کیا ہے جو ملازمت کرتے ہیں‘ لیکن چھٹی کے دنوں میں اپنی کار چلا کر کچھ اور کما لیتے ہیں۔ اکثر اسلام آباد سے لاہور کا سفر برسوں سے الصبح ہی کرتا آیا ہوں‘ بسوں سے۔ دو مرتبہ خوش گوار حیرانی ہوئی کہ ٹیکسی چلانے والی خواتین تھیں اور وہ بھی برقعہ پوش۔ معلوم ہوا کہ وہ کئی برسوں سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں شراکتی معیشت کے تحت چلنے والی ٹرانسپورٹ کمپنی سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق تب جڑواں شہروں میں ایک سو چالیس کے قریب خواتین اسی انتظام کے تحت اپنی گاڑیاں چلا کر اپنے خاندان کا پیٹ پال رہی تھیں۔
یہ صرف ایک شعبے کا قصہ ہے۔ بات اس سے شروع کی کہ عام لوگوں کا اس سے روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ شراکتی معیشت کا دائرہ اب کئی شکلوں تک پھیل چکا ہے۔ ان میں بھی وہی اصول ہے کہ کمپنی کے پاس خرید و فروخت کے لئے کوئی مال اسباب نہیں۔ معلوم نہیں آپ میں سے کتنے لوگوں نے ای بے کا نام سنا ہو گا۔ شراکتی معیشت کے تحت چلنے والی اس کمپنی کی بنیاد بھی کہیں امریکی ریاست کیلے فورنیا میں رکھی گئی‘ جہاں چوتھے صنعتی انقلاب کی بنیاد رکھی گئی۔ آپ کے پاس کچھ ایسی اشیا گھر میں موجود ہیں جو ابھی کام کرتی ہیں‘ اچھی حالت میں ہیں اور آپ انہیں بیچنا چاہتے ہیں‘ تو آپ اس کمپنی سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اصل سرمایہ کاری ویب سائٹ پر کی گئی ہے کہ کیسے ان کا استعمال سہل اور فوری ہو۔ جس کو اپنی کوئی چیز فروخت کرنا ہوتی ہے‘ وہ اپنی اس چیز کی تصویر لگاتا ہے‘ قیمت لکھتا ہے اور اشیا کے بارے میں کچھ تفصیل بھی درج کرتا ہے۔ خریدنے والا فون پر یا برقی ڈاک کے ذریعے مزید معلومات بھی حاصل کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے آپ اپنا کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ ہی استعمال کریں گے۔ رقم مالک کو منتقل اور اشیا آپ کو روانہ۔ یہ کاروبار لاکھوں اور کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں ڈالرز میں ہو رہا ہے۔ بڑی بڑی روایتی کمپنیوں اور سرمایہ داروں نے شراکتی معیشت کے شعبے میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ اس معیشت کا اثر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اب مکان کا کچھ حصہ کچھ دنوں کے لئے کرایے پر دینا مقصود ہو تو اس کے لئے ایڈی ایم بی کا پلیٹ فارم موجود ہے۔ یہ کمپنی پاکستان کے اکثر شہروں میں بھی کام کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اپنے گھر کی فالتو جگہ ایک دو دن کے لئے کرایے پر لگا کر اپنے لئے معقول آمدنی کا بندوبست کر رہے ہیں۔ یہ کاروبار دنیا کے ان بڑے شہروں میں زیادہ ہے‘ جہاں سیر و سیاحت کے لئے لوگ باہر سے آتے ہیں۔ گھر مالکان کو آمدنی‘ کمپنی کو فائدہ اور صارفین روایتی ہوٹلوں میں بھاری کرایے سے بچ جاتے ہیں۔
اب زندگی کا ایسا کوئی شعبہ نہیں‘ جہاں ہم شراکتی معیشت کا پھیلائو نہ دیکھ سکیں۔ گھر کی صفائی یا مرمت کرانی ہو‘ تو اس کے لئے کچھ اور کمپنیاں ہیں۔ سودا سلف منگوانا ہو یا تازہ کھانا کسی ریسٹورنٹ سے‘ گھر بیٹھے یہ سب سمارٹ فون اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے کر سکتے ہیں۔ لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں اور نئی دولت پیدا ہو رہی ہے۔ ابھی تو اس نئے انقلاب کی شروعات ہے۔ اس کے امکانات اتنے بلند اور وسیع ہیں کہ حال کی نظر مستقبل کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ موجودہ کساد بازاری اور معیشت کا سکڑائو وقتی ہے۔ وبا پر قابو پاتے ہی حالات بدلنا شروع ہو جائیں گے۔ فائدے میں مگر وہی رہیں گے‘ جنہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔