جولائی 2015ء میں جب مسلم لیگ (ن) حکومت میں تھی‘ تو پاکستان سٹیل مل کو یہ کہہ کر بند کر دیاگیا کہ ہم سے نہیں چلائی جا تی ‘کیونکہ اس وقت تک سٹیل مل 480 ارب کے خسارے میں تھی اور2016ء میں ریلوے‘ سٹیل مل اور پی آئی اے کا خسارہ750 ارب روپے تک پہنچا کر قہقہے لگائے جا نے لگے کہ پانامہ میں ہماری جے آئی ٹی بنانے والے اب خود ہی بھگتیں گے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ وہی نون لیگی کارکنان آج اپنی ہر تقریر ‘ ٹویٹ اور ٹی وی ٹاک شوز میں پی ٹی آئی حکومت کو قومی ادارے تباہ کرنے کا ذمہ دار بتا رہے ہیں‘ نیز ساتھ یہ ضرور کہتے ہیں کہ دو سال میں اس حکومت نے کیا ہی کیا ہے؟ اور ان کے سامنے بیٹھے پی ٹی آئی کے وزیروں اور ترجمانوں کا گروہ انہیں یہ بتانے کی زحمت بھی نہیں کرتا کہ ریلوے‘ پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے یہ تینوں اہم قومی ادارے تو آپ کی ہی حکومت میں 750 ارب روپے کے خسارے میں تھے ‘ جبکہ اس کے علا وہ پاور سیکٹر کمپنیوں کا گردشی قرضہ660 بلین روپے علیحدہ سے تھا۔
اپوزیشن جب یہ کہتی ہے کہ حکومت سے کچھ نہیں ہو رہا اور اسے چلے جا نا چاہیے‘ تو یہ سب کچھ سننے والے فیصلہ کریں کہ جس حکومت اقتدار ملتے ہی قومی اداروں کے1410 ارب روپے کے خسارے کا سامنا ہو ‘ اس کی کیا حالت ہو گی؟ 2018ء میں پی ٹی آئی کی حکومت آنے سے چند ماہ پہلے تک صرف پی آئی اے406 ارب کے خسارے میں تھی ۔قومی معیشت اور اداروں کی زبوں حالی کے یہ طوق آپ اس قوم کی گردن سے باندھ کر خود لندن جا بیٹھے اور اپنے کارکنوں کے ذریعے یہ کہلاتے ہیں کہ دو سال میں حکومت نے کیا ہی کیا ہے؟ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں اور میڈیا کے ہر حصے سے پی پی سمیت ساری اپوزیشن اور ان کا ساتھی میڈیا سٹیل مل کراچی کا ڈھول بجائے جا رہے ہیں‘ لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ اسے 480 ارب کا مقروض کس نے کیا؟کیا حالت یہ نہیں تھی کہ سٹیل مل ملازمین کو تین تین ماہ تک تنخواہیں ہی نہیں ملتی تھیں؟ آپ نے کبھی سوچا تھا کہ جس گھرانے کے سربراہ کو تین ماہ مسلسل تنخواہ نہ ملے ‘اس پر کیا گزرتی ہو گی؟ آج نہیں تو کل وقت ثابت کرے گا کہ موجودہ حکومت نے پاکستان سٹیل کے ملازمین کے نچلے درجے کو کم ازکم20 لاکھ روپے یک مشت دے کر ان پر کتنا احسان کیا ہے؟
مسلم لیگ (ن) تو شاید بھول چکی کہ جب ان کے دورِ حکومت (1990-93ء) میں پاکستانی بینکوں کے ہزاروں ملازمین صبح اپنے گھروں سے مختلف بینکوں میں پہنچے تو ان کیلئے دروازے بند کرتے ہوئے روح فرسا خبر سنائی گئی کہ آپ سب کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے اور ستم ظریفی کہہ لیجئے کہ آج شہباز شریف اور خواجہ آصف سٹیل مل پر مگر مچھ کے آنسو بہا تے نظر آتے ہیں ۔جولائی2015ء میں جب مسلم لیگ (ن)نے سٹیل مل کو بند کیا تھا تو اس وقت انہیں ہزاروں ملازمین کا خیال کیوں نہ آیا‘ جن کے سامنے کھڑے ہو کر اب وہ ٹسوے بہا رہے ہیں ؟ اب‘ آتے ہی ریلوے جیسے اہم ترین ادارے کی جانب ‘جس کو دیکھتے ہوئے دکھ اور افسوس نہیں‘ بلکہ کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ پی آئی اے اور سٹیل مل کی طرح یہ بھی خسارے سے باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ریلوے نے86.2 ارب روپے خرچ کئے‘ لیکن کمائی صرف49.6 ارب ہو سکی‘ اس طرح ریلوے کو ایک سال میں36 ارب کا خسارہ برداشت کرنا پڑا۔ آج ہی نہیں ‘نہ جانے کتنی دہائیوں سے پاکستان ریلوے بھی دیگر قومی اداروں پی آئی اے‘ سٹیل مل کی طرح زبوں حالی کا شکار ہے۔
بد قسمتی کہہ لیجئے کہ پاکستان ریلوے ہی شاید اس وقت دنیا میں واحد ریلوے ہے ‘جو خسارے کا شکار ہے‘ ورنہ دنیا کی ریلویز بھر پور منافع کمانے کے علا وہ اپنے مسافروں اور ملک کو بہترین خدمات مہیا کر رہی ہیں‘ جبکہ ہماری ریلوے کی کوئی کل سیدھی ہی نہیں ہو رہی اور ملک کے دوسرے اداروں کی طرح ریلوے میں بھی لوٹ مار کا سلسلہ پاکستان بننے کے چند برس بعدسے ہی شروع ہو گیا تھا‘ ریلوے کو دنیا میں سفر کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور یہ ماحول دوست بھی ہے‘ 2016ء میں برطانیہ کے ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کی سٹڈی رپورٹ کے مطابق‘ ریلوے اس لحاظ سے ماحول دوست ذریعہ سفر ہے کہ روڈ ٹرانسپورٹ 70 ملین ٹن ( Carbon emissions)اور ہوائی جہازوں سے35 ملین ٹن اخراج کے مقابلے میں ریلوے کے ذریعے صرف2 ملین ٹن کاربن فضا میں بکھرتا ہے۔ریلوے کو زمینی ٹرانسپورٹ کے حوالے سے سب سے زیا دہ محفوظ ذریعہ سفر سمجھا جاتا ہے‘ لیکن پاکستان میں حادثات آئے روز کا معمول بن چکے ہیں۔
2013ء سے2018 ء تک ریلوے کے کل338 حادثات ہوئے اور 2019ء میں سو سے بھی زیادہ ۔ ہر دورِ حکومت میں سیا ست زدہ بھرتیوں نے ریلوے سمیت ہمارے کئی اداروں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ‘ اگر ہم دنیا کی چار پانچ ریلوے کمپنیوں کا پاکستان کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں تو 72 برس گزرنے کے با وجود ہم ان سے اس قدر پیچھے ہیں کہ ماتھا پھوڑنے کو دل کرتا ہے ۔ انڈین ریلوے کا نیٹ ورک95 ہزار کلومیٹر پر محیط ہے اور اس کے کل7321 ریلوے سٹیشن ہیں‘ جہاں سے ایک سال میں8.2 ارب مسافر سالانہ سفر کرتے ہیں اور ایک ارب سولہ کروڑ ٹن سامان کی ترسیل کی جاتی ہے۔ انڈین ریلوے میں چھوٹے بڑے دس لاکھ بارہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس کے کل 18 زون ہیں ‘جن کے انچارج جنرل منیجر عہدے کے افسر ان ہیں‘ جن کے ماتحت68 ڈویژن ہیں ‘جن کا کنٹرول ڈویژنل ریلوے منیجر عہدے کے افسران کرتے ہیں اور سات افراد پر مشتمل پروفیشنل بورڈ ریلوے کے معاملات چلاتا ہے۔ اس وقت انڈین ریلوے کا63فیصد سسٹم بجلی سے چلایا جا رہا ہے اور اس کا منافع840 ملین ڈالر ‘جبکہ ریونیو28 ارب ڈالر ہو چکاہے ۔ صرف2019 ء میں انڈین ریلوے سے8.44 ارب لوگوں نے سفر کیااور اب‘ انڈین ریلوے گجرات‘اتر پردیش‘ ویسٹ بنگال‘ کرناٹک‘ راجستھان‘ بہار‘ تامل ناڈو اور ہریانہ میں پندرہ ریلوے سٹیشنز پر ملٹی فنکشنل کمپلیکس تعمیر کرنے جا رہی ہے‘ تاکہ اس سے ریلوے کی آمدنی مزید بڑھائی جا سکے۔
ذہن نشین رہے کہ 51.4 ارب ڈالر پر محیط بجٹ کی حامل جرمن ریلوے کمپنی کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے نیٹ ورک کے تین لاکھ دس ہزار ملازم ہیں‘ جو اس کے پانچ ہزار سات سو ریلوے سٹیشن اور33,488کلومیٹر طویل ریلوے لائنوں کیلئے کام کرتے ہیں۔ صرف2017ء میں جرمنی اور چین کے درمیان80 ہزار کنٹینرز کی ترسیل ریلوے نے انجام دی ۔ جرمن ریلوے کیلئے20 افراد پر مشتمل سپر وائزری بورڈ کام کرتا ہے۔فرانس ریلوے کے دو لاکھ ستر ہزار ملازمین 120 ممالک میں مصروف عمل ہیں۔ اس کی ریلوے لائن30 ہزار کلومیٹر طویل ہے ‘ جس میں سے26 سو کلومیٹر ہائی سپیڈ نیٹ ورک پر محیط ہے ۔فرانس کی کل15 ہزار ٹرینیں ہیں‘ جبکہ روس کی ریلوے لائن85 ہزار کلومیٹر طویل ہے‘ جس کے ملازمین کی تعداد ساڑھے سات لاکھ ہے‘ جو روس سمیت دنیا کے چالیس ممالک میں کام کر رہے ہیں ۔روس کی ریلوے سالانہ د وارب ٹن سامان اور ایک ا رب کے قریب مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچاتی ہے ۔