ملکی سیاست میں تبدیلی کے اشارے ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ پہلے چینی مافیا کے خلاف تحقیقات کی رپورٹ عام کی گئی جس میں جہانگیر ترین کا نام بھی آیا۔ جہانگیر ترین فوری طور پر کوئی پنڈورا باکس کھولنے سے گریز کرتے رہے لیکن وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے انٹرویوز نے حکمران جماعت اور حکومت کے اندر کی صورت حال عوام کے سامنے رکھ دی ہے۔ فواد چوہدری کے بیانات پر تحریک انصاف کے اہم لیڈر ناراض نظر آ رہے ہیں اور انہیں تحریک انصاف کا بنیادی رکن نہ ہونے کے طعنے بھی دیئے جا رہے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ طعنے دینے والے خود بھی پی ٹی آئی میں دوسری سیاسی جماعتوں سے وفاداریاں چھوڑ کر شامل ہوئے تھے۔
فواد چوہدری کا مقدمہ کیا ہے؟ ان کے مقاصد کیا ہیں؟ ان سوالوں کے جواب تو فوری دستیاب نہیں لیکن ان کی کہی باتوں سے اقتدار کے ایوانوں میں جاری کشمکش اور تبدیلی کے نعروں سے مایوسی صاف نظر آ رہی ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی لڑائی میں سیاسی کلاس کھیل سے باہر ہو گئی، اس سیاسی خلا کو ایسے نئے لوگوں نے پُر کیا جن کا سیاست سے تعلق نہیں تھا، صرف آئیڈیا کافی نہیں ہوتا اس پر عملدرآمد کیلئے ٹیم بھی بنانا ہوتی ہے، عمران خان کی بنیادی ٹیم ہل گئی جبکہ نئے آنے والے لوگ ان آئیڈیاز کے ساتھ جڑے ہوئے نہیں ہیں۔
آئیڈیاز سے کون جڑا ہے اور کون نہیں؟ اس پر دعوے تو بہت ہیں لیکن فواد چوہدری نے غیرمنتخب عہدیداروں کو فیصلہ سازی میں مرکزی کردار ملنے کی نشاندہی کی ہے جو کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے سب سے بڑی کمزوری کی علامت ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں پر الزام تھا کہ وہ خاندان کے ذریعے فیصلے اور حکومت کرتے ہیں، عمران خان کا خاندان سیاست میں نہیں لیکن پھر بھی کہا گیا کہ عہدے ذاتی دوستوں کو دیئے گئے اور تنقید بھی ہوئی۔ اس وقت یہ کہا گیا کہ یہ دوست کپتان کی جدوجہد کا حصہ اور نظریاتی کارکن ہیں اس لیے کپتان کے وژن پر بہتر طور پر عمل کرا سکیں گے۔ اس دلیل کی بھی فواد چوہدری نے دھجیاں اڑا دیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگوں کو اہم عہدے دیئے گئے جو ڈکٹیشن پر کام کرتے رہیں اور ان کا وژن نہ ہو، ایک عام سی حکومت چلا رہے ہیں، لوگوں کی حکومت سے توقعات پوری نہیں ہوئیں، حکومت کا گراف نیچے گیا ہے۔ کابینہ میں بیٹھے شخص کا یہ اعتراف حکومت کے لیے سبکی کا باعث تو ہے، لیکن حکمران جماعت کو سوچنا ہوگا کہ ان سے غلطیاں کہاں ہوئیں؟ غیرمنتخب مشیروں کے علاوہ بیوروکریٹس کو تمام معاملات سونپ دینے کی پالیسی نے آج اس جماعت اور حکومت کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔
فواد چوہدری کے بیانات پر سنجیدگی سے غور نہیں ہوا، الٹا ایسی خبریں آ رہی ہیں جن سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ پارٹی کے اندر پھوٹ بڑھ رہی ہے۔ اس کا اظہار کابینہ اجلاس کی روداد سے ہوتا ہے جو تمام میڈیا میں یکساں رپورٹ ہوئی ہے۔ ان رپورٹس کے مطابق کابینہ اجلاس میں مذکورہ بیانات پر خوب گرما گرمی ہوئی۔ فیصل واوڈا نے سینئر قیادت پر الزام لگایا کہ وہ خود کو وزیر اعظم سمجھنے لگی ہے، کابینہ کے اندر سے سازشیں ہو رہی ہیں۔ اسد عمر اور شاہ محمود کے بارے میں فیصل واوڈا نے کہا کہ وہ خود وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے بیٹھے ہیں ۔ کابینہ اجلاس کی روداد سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم فیصل واوڈا کی بھڑاس نکلنے تک خاموش یا پرسکون رہے۔ فیصل واوڈا نے یہ بھڑاس نکال لی تو وزیراعظم نے انہیں خاموش کرایا اور وزرا کو چھ ماہ کے اندر کارکردگی بہتر بنانے کی ہدایت کرکے بظاہر یہ جھگڑا نمٹا دیا۔ بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ فیصل واوڈا بھی اعلیٰ قیادت کے اشارے پر گرج برس رہے تھے اور مقصد حاصل ہونے کے بعد یہ گرما گرم میچ وقتی طور پر روک دیا گیا‘ لیکن ایسے معاملات رکتے نہیں ہوتے۔
فواد چوہدری کے بیانات کے علاوہ حکمران جماعت میں الیکشن سے عین پہلے اور الیکشن نتائج کے بعد شامل ہونے والوں کی نئی منزلوں کی تلاش کے اشارے مل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں آنے والے ایک اہم لیڈر کی واپسی کی خبریں بھی آئیں لیکن حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ذاتی مصروفیات کی وجہ سے ملک سے باہر گئے ہیں۔
عرصہ دراز سے گوشہ نشیں اور خاموش سابق صدر آصف علی زرداری بھی اب بول پڑے ہیں۔ پارٹی کے صوبائی صدر قمر زمان کائرہ سے فون پر گفتگو کا متن‘ جو میڈیا کو جاری کیا گیا، دلچسپی سے خالی نہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ پنجاب میں جیالے متحد رہیں جلد اچھا وقت آنے والا ہے، ریاست کو بلوچستان کے بارے میں زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے، اگر اکبر بگٹی جیسا کوئی دوسرا واقعہ ہوگیا تو حالات کو سنبھالنا کسی کے بس میں نہیں رہے گا‘ موجودہ حالات میں حکومت نے لوگوں کے لئے کچھ نہ کیا تو خوفناک صورتحال جنم لے سکتی ہے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی ذات کے بارے میں کئی طرح کی بدگمانیاں میڈیا مہم کا حصہ رہتی ہیں۔ کرپشن کے الزامات ان پر بینظیر بھٹو کی پہلی ہی حکومت میں عائد کئے گئے اور اس زور و شور سے عائد کئے گئے کہ اب کوئی ان کی صفائی دینے کی کوشش کرے تو اسے بھی مشکوک سمجھا جاتا ہے‘ لیکن ایک بات طے ہے کہ آصف علی زرداری کی سیاسی دانش کا مقابلہ ملک کی موجودہ سیاسی قیادت میں کوئی کم ہی کر سکتا ہے۔ آصف زرداری نے پنجاب اور بلوچستان کے حوالے سے جو گفتگو کی ہے موجودہ حالات میں اس کی اہمیت کا ادراک سیاست کو سمجھنے والوں کو ہوچکا ہوگا۔ آصف زرداری کا چپ توڑنا بھی اہم ہے۔ بلوچوں میں غصہ اور بدگمانی بڑھ رہی ہے، آصف زرداری‘ جو خود بھی بلوچ ہیں، نے ماضی میں اپنی حکومت کے دوران بلوچستان سے معافی مانگی تھی جو ریاست کی طرف سے معافی کی اپیل تھی کیونکہ آصف زرداری ذاتی طور پر بلوچستان سے کسی بدسلوکی کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔ حالات ایک بار پھر سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
اگرچہ بہت سے دوسرے معاملات بھی توجہ طلب ہیں‘ لیکن بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ سنگین ہو چکا ہے اور اس کے سیاسی اور معاشی حقوق بھی پورے نہیں کئے جا رہے، سردار اختر مینگل کی ناراضگی اس کی عکاس ہے۔ بلوچستان کے معاشی مفادات کی حالت تو یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ میں ایک ایسی شخصیت کو بلوچستان کا نمائندہ نامزد کیا گیا جس کا بلوچستان سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ میڈیا اور بلوچ سیاست دانوں کے احتجاج پر نامزدگی واپس ہو گئی ہے لیکن یہ نامزدگی بلوچستان کے معاملات چلانے میں غیر سنجیدگی اور سوتیلے پن کی واضح عکاس ہے۔
موجودہ سیاسی صورت حال میں سابق صدر زرداری کی طرف سے پنجاب کے جیالوں کے لیے پیغام بھی اہم ہے، پنجاب میں پیپلز پارٹی بہت سکڑ چکی ہے جس کے بہت سے عوامل ہیں لیکن آصف علی زرداری کا پیغام بتاتا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں موجود خلا کو پُر کرنے کی سوچ رکھتی ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں پرانی پارٹی بننے میں بہت مشکل پیش آئے گی لیکن اگر پارٹی کے پرانے کارکن اور رہنما‘ جو دلبرداشتہ ہو کر نئے ٹھکانے ڈھونڈنے پر مجبور ہوئے تھے، واپس آ جائیں (ان کی واپسی کے اشارے بھی مل رہے ہیں) تو پیپلز پارٹی دوبارہ پنجاب میں فعال ہوسکتی ہے۔ سیاست ایک بار پھر رخ بدلنے کو ہے اور لگتا ہے کہ کپتان جو پہلے وکٹیں اڑا کر بیٹنگ کرنے آئے تھے اب وکٹیں بچانے پر لگے ہیں، لیکن اب وکٹیں بچانے کی حکمت عملی شاید کوئی فائدہ نہ دے، اب جارحانہ اننگز کھیلنا پڑے گی؛ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیم ہم آہنگ ہو اور وکٹ پر موجود بیٹسمین ساتھی کھلاڑیوں کو رن آؤٹ کرانے کی دانستہ کوششیں نہ کریں۔