تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     25-06-2020

موت کے بعد

میاں عثمان ایک دین دار سرکاری افسر ہیں ۔آپ جز وقتی طور پر نجی کاروبار بھی کرتے رہتے ہیں۔ میاں عثمان کے والد بھی دین سے محبت کرنے والے پابند صوم وصلوٰۃ انسان تھے۔ پیر کی شام مجھے اطلاع ملی کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے ۔ میاں عثمان کی خواہش تھی کہ میں ان کے والد کا جنازہ پڑھاؤں‘ پیر کی رات میاں عثمان کے والد کا جنازہ پڑھانے کے دوران اوراس کے بعد مجھے دنیا کی بے ثباتی کا بڑی شدت سے احساس ہونے لگا اور چند روز قبل فوت ہونے والے قابل قدر دوست ممتاز قانون دان جمیل فیضی کی یاد بھی آنے لگی۔ جمیل فیضی کا جنازہ پڑھانے کا موقع بھی مجھے ہی ملا تھا۔ نمازجنازہ پڑھانے کے بعد اس دن بھی میں نے اپنی طبیعت میں اداسی کی ایک گہری لہر کو اترتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ 
موت ایک اٹل حقیقت ہے اور دنیا کا کوئی انسان بھی اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر تمام انسانیت کا اتفاق ہے مگر اس کا سامنا کرنے کیلئے کوئی بھی انسان نفسیاتی اور طبعی طور پر آمادہ نہیں ہوتا۔ دوسروں کے لیے موت کو یقینی سمجھنے والا انسان اس بات کا گما ن کرتا رہتا ہے کہ شاید وہ طویل عرصہ تک موت سے بچتا رہے گا۔ دوسروں کے جنازوں میں شرکت کرنے والا انسان اگر دل کی گہرائیوں سے اس بات کو تسلیم کرلے کہ اس نے بھی ایک دن قبر میں اتر جانا ہے تو دنیا میں ہونے والے ظلم‘زیادتیوں اور استحصال کاباآسانی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کے بعد انسان کو اپنے پروردگار عالم کی بارگاہ میں پیش ہونا پڑے گا اور اس زندگی میں کیے گئے اعمال کے بدلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کو جنت یا جہنم میں داخل کریں گے۔ 
موت کے بعد جی اٹھنا اگرچہ ایمانیات کا تقاضا ہے‘ لیکن انسان اس بات کو اس انداز میں تسلیم نہیں کرتا کہ جس انداز میں اُس کو اِس حقیقت پر ایمان لانا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بہت سے انسانوں کی اس بدگمانی کا ذکر کیا‘ جو وہ موت کے حوالے سے رکھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ یٰسین کی آیت نمبر 77سے 79میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور (بھلا) کیا انسان نے دیکھا (غور کیا) کہ بے شک ہم نے اسے پیدا کیا ہے‘ ایک قطرے سے تو اچانک وہ صریح جھگڑالو (بن بیٹھا) ہے اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو وہ بھول گیا‘ اس نے کہا (کہ) کون زندہ کرے گا ہڈیوں کو جب کہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی۔ آپ کہہ دیجئے (کہ) زندہ کرے گا ان کو (وہی اللہ) جس نے پیدا کیا انہیں پہلی مرتبہ اور وہ ہرطرح کی پیدائش کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قیامۃ میں بہت سے انسانوں کی بدگمانی کا ذکر کیا کہ وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہڈیوں کو زندہ نہیں کر سکتے ‘ سورہ قیامۃ کی آیت نمبر 3‘4 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی قوت تخلیق کا ذکر بڑے ہی خوبصورت انداز میں یوں فرماتے ہیں : ''کیا گمان کرتا ہے انسان یہ کہ ہرگز نہیں ہم جمع کریں گے اس کی ہڈیاں ۔ ہاں کیوں نہیں (ہم تو) قدرت رکھنے والے ہیں (اس) پر کہ ہم درست کر دیں گے اس کے پور پور کو۔‘‘ سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کفار کے اعتراض کا ذکر کیا ہے‘ جو یہ بات کہتے ہیں کہ جب ہم مرنے پر ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو ہمیں کیوں کر زندہ کیا جائے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے اعتراض کے ساتھ ساتھ اپنے جواب کا ذکر بہت خوبصورت انداز میں فرمایا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 49سے 51میں ارشاد ہوا: ''اور انہوں نے کہا کیا جب ہم ہو جائیں گے ہڈیاں اور ریزہ ریزہ (تو) بے شک ہم واقعی اُٹھائے جانے والے ہیں نئے سر سے پیدا کرکے۔ کہہ دیجئے تم ہو جاؤ پتھر یا لوہا یا کوئی (اور) مخلوق اس میں سے جو بڑی معلوم ہو تمہارے سینوں میں‘ پس عنقریب وہ کہیں گے کون دوبارہ لوٹائے گا ہمیں‘ کہہ دیجئے (وہ) جس نے پیدا کیا تمہیں پہلی مرتبہ۔ پس‘ عنقریب وہ ہلائیں گے آپ کی طرف اپنے سروں کو اور وہ کہیں گے کب ہو گا وہ۔ کہہ دیجئے ہو سکتا ہے کہ وہ ہو قریب۔‘‘ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مر کے جی اٹھنے کی حقیقت کو واضح کرنے کیلئے قرآن میں ایسے واقعات کو بھی بیان کیا ہے‘ جن میں لمبا عرصہ سوئے رہنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو دوبارہ جگا دیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 259میں حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعہ کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ''یا اُس (شخص) کی طرح جو گزرا ایک بستی کے (قریب سے) اس حال میں کہ وہ گری پڑی تھی‘ اپنی چھتوں پر اس نے کہا : کیسے زندہ (آباد ) کرے گااس (بستی) کو اللہ اس کی موت (تباہی) کے بعد تو موت کی نیند سلا دیا اسے اللہ نے سو سال (تک) پھر اس نے زندہ کیا اسے (اور) کہا : کتنی دیر تم ٹھہرے رہے ہو‘ اس نے کہا: میں ٹھہرا رہا ہوں ایک دن یا دن کے بعض حصہ فرمایا: بلکہ تم ٹھہرے رہے ہو سال (تک) پس دیکھ اپنے کھانے اور اپنے پینے کی طرف وہ باسی نہیں ہوا ‘ اور دیکھ اپنے گدھے کی طرف اور (یہ اس لیے کیا ہے)‘ تاکہ ہم بنائیں تجھے ایک نشانی لوگوں کے لیے اور دیکھ (گدھے کی) ہڈیوں کی طرف کیسے ہم جوڑتے ہیں اسے پھر (کس طرح) ہم چڑھاتے ہیں ان پر گوشت (پوست) پس جب واضح ہو چکا اس پر (تو) کہا: میں جانتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو برس تک سلانے کے بعد ان کو دوبارہ بیدار کر دیا۔ اس حقیقت کا ذکر سورہ کہف کی آیت نمبر 25‘26میں کچھ یوںکیا گیا ہے: ''اور وہ ٹھہرے رہے اپنی غار میں تین سو سال اور وہ مزید رہے نو (سال)۔ کہہ دیجئے اللہ خوب جاننے والا ہے (اس مدت) کو جو وہ ٹھہرے‘ اسی کے لیے آسمانوں اور زمین کا غیب ہے کس قدر وہ دیکھنے والا ہے اور کس قدر وہ سننے والا ہے نہیں ہے‘ ان کے لیے اس کے سوا کوئی دوست اور نہیں وہ شریک کرتا اپنے حکم میں کسی ایک کو۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ یہ بات پوچھی تھی کہ وہ مردوں کوکیسے زندہ کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر 260میں یوں بیان فرماتے ہیں : ''اور جب ابراہیم نے کہا : اے میرے رب! تو دکھا مجھے کیسے تو زندہ کرے گا مردوں کو ۔ فرمایا : اور کیا نہیں تم ایمان رکھتے ‘ کہا (ابراہیم نے ) کیوں نہیں اور لیکن (میں دیکھنا اس لیے چاہتاہوں) ‘تاکہ مطمئن ہوجائے میرا دل‘ فرمایا : (اچھا) تو لو چار پرندے پھر انہیں مانوس کر لو اپنے ساتھ پھر رکھ دو ہر پہاڑ پر ان سے (ایک ایک) ٹکڑا پھرپکارو انہیں وہ آئیں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے اور جان لو کہ بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ 
ان تمام واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا میں انسانوں کو لمبا عرصہ سلا نے کے بعد دوبارہ بیدار کر سکتے ہیں اورپرندوں کے کٹ جانے کے بعد ان کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔ توان کے لیے یوم محشر انسانوں کو زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں ۔ قیامت کے روز جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جائیں گے توا یسے عالم میں انسانوں کو ان کے اعمال کے حوالے سے جواب دہ ہونا ہوگا اور حقیقی کامیابی بھی صرف اسی کو حاصل ہو گی ‘جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل سے آگ سے بچ جائے گا۔ اس حقیقت کا بیان اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 185میں کچھ یوں فرمایا ہے : ''ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور بے شک تمہیں پورا پورا دیا جائے گا تمہارے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن۔ پس‘ جو بچا لیا گیا (جہنم کی) آگ سے اور وہ داخل کر دیا گیا جنت میں یقینا وہ کامیاب ہو گیا اور نہیں ہے دنیاوی زندگی‘ مگر دھوکے کا سامان۔‘‘ 
ان آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کا اصل ہدف آخرت کی کامیابی ہوناچاہیے اور اس کو موت کے بعد آنے والی زندگی کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو موت کے بعد آنے والی زندگی کی ابھی سے تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے فضل ورحمت سے کامیاب وکامران فرمائے۔ (آمین )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved