تعلیم اور ترقی کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ انسانی تاریخ میں وہی اقوام نمایاں ہوئیں جنہوں نے تعلیم اور علم وفن کی پرورش کا سامان کیا۔ آنے والے وقت میں تعلیم کا قومی ترقی میں کردار اور بھی اہم ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ زندہ اقوام اپنے شہریوں کو علم وفن سے روشناس کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دورِ حاضر میں طاقت کا تصور روایتی وسائل سے نہیں بلکہ انسانی سرمایہ سے جڑا ہوا ہے۔ علم وفن کی مہارتیں اب ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین نقطہ امتیاز بن گئی ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ممالک میں شامل ہے کہ اس کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو ملکی ترقی میں زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں‘ لیکن اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ یہ نوجوان جدید تعلیم اور علم وفن کی معاصر مہارتوں سے لیس ہوں۔
بدقسمتی سے پاکستان کے قیام سے اب تک عمومی طور پر تعلیم حکومتوں کی ترجیح کبھی نہیں رہی۔ اس کا اندازہ تعلیم کے لیے مختص بجٹوں سے کیا جا سکتا ہے‘ جو سالہا سال سے 2 فیصدکے لگ بھگ ہے اور اب دوسرے ممالک کے برعکس ہمارا یہ بجٹ ہر سال بڑھتی ہوئی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اوپر جانے کے بجائے نیچے آ رہا ہے۔ یہ بظاہر ایک ناقابلِ یقین لیکن تلخ حقیقت ہے۔ حکومتوں کے بلند بانگ دعوے ایک طرف لیکن زمینی حقیقت وہی رہی۔ سابق وزیرِاعظم شوکت عزیز کی جانب سے بجٹ میں تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا 4 فیصد مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پھر 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ سفارش کی گئی کہ حکومت 2015ء تک تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا 7 فیصد حصہ دے گی لیکن یہ وعدے کبھی وفا نہ ہوئے۔
یہ تو تھا قومی سطح پر عام تعلیم کے حوالے سے تعلیمی بجٹ کا جائزہ۔ آئیے اب ہم پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی صورتحال دیکھتے ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے اعلیٰ تعلیم کی اپنی اہمیت ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ملکی ترقی کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت یونیورسٹی آف ڈھاکہ اور یونیورسٹی آف پنجاب پہلے سے موجودہ تھیں۔ اسی سال یونیورسٹی آف سندھ کا آغاز بھی ہو رہا تھا۔ پاکستان بننے کے 73 سال بعد یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور اب ان کی تعداد 214 ہو گئی ہے۔ روز بروز تعلیمی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے جس کیلئے نئی یونیورسٹیوں کا قیام ناگزیر ہے۔پہلے سے قائم یونیورسٹیوں میں تعلیم کی بہتری کیلئے مزید مالی وسائل کی بھی ضرورت ہے‘ خاص طور پر سرکاری یونیورسٹیوں‘ جہاں Subsidised ریٹس پر فیسیں لی جاتی ہیں‘ کو مزید فنڈز کی ضرورت ہے۔ 2002ء میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی ہائر ایجوکیشن میں تبدیلی ایک صائب اقدام تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ 9/11 کے بعد امریکہ نے پاکستان میں تعلیم اور تعلیمی معیار کے فروغ کیلئے خطیر رقم دینے کا اعلان کیا تھا۔اس وقت کے ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر عطاالرحمن ایچ ای سی کیلئے یہ خطیر رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے‘ اور پھر آنے والے ادوار میں بھی ایچ ای سی کے فنڈز میں ہر سال اضافہ ہوتا گیا۔ یوں عرصے بعد اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں ایک مثبت ارتعاش پیدا ہوا۔
آئیے پچھلے کچھ سالوں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے Recurring بجٹ میں اضافے پر نظر ڈالتے ہیں۔ 2014-15ء میں یہ بجٹ 46.05 بلین روپے، 2015-16ء میں 54.5 بلین روپے، 2016-17ء میں 58.20 بلین روپے، 2017-18ء میں 63.18 بلین روپے اور 2018-19ء میں 65.02 روپے تھا۔ یہ خوش آئند اور صحت مند رجحان تھا لیکن 2019-20ء کے بجٹ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے Recurring Budget اچانک کم ہو کر 64.10 بلین پر آگیا جو یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیم کیلئے ایک شدید دھچکا تھا۔ یک لخت اس کٹوتی سے یونیورسٹیوں کے پروجیکٹس بری طرح متاثر ہوئے۔ اس سال ملکی سطح پر اعلیٰ تعلیم کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر ایچ ای سی نے حکومت سے 104.789 بلین روپے مانگے تھے‘ جس پر بحث و تمحیص کے بعد ایچ ای سی کو تحریری طور پر بتایاگیا کہ انہیں اگلے بجٹ میں 70بلین روپے ملیں گے لیکن جب 2020-21ء کے بجٹ کا اعلان کیا گیا تو پتہ چلا کہ 70 بلین روپے کے بجائے صرف 64.1 بلین روپے ملیں گے۔ یہ رقم 2018-19ء کے بجٹ میں مختص 65.0بلین روپے سے بھی کم ہے جبکہ پچھلے دو سالوں میں یونیورسٹیوں، طلبائ، اساتذہ اور سٹاف کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے فنڈز کا جائزہ لیں تو اس میں مسلسل انحطاط نظر آتا ہے۔ 2018-19 میں ایچ ای سی کو دی جانے والی گرا نٹ جی ڈی پی کا0.25 فیصد تھی۔ 2019-20 میں یہ کم ہو کر 0.23 فیصد ہو گئی اور اس سال 2020-21کے بجٹ میں یہ مزید کم ہو کر 0.17 فیصد رہ گئی ہے۔ ایچ ای سی کے قیام کے بعد اٹھارہ سالوں میں یہ کم ترین شرح ہے۔ فنڈز میں یہ کمی اور بھی نمایاں نظر آتی ہے جب ہم دوسرے دو نکات کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلا نکتہ روپے کی قدر میں کمی کا ہے‘ ڈالر جو آج سے تین سال پہلے 102روپے کا تھا آج یہ 167.95روپے کا ہے۔ دوسرا اہم نکتہ افراطِ زر کی شرح میں نمایاں اضافہ ہے۔ افراطِ زر کی شرح جو تین سال پہلے 3 سے 4 فیصد کے درمیان تھی‘ جنوری 2020ء میں اس کی شرح 14.58 فیصد ہو گئی۔ یوں یونیورسٹیوں کے فنڈز میں کمی کو ان دو نکات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جامعات کس قدر شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ اس دوران تعلیمی ضروریات میں اضافہ ہوا اور اساتذہ کی تنخواہیں بڑھی ہیں۔ چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا‘ اور روپے کی قدر میں کمی آئی ہے۔ یہ ساری صورتحال پالیسی سازوں کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے۔آئیے دیکھتے ہیں اعلیٰ تعلیم کیلئے فنڈز میں کمی کے اعلان سے اعلیٰ تعلیم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
1۔ ملک میں نئی یونیورسٹیوں کا قیام ناممکن ہو جائے گا۔
2۔ پہلے سے قائم یونیورسٹیوں میں سے کئی کورونا کے منفی اثرات کا شکار ہیں‘ وسائل کی کمی کی وجہ سے یہ مزید مسائل میں گھر جائیں گی۔
3۔ یونیورسٹیاں اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے طلباء کی فیسوں میں اضافے پر مجبور ہوں گی‘ جس کے نتیجے میں بہت سے طلبا بھاری فیسوں کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔
4۔ کچھ یونیورسٹیاں آمدنی میں اضافے کیلئے ویک اینڈ یا شام کے پروگرام شروع کر سکتی ہیں‘ جو اعلیٰ تعلیم کے معیار پر سوالیہ نشان ہوں گے۔
5۔ بعض یونیورسٹیاں پراویڈنٹ فنڈ کی رقم سے تنخواہیں دینے کے بارے میں سوچ رہی ہیں جو ایک غیر قانونی اقدام ہو گا۔
6۔ کچھ یونیورسٹیاں کمرشل بینکوں سے قرض لینے کے لیے رابطہ کر رہی ہیں لیکن یہ بھی مسئلے کا پائیدار حل نہیں ۔
اعلٰی تعلیم کیلئے فنڈز میں کمی پر ایک طر ف یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبا اور دوسری طرف ایچ ای سی کمیشن کے افراد نے اپنے شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔ کمیشن کے ممبران نے اپنی 36ویں میٹنگ میں متفقہ طور پر اعلیٰ تعلیم کیلئے بجٹ میں کمی پر غم وغصہ کا اظہار کیا۔ ایچ ای سی کی ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ فنڈز میں اس قدر کمی سے ملک میں اعلیٰ تعلیم کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ جامعات پہلے ہی مالی مشکلات اور پھر کورونا کے منفی اثرات کے طوفان کے مقابل اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھیں‘ حالیہ بجٹ میں فنڈز میں مزید کمی سے ان کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جامعات جنہوں نے مستقبل کے معمار پیدا کرنے ہیں‘ اب ان کی اپنی عمارتیں لرز رہی ہیں اور کسی وقت بھی یہ عمارتیں پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے نظام کے ساتھ زمین بوس ہو سکتی ہیں۔