تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     05-06-2013

نئی حکومت پرانے چیلنج

میاں محمد نواز شریف کے بحیثیت وزیراعظم پاکستان حلف اُٹھانے کے ساتھ ہی پُر امن اور جمہوری انتقالِ اقتدار کے اُس عمل کا آخری مرحلہ بھی مکمل ہو جائے گا جس کا آغاز 11مئی کو ملک میں عام انتخابات کے انعقاد سے ہوا تھا۔یہ مرحلہ دراصل قراردادِ مقاصد کی اُس شق کی عملی شکل ہے جس کے تحت پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے طے کیا تھا کہ پوری کائنات پر حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو حاصل ہے،تاہم اُس کی عائد کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے ریاستی اختیارات کو عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کیا جائے گا۔ بد قسمتی سے ماضی میں اس بنیادی اصول سے انحراف کیا گیا۔عوام کی مرضی کے برعکس اُن پر آمرانہ حکومتیں مسلّط ہوتی رہیں لیکن بالآخر جمہوریت کو فتح حاصل ہوئی؛ تاہم اس مقام تک پہنچنے میں جمہوری سیاسی عمل کو کٹھن اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ طاقت کے دو مراکز یعنی سربراہ مملکت اور وزیر اعظم (پارلیمنٹ) کے درمیان چپقلش کے گرد گھومتی رہی ہے۔ اس کی وجہ انگریزوں سے ورثہ میں حاصل ہونے والا آئینی و قانونی ڈھانچہ (1935ء ایکٹ) تھا‘ جس کے تحت سربراہِ مملکت یعنی گورنر جنرل کو پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے مقابلے میں بہت زیادہ اختیارات حاصل تھے۔1947ء کے بعد نئے آئین کے تحت کوئی بھی گورنر جنرل اپنے اختیارات سے دستبردار ہو کر پارلیمنٹ یعنی وزیر اعظم کو بااختیار بنانے پر راضی نہیں تھا۔ جب1954ء کے آئینی مسودے میں گورنر جنرل کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی گئی تو گورنر جنرل نے اسمبلی کی چھُٹی کردی تھی۔ اس گورنر جنرل نے ایک سال قبل یعنی 1953ء میں ایک اور وزیراعظم کو اپنے گھر چائے کے بہانے بُلا کر برطرفی کا آرڈر اُن کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ سکندر مرزا کے اصرار پر‘ جو 1956ء میں پاکستان کا گورنر جنرل تھا، 1956ء کے آئین کے تحت وزیر اعظم کے تقرر کا اختیار قومی اسمبلی سے چھین کر صدر مملکت کو دیا گیا کیوں کہ سکندر مرزا کو یہ منصب سونپنے کا معاہدہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔سکندر مرزا نے صدر کے عہدے پر براجمان ہو کر پاکستان میں محلاتی سازشوں پر مبنی سیاسی کلچر کوجس طرح پروان چڑھایاوہ ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ مارچ1956ء سے اوائل اکتوبر 1958ء تک ساڑھے اٹھارہ ماہ کے عرصہ کے دوران میں پاکستان میں چار دفعہ حکومتیں بدلیں اور چار وزرائے اعظم آئے کیوں کہ قومی اسمبلی کے ارکان میں سے وزیر اعظم کی تقرری کا اختیار صدر کے پاس تھا۔ پاکستان کے فوجی حکمران وزیراعظم کے نام سے اس قدر الرجک تھے کہ ان میں سے پہلے دو یعنی ایوب خاں اور یحییٰ خاں نے اس اُلجھن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے براہ راست مارشل لاء اور صدارتی نظام کے تحت حکومت کی۔جنرل ضیاء کے بس میں ہوتا تو وہ بھی اس روایت پر چلتے لیکن1973ء کے آئین کی دفعہ 6کے پیشِ نظر اُسے ایوب خاں کی طرح آئین کو یکسر منسوخ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔تاہم پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے آٹھویں ترمیم کو آئین کا حصہ بنا دیا گیا۔جنرل مشرف نے ضیاء الحق کی تقلید کی اور سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے وہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے جو دراصل 1973ء کے آئین کے تحت وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو تفویض کیے گئے تھے۔ اس تناظر میں گزشتہ پارلیمنٹ نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے اختیارات کو بحال کرکے ناقابل فراموش کارنامہ سر انجام دیا۔ اس کا کریڈٹ پچھلی حکومت اور خصوصاََ صدر آصف علی زرداری کو جاتا ہے جنہوں نے رضاکارانہ طورپر اپنے اختیارات پارلیمنٹ کو واپس سونپ دیے‘ یوں ملک میں پارلیمانی نظامِ حکومت کے راستے میں کھڑی رُکاوٹوں کو دور کر کے عوام کی نمائندہ حکومت کو صحیح معنوں میں بااختیار اور طاقت ور حکومت بننے کا موقع دیا۔ لیکن آئینی لحاظ سے بااختیار ہونا کافی نہیں ۔نئی حکومت یعنی وزیراعظم نوازشریف کو عملی طورپر ثابت کرنا ہو گا کہ وہ واقعی ایک بااختیار وزیراعظم ہیں۔اس کا اندازہ آئندہ آنے والے چند دنوں میں اُس وقت ہو گا جب وہ ملک کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو نئی جہت دیں گے‘ جس کی بدولت اندرونی مسائل یعنی توانائی کا بحران،بے روزگاری،غربت،امیر اور غریب میں روز افزوں فرق اور دہشت گردی پر مستقل بنیادوں پر قابو پایا جا سکے گا۔ اگر ایسا ہوا تو بیرونِ ملک پاکستان کا بطور ایک پُرامن، اعتدال پسند اور اچھے ہمسایہ ملک کی حیثیت سے امیج اُبھرے گا۔اس سمت میں فوری اور موثر قدم اُٹھانے کی اس لیے اشد ضرورت ہے کیوں کہ اب تک ملک کے داخلی معاملات سے نمٹنے کے لیے جس پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے اُس میں ترجیحات کو خصوصاََ مختلف شعبوں کے لیے فنڈز کی تقسیم کو مناسب ترتیب نہیں دی جا سکی۔اس کی وجہ سے پاکستانی معاشرے میں نہ صرف عمودی لحاظ سے مخلف طبقوں کے درمیان فرق میں اضافہ ہواہے‘ بلکہ اُفقی طور پر بھی مختلف علاقوں میں ناہمواری کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ انہی پالیسوں کی وجہ سے عوام کے طبقات کو تعلیم، صحت، روزگاراور ترقی کے یکساں مواقع میسر نہیں۔سیاست میں انتہا پسندی، عدم برداشت اور علاقائی عصبیت کے رجحانات انہی پالیسیوں کی وجہ سے ہیں۔بیرونی محاذ پر افغانستان کے مسئلے اور بھارت کے ساتھ مساویانہ اور پُرامن بنیادوں پر تعلقات استوار کرنے میں پاکستان جو بارآور اور موثر کردار ادا کر سکتا ہے‘ وہ ابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی گزشتہ کئی دہائیوں سے سویلین حکومت کے حلقہ اختیار سے باہر رہی ہے۔اسے واپس اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ایک متبادل لیکن ٹھوس نکتۂ نظر(Narrative)کی ضرورت ہے۔اب تک کوئی ایسی چیز سامنے نہیں آئی۔ جو ہم سُن رہے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے اربوں روپے کا سرکلر ڈیٹ (قرضہ) ادا کرنا ہے،جسے کچھ اِدھر سے اور کچھ اُدھر سے اکٹھا کر کے ادا کیا جائے گا۔افغانستان کے بارے میں نئی حکومت کی کیا سوچ ہے کیا وہ اُس پالیسی کو جاری رکھے گی جس کی وجہ ہے نہ صرف ہماری سالمیت اور اقتدار خطرے میں ہے بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی یک وتنہا ہو رہے ہیں۔بھارت کے ساتھ گزشتہ 9برس سے امن مذاکرات جاری ہیں۔مانا کہ یہ مذاکرات یکسر بے سودنہیں رہے اور ان کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی ہے‘ لیکن بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات نہ صرف علاقائی سطح پر بلکہ خود پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور امن کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ان دونوں محاذوں پر نئے وزیر اعظم کو جن کی قائدانہ صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے،قوم نے بھاری مینڈیٹ دیا ہے،انتہائی جرأت مندانہ اور دُوررس مضمرات کے حامل اقدام کرنا ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved