میرے سامنے میری بھتیجی لیپ ٹاپ لئے بیٹھی دو گھنٹے سے انتظار کررہی ہے کہ اس کی ٹیچر کب آن لائن ہوگی؟ تاکہ وہ اپنی یونیورسٹی کی پریزنٹیشن دے سکے‘ اس کے ساتھ پندرہ اور کلاس فیلو زبھی اپنے اپنے گھروں سے منتظر ہیں‘ لیکن ٹیچر کے گھر میں لائٹ اور انٹرنیٹ کا مسئلہ ہوگیا ہے اور آن لائن کلاس تعطل کا شکار ہوگی ہے اور یہ روز کا معمول ہے۔میں سوچ میں پڑھ گئی کہ اگر دارالحکومت‘ اسلام آباد میں یہ حال ہے تو دُوردراز کے علاقوں میں عوام کے لیے بجلی‘ نیٹ اور کمپیوٹر تک رسائی کتنی مشکل ہوگئی؟
زندگی 2020ء میں بدل کر رہ گئی ہے۔ روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی آ چکی ہے۔ ہر چیز جیسے رک سی گئی ہو والی صورت ِ حال ہے۔کورونا کی وبا جان لیوا ہے ‘ لہٰذابچوں کو اس سے بچانے کی غرض سے درس و تدریس کا عمل معطل ہے‘ یعنی ملک بھر میں سکولز‘ کالز اور یونیورسٹیاں بند ہیں۔ طلبا اور اساتذہ کی اکثریت گھر بیٹھے ہیں اور انتظار کررہے ہیں کہ کب یہ جان لیووبا ختم ہو گی اور وہ دوبارہ سے تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے۔تعلیم طالب علموں‘ اساتذہ‘ والدین ‘انتظامیہ‘ کتب فروش‘ تاجروں‘ محکمہ تعلیم اور پرائیوٹ سکول مالکان کی اکائیوں پر کھڑی ہے۔یہ ہر اکائی اس شعبے کیلئے بہت اہم ہے۔کورونا کی وجہ سے جب تعلیمی سلسلہ رک گیا تو اس نے بہت سے افراد کو متاثر کیا ‘جس میں طالب علم اور اساتذہ سرفہرست ہیں ‘لیکن ان لوگوں کو بھی مت بھولیں ‘جو بالواسطہ اس شعبے سے وابستہ ہیں؛ جیسے مالی‘ گارڈز‘ ڈرائیورز‘ آیا ‘ خاکروب ‘کینٹین والے ‘سٹیشنری والے‘ہوسٹل والے‘لائبریرینز اور دیگر عملہ اپنا روزگار تعلیم کے شعبے سے حاصل کرتے ہیں‘ لہٰذا یہ سب اس وقت مشکلات کا شکارہیں۔سب سے پہلے طالب علموں کی بات کریں تو وہ غیریقینی صورت ِ حال کا شکار ہیں کہ انہیں پتا ہی نہیں کہ ان کے مستقبل کیا ہے؟وہ گھروں میں لاک ڈاؤن ہیں۔ کچھ کی آن لائن کلاسز چل رہی ہیں‘ لیکن زیادہ طالب علم فری ہیں۔ قومی ٹی وی پر مختلف کلاسوں کے کورسز کے حوالے نشریات آرہی ہیں‘ لیکن ملک بھر کے سرکاری سکول بند ہیں۔بچوں کا تعلیمی سال رکا ہوا ہے ۔کچھ معلوم نہیں کہ کب موذی وباکورونا جائے گی اور اگلا تعلیمی سال شروع ہوگا؟ جن طلباکی ڈگری مکمل ہونے والی تھی اور ان کا آخری سمسٹر چل رہاتھا ‘ وہ بھی تذبذب کا شکار ہیں۔
بہت سے طالب علم اس بات کا گلہ کررہے ہیں کہ ان کے پاس ایسے فون اور لیپ ٹاپ نہیں کہ وہ آن لائن کلاسز لے سکیں ۔ان کے مطابق‘ وہ انٹرنیٹ مہنگا ہونے کی وجہ سے زیادہ دیر اسے استعمال نہیں کرسکتے‘ ان کے گھر میں ایک کمپیوٹر ہے اوروہ دو تین بھائی بہن ہیں‘ لہٰذا وہ سب اپنی اپنی کلاس بیک وقت ایک کمپوٹر پر نہیں لے سکتے۔کچھ طالب علموں کے مطابق ‘ان کا انٹرنیٹ پیکیج جلدختم ہوجاتا ہے‘ کیونکہ وقت پر کلاس شروع نہیں ہوتی ‘ نیزسلو انٹرنیٹ کے باعث آن لائن نصاب سمجھ بھی نہیں آتا۔کچھ بچوں کے والدین ان کو کورونا وائرس کے باعث دور دراز کے اپنے آبائی علاقوں میں لے گئے ہیں‘ جہاں انٹرنیٹ موجود ہی نہیں۔
والدین کے اپنے شکوے ہیں ۔وہ زیادہ فیسوں کا شکوہ کررہے ہیں‘ ان کے بچے سکول‘ کالج یا یونیورسٹی تو جانہیںرہے ‘لیکن بھاری بھاری فیسوں کے ووچرز ان کو باقاعدگی سے مل رہے ہیں‘ جوکہ کورونا کی وبا میں ان کی معاشی کمر کو مزید توڑ رہے ہیں۔کچھ والدین کے مطابق‘ انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر لیپ ٹاپ ‘ کمپیوٹر یا فون تو اپنے بچوں کو دلا دئیے ہیں‘ تاکہ وہ آن لائن کلاسز لے سکیں اور کچھ پڑھ سکیں‘ لیکن انٹرنیٹ بہت مہنگا ہے اور اس کی سپیڈ بھی مناسب نہیں ہوتی‘ لہٰذااپنے بچوں کے تعلیمی سال ڈگری اور مستقبل کو لے کر وہ شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ والدین کا مطالبہ ہے کہ حکومت وائی فائی اور موبائل انٹرنیٹ کو سستا کرے۔بہت سے چھوٹے بچوں کے والدین خود آن لائن تعلیم کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو وہ اپنے بچوں کو کیسے سکھائیں گے۔ان کے مطابق ‘اگر جولائی یا اگست میں تعلیمی ادارے کھل گئے تو بھی وبا عروج پرہوگی‘ ایسے میں وہ اپنے بچوں کو گھروں سے باہر نہیں نکال سکتے۔تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز تب ہی ہونا چاہیے‘ جب حکومت موذی وبا پر مکمل قابو پالے۔والدین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تعلیم کو لے کر فکر مند ہیں‘ لیکن ان کی زندگی ہمیں زیادہ عزیز ہے۔
اساتذہ بھی اس صورت ِ حال میں بری طرح متاثر ہوئے ہیں ‘کچھ پرائیوٹ ادارے وبا کے باوجود انہیں سکول بلارہے ہیں اور وہ کام کررہے ہیں۔اس کے ساتھ آن لائن کلاسسز ایک نئی چیز ہے‘ وہ بھی ان کو لینا پڑ رہی ہیں۔پہلے پلان کرو‘ سلائیڈز بناؤ‘ پھر آن لائن ہو کر درس و تدریس کرو اور ساتھ گھر کے کام بھی کرنے ہوتے ہیں۔کتنے لوگوں کے گھروں میں کورونا کے مریض ہیں ‘ان کی تیمارداری بھی کرنا ہوتی ہے۔کام ڈبل ہوگیا ہے اور تنخواہ کم ہوگئی ہے۔لائیو سیشن اساتذہ اور طالب علموں کے گھر والوں کی مداخلت سے ڈسٹرب بھی ہوجاتے ہیں‘ نیزتمام اساتذہ اتنے امیر نہیں کہ ان کے پاس جدید فون اور لیپ ٹاپ ہو‘ زیادہ تر پرائیویٹ سیکٹر میں اساتذہ کی تنخواہ دس ہزار سے پندرہ ہزار کی درمیان ہوتی ہے‘ اس میں وہ کہاں آن لائن کلاسسز لے سکتے ہیں اور جہاں تک سرکاری سکولز کی بات ہے‘ وہاں یہ بھی نہیں ہورہا اورراوی سب چین لکھ رہا ہے‘اگر بات کی جائے کتب فروشوں کی تو ان کا کاروبار بھی ماند پڑگیا ہے۔ اب تک والدین نے کورس نہیں خریدے ‘لاک ڈاؤن کی وجہ سے دکانیں بند رہی تو ان کو معاشی طور پر نقصان ہوا۔ کتابوں کاپیوں اور سٹیشنری کی ڈیمانڈ بہت کم ہے ۔بیشتر بچے سکول نہیں جارہے ہیں۔ پرائیوٹ سکول مالکان کہتے ہیں کہ ہم اساتذہ کو تنخواہ دے رہے ہیں ‘ رینٹ دے رہے ہیں ‘ دیگر عملے کی بھی تنخواہ دی جارہی ہے اور بچوں کی آن لائن کلاسز جاری ہیں‘ تو طالب علموں سے فیس وصول کرناضروری ہے۔
اس وقت بہت سے طالب علم جن کی رسائی سوشل میڈیا تک ہے ‘وہ آن لائن کلاسسز اور زیادہ فیسوں کے حوالے سے احتجاج کررہے ہیں۔ان کے مطابق‘ آن لائن کلاسز ان کی جیب پر بھاری ہیں۔ان کے والدین فیس ‘ لیپ ٹیپ اور انٹرنیٹ کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے‘اگریونیورسٹی کے بچوں کو پچھلے رزلٹ کی بنیاد پر اگلے سمسٹر میں بھیج دیا جائے‘ تو کوئی مضائقہ نہیں‘ کیونکہ ان کی اسائمنٹس تو ہوچکی ہیں۔بلوچستان میں طالبعلم آن لائن کلاسز کیخلاف احتجاج کررہے تھے‘کیونکہ ان کے پاس انٹر نیٹ کی رسائی نہیں‘ لیکن ان کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ یہ انتہائی قابل ِ مذمت ہے‘ اگر جمہوریت میں بھی بولنے پر پابندی ہے تو معاملات کا حل کیسے نکلے گا؟حکومت کو اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے اور ان طالب علموں کو رہا کرکے صوبے میں انٹرنیٹ کا مسئلہ حل کیا جانا چاہیے۔ جب تک انٹرنیٹ کی رسائی نہیں ہوتی‘ ایچ ای سی ‘ ٹیکسٹ بورڈ ‘ فیڈرل بورڈ اور صوبائی بورڈ درس و تدریس کے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا فاصلاتی تعلیم کا طریقہ اپناسکتے ہیں۔دوسری طرف حکومت تعلیمی اداروں کو کھولنے میں سنجیدہ ہے اور میرا یہاں یہ سوال ہے کہ کیا کورونا کی وبا ختم ہوچکی؟ کیا حکومت نے اس وبا کو مزید پھیلنے سے روک دیا ہے؟ کیا پاکستان کا ہیلتھ سسٹم فعال ہوگیا ہے؟ سرکاری سکولز میں اکثر باتھ رومز میں صابن کیا پانی تک نہیں ہوتا تو لاکھوں کی تعداد میں طالب علموں اور اساتذہ کی کورونا سے حفاظت کیسے یقینی بنائی جائے گی؟ سکول وین یا بس میں بچے کیسے سماجی فاصلہ رکھ سکیں گے؟ یہ ناممکن ہے۔ چھوٹی کلاسسز میں سماجی کنارہ کشی اور مناسب فاصلہ کیسے رکھا جائے گا؟جولائی اور اگست میں گرمی عروج پر ہوتی ہے‘ زیادہ تر سکولز میں پنکھے خراب اور اے سی موجود نہیں ۔ کیا یہ سب حکام کو معلوم نہیں؟وہ پہلے سرکاری اور نجی سکولز کا دورہ کریں‘ پھر وبا کے عروج میں سکول کالج یونیورسٹی کھولنے یا بند رکھنے کا فیصلہ کریں۔طالب علم ‘ ان کے اساتذہ اور دیگر عملے میں سے اگر کوئی ایک شخص بیمار ہوا تو پورے ادارے کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔سمارٹ لاک ڈاؤن کی ناکامی سب کے سامنے ہے۔ اب‘ سکول کھول کر کتنے لوگ ہیٹ سٹروک اور کورونا کاشکار ہوگے‘اللہ جانے۔اس کے حوالے سے حکومت‘ اساتذہ‘ طالب علم‘تعلیمی بورڈز‘ ایچ ای سی‘ پرائیوٹ سکولز مالکان اور کتابوں کے بزنس کرنے والے سب مل کر پالیسی بنائیں کہ درس و تدریس کو موذی وباکے دنوںمیں کیسے جاری رکھا جائے؟اس معاملے پر سوچ بچار کرتے ہوئے اس حقیقت کو ضرور پیش نظر رکھا جائے کہ ایک خاص معاشی سطح کے حامل لوگوں کیلئے یہ آن لائن ایجوکیشن سسٹم ٹھیک ہے‘ لیکن معاشرے کا ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے‘ ایسی تعلیم افورڈ نہیں کر سکتا‘ لہٰذ ان کیلئے بھی کوئی حل نکالنا ہو گا۔