تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     26-06-2020

جسے پیا چاہے!

بے جان‘ بدحال‘ پریشان اپوزیشن گزشتہ اڑھائی سال سے دل گرفتہ اور دربدر ہے اور اس کی وجہ صرف ایک ہے کہ اس کا ''پِیا‘‘ اس سے سخت بیزار ہو گیا ہے۔ جس پِیا کے ساتھ اپوزیشن کا برسوں کا یارانہ تھا‘ اس میں بد اعتمادی کی ایک بہت بڑی خلیج حائل ہو چکی ہے۔ تھوڑے بہت فطری سے گلے شکوے ہوتے تھے‘ جنہیں اپوزیشن دور کر کے ''پِیا‘‘ کو راضی کر لیا کرتی تھی‘ ہلکی پھلکی پیار محبت بھری ناراضیاں ہو جایا کرتی تھیں‘ کْچھ دن ہجر و فراق میں گزرتے تھے‘ مصلح سمجھا بجھا کر دونوں میں غلط فہمیاں دور کروا دیتے تھے اور'' پِیا‘‘ بھی درگزر کر دیا کرتا تھا۔
''پِیا‘‘ کبھی پنجاب کے قریب ہو جاتا تھا‘ کبھی سندھ کے اور پھر ''پِیا‘‘ نے ایسا راستہ نکالا کہ دونوں ہی ناراض نہ ہوں‘ ایک کو اپنے پاس جڑواں شہر میں بڑے گھر میں بلا لیتا تھا اور دوسرے کو لاہور اور کراچی والا گھر دے دیتا تھا‘ تاکہ دونوں اس کے قریب بھی رہیں‘ اس سے بے وفائی بھی نہ کریں اور کسی دوسرے سے آنکھیں بھی نہ ملائیں۔ پھر'' پِیا جی‘‘ دونوں کو سمجھاتے بھی رہتے تھے کہ آپس میں بھی نہیں لڑنا اور کسی اور طرف بھی نہیں دیکھنا‘ لیکن پھر ایسا ہوا کہ دونوں محبوبان نے ''گورے پِیا‘‘ سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دیں‘ اس کے ناز نخرے اٹھانا شروع کر دیے‘ چوری چوری ''گورے پِیا‘‘ سے ملنا جْلنا شروع کر دیا۔ ایسے گماشتے رکھ لیے جو ''پِیا جی‘‘ کو بائی پاس کر کے ''گورے پِیا‘‘ تک پیغام رسانی کا کام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ''گورے پِیا‘‘ کے کہنے پر ایسے ایسے ہمسایوں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دیں جنہوں نے کبھی بھی وفا نہیں کی اور ہمیشہ دشمنوں والا سلوک کیا اور اس گھر کو برباد کرنے کے لیے سازشیں کیں‘ مارا پیٹا یہاں تک کہ دو بھائیوں کو لڑا کر الگ کر دیا۔ بے وفائی کی داستانیں یہاں تک پہنچیں کہ ''گورے پِیا‘‘ کو ایسی شکایتیں کی گئیں کہ ''پِیا جی‘‘ کا سیاست اور گھریلو امور میں عمل دخل کم کریں ورنہ ''پِیا جی‘‘ ہمیں فارغ کر دیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ '' پِیا جی‘‘ کو بالکل ہی بھلا دیا اور اعلانِ جنگ کر دیا‘ تمام عہد و پیمان ختم کر دیے‘ ماضی کی عنایتوں کو ٹوکری میں ڈال دیا‘ پھر ''پِیا جی‘‘ کے خلاف گلی بازاروں میں باتیں کرنا شروع کر دیں۔ اچھے وقتوں کی باتوں کو‘ بند کمرے کے رازوں کو سرِ بازار بیان کرنا شروع کر دیا اور ''پِیا جی‘‘ کا پتا بالکل ہی صاف کر دیا اور ایسا رویہ اختیار کیا کہ واپسی کے تمام راستے بند ہونا شروع ہو گئے۔
اسی دوران یہ دونوں اپنی مالی کرپشن کی گرفت میں آئے اور جیلوں کی ہوا کھانا پڑی‘ جیلوں سے بچنے کے لیے تمام پاپڑ بیلے گئے‘ منت سماجت کی گئی‘ آنکھیں دکھائی گئیں‘ پھر بلیک میل کیا گیا اور دھمکیاں بھی دی گئیں‘ یہاں تک کہ آڈیو وڈیو ر یکارڈنگ کر کے سب کو بلیک میل کرنے کے پیغامات بھی پہنچائے گئے۔ ''پِیا جی‘‘ کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ بے وفائی میں اس حد تک چلے جائیں گے کہ برسوں پرانے تعلق کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھیں گے۔ اب دونوں اس بے رخی کو اپنا دشمن ہی سمجھ بیٹھے۔ اس دوران کْچھ بزرگوں نے‘ کْچھ مصالحت پسندوں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ اتنا دور نہ جائیں‘ فاصلے اتنے نہ بڑھائیں‘ زبان درازی اتنی نہ کریں کہ ''پِیا جی‘‘ کو منانا اور ''پِیا جی‘‘ کا مان جانا مشکل ہو جائے‘ لیکن لگائی بجھائی کرنے والے اور والیوں نے ایک گْتھی بھی نہ سلجھنے دی اور معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے گئے۔ ''پیا جی‘‘ نے گھر تو چلانا ہی تھا‘ جب اپوزیشن کے ان دو کزنز کی بے وفائی کی داستانیں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں تو ایک اور محبوب نے دونوں کے خلا کو پْر کرنے کے لیے ''پِیا جی‘‘ سے رابطے بڑھائے اور پھر دونوں سابقین کا پتا صاف کیا اور خود '' پِیا جی‘‘ کا من جیت لیا‘ اور اب تک ایسا کْچھ نہیں کیا کہ جسے بے فائی کا نام دیا جا سکے۔
دو اڑھائی سال ہونے کو ہیں‘ امور چلائے جا رہے ہیں‘ گھر کا بہت بُرا حال ہو چکا تھا‘ جسے بڑی محنت سے ان مشکلات سے نکالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ''پِیا جی‘‘ تجربہ کار ہونے کے ناتے پوری سپورٹ کر رہے ہیں‘ ہر مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے ہیں‘ کورونا کا مسئلہ ہو یا ہمسایوں کی طرف سے چیلنج‘ سب ایک ساتھ ہم آواز کھڑے ہو کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ نا تجربہ کاری کی وجہ سے امور چلانے میں‘ فیصلہ سازی میں‘ گرفت کرنے میں مشکلات ضرور ہیں‘ لیکن ابھی تک ''پِیا جی‘‘ کو کسی مسئلے پر ڈِچ نہیں کیا‘ معمولی نوعیت کے اختلافات کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی گئی‘ گھر کو برباد کرنے والے تمام مافیاز پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے‘ سب اپنی اپنی جگہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں‘ لیکن ان کو قابو کرنا بدستور مشکل کام ہے‘ لیکن ناممکن نہیں۔ کْچھ مسائل ایسے ہیں جن کو حل کرنا ضروری ہے‘ کچھ لوگ اب بھی ایسے ہیں جن کی موجودگی ''پِیا جی‘‘ سے تعلقات خراب کر سکتی ہے اور وہ بدستور اپنی حرکتوں کی وجہ سے ''پِیا جی‘‘ کو دل گرفتہ کر رہے ہیں۔ گھر سب کا ہے گھر کو سیدھا کرنا ہے۔ اگر سابقین کو گھر برباد کرنے کی سزا دی گئی ہے تو موجودہ کو بھی گھر خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ''پِیا جی‘‘ کو راضی رکھنا ہے تو پھر بْرے لوگوں اور لگائی بْجھائی کرنے والوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا‘ورنہ معاملات پھر خراب ہو جائیں گے۔
اب گھر میں بھی اختلافات کی باتیں شروع ہو چکی ہیں‘ پہلے ایک آواز بلوچستان سے پھر دوسری آواز بھی بلوچستان سے اُٹھ چکی ہے‘ ٹیم کے دیگر ارکان آپس میں الجھ رہے ہیں اور الزامات عائد کر رہے ہیں اور کْچھ حساس ترین مسئلوں کو بھی بار بار چھیڑا جا رہا ہے۔ رعایا کو روٹی روزی کے وسائل چاہئیں‘ ان سب کو حل کرنا گھر کے بڑے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ''پِیا جی‘‘ کو منانے کی سابقین پوری کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن سابقین کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ اپنے ناراض ''پیا‘‘ کو کیسے منائیں‘ اس کا دل کیسے جیتیں؟ ''پیا‘‘ کے من کی مَیل اور بددلی کو وہ کیسے دور کریں‘ وہ کبھی اپنے ''پِیا جی‘‘ کے بہت قریب ہوا کرتے تھے‘ دوبارہ کھویا مقام حاصل کرنے کے لیے ''پِیا جی‘‘ کورام کرنے کے لیے بڑے جتن کیے جارہے ہیں‘ لیکن ''پِیا‘‘ ہیں کہ ابھی نہیں مان رہے۔ اس لیے کہ ابھی موجود نے تمام کوتاہیوں کے باوجود بے وفائی نہیں کی۔ بائی پاس نہیں کیا‘ کسی اور سے نہ کالے سے نہ گورے سے پینگیں بڑھانے کی کوشش نہیں کی‘ لیکن ''پِیا جی‘‘ چاہتے ہیں کہ معاملات شفاف انداز میں اچھی ٹیم کے ساتھ چلائے جائیں اور جو لوگ مسائل پیدا کر رہے ہیں ان کو فارغ کر دیا جائے۔ باہمی چپقلشوں کو ختم کیا جائے اور ایسا کوئی کام نہ کیا جائے کہ ''پِیا جی‘‘ کے لیے بار اٹھانا مشکل ہو جائے۔ جس کے بعد گھر کے بڑے نے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں‘ لیکچر دیا ہے‘ لیکن ٹیم ممبرز باز نہیں آرہے اور اپنے کپڑے سرِ بازار دھو رہے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سالانہ حساب کتاب سے فارغ ہو کر وہ نا پسندیدہ اور مسائل پیدا کرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ گھر کے بڑے نے اپوزیشن اور اپنوں سے خطاب بھی کیا ہے‘ ان کے لب و لہجے میں پہلی بار ایک ٹھہراؤ دیکھا گیا۔ دھیمے لہجے میں بات کی گئی سابقین کو درخواست کی گئی‘ سابقین نے بھی پہلی بار ان کی تقریر کے دوران کوئی ہلہ گلہ نہیں کیا‘ لیکن دو باتیں وہ ایسی کر گئے ہیں کہ ان کی پکڑ ہو گی اور سوشل میڈیا کا سہارا بھی لیا جائے گا‘ دونوں باتیں ہی سنجیدہ اور حساس ہیں‘ لیکن ایک مسئلہ بہت زیادہ حساس ہے جس کی وضاحت نہ کی گئی تو معاملہ آگے بڑھے گا اور مشکلات بھی بڑھیں گی‘ دیکھئے کیا ہوتا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved