تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-06-2020

ایک مردِ درویش کی رحلت

سید منور حسن بھی رخصت ہو گئے۔ ہماری سیاست‘ جو پہلے ہی سچائی سے بڑی حد تک محروم تھی‘ مزید تہی دامن ہو گئی‘ بلکہ سیاست ہی کیا؟ ہم اجتماعی طور پر منافقت اور جھوٹ کی نگری کے باسی ہیں۔ سید ان معدودے چند لوگوں میں سے تھے جو اب بھی منافقت اور کذب بھرے میدان سیاست میں حق گوئی اور سچ کا پرچم تھامنے والوں کے امیر تھے۔ سید منور حسن سے ان کے سیاسی نظریات اور ذاتی خیالات کے حوالے سے کوئی لاکھ اختلاف کرے لیکن ان کی کھرے پن کی حد تک والی سچائی اور اخلاص سے تو ان کے دشمن بھی انکار نہیں کر سکتے۔ 
میں کئی ایسے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو میڈیا پر بیان اور بھاشن دینے کی حد تک اس سے بالکل مختلف ہیں‘ جو وہ اصل میں ہیں۔ اس اصل ہونے سے مراد ہے کہ وہ اپنے محدود سرکل میں جو باتیں کرتے ہیں اس کا اظہار وہ عام مقلدین اور معتقدین کے سامنے ہرگز نہیں کرتے۔ وہ بہت قریبی دوستوں کی محفل میں اپنے جن خیالات اور نظریات کا اظہار کرتے ہیں اس کا سرِ عام اظہار نہیں کرتے اور جتنی انتہا پسندانہ اور مفسدانہ گفتگو وہ مختلف اداروں کے بارے اپنے خاص حلقے میں کرتے ہیں اس کے بالکل برعکس وہ میڈیا پر گفتگو کرتے ہوئے اپنا ایک خاص امیج بناتے ہیں اور عقیدت کے اونچے مرتبے پر فائز ہونے کے مزے لوٹتے ہیں۔ شاہ جی مرحوم اس ساری منافقت سے کوسوں نہیں بلکہ کئی نوری سال کے فاصلے پر تھے۔ وہ جماعتِ اسلامی کے چوتھے امیر تھے لیکن وہ اس لحاظ سے پہلے امیر تھے جو دوسری بار امارت کیلئے منتخب نہ ہوئے۔ تب جماعت اسلامی نے بھی صرف نظریہ ضرورت کے تحت ان کے ایک بیان سے بریت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اگلی مدت کیلئے امیر منتخب کرنے سے عملی معذوری کا اظہار کر دیا تھا۔ یہ ویسا ہی بیان تھا جس طرح کے بیانات کے بارے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ لوگ ایک خاص دائرے میں انہی خیالات کا برملا اظہار کرتے ہیں اور عوامی سطح پر اس کے برعکس گفتگو کرکے عوام الناس میں اپنا ایک خاص اعتدال پسندانہ امیج بنائے رکھتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے بھی اپنا امیج عام آدمی میں خراب ہونے سے بچانے کیلئے اپنے امیر کی قربانی دے دی۔ یہ الگ بات کہ بعد میں پوری قوم اور ادارے سید کی اس بات پر متفق ہوئے کہ ہم پرائی جنگ کا ایندھن بنے تھے۔ اللہ مجھے بدگمانی سے محفوظ رکھے۔ جماعت اسلامی کے ارکان کا عملی رد عمل بھی عوامی رائے عامہ سے خوفزدہ عام سیاسی پارٹیوں سے رتی برابر مختلف نہ نکلا۔ شاہ جی نے امارت سے فراغت پر اپنا سامان اٹھایا اور ایک عرصے بعد لاہور سے کراچی اپنے سو گز والے چھوٹے سے آبائی گھر میں منتقل ہو گئے اور اپنی زندگی کے بقیہ چھ سال خاموشی اور درویشی سے گزار کر 26 جون کو اپنے خالق و مالک کے ہاں پیش ہو گئے اور پاکستان کی سیاست کی نگری مزید تہی دامن ہو گئی۔
زمانہ طالب علمی میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طالب علمانہ سیاست کا آغاز کرنے والے جینز پہننے کے شوقین اور موسیقی کے رسیا سید منور حسن میں بڑی نظریاتی تبدیلی کا باعث سید ابوالاعلیٰ مودودی کی تحریریں تھیں۔ مولانا مودودی کے لٹریچر سے متاثر سید منور حسن این ایس ایف چھوڑ کر اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے۔ یہ 1960ء کا زمانہ تھا۔ کراچی یونیورسٹی سے دو مضامین میں ماسٹرز ڈگری کے حامل سید منور حسن اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے اور غالباً تین بار لگاتار اس منصب پر فائز رہے۔ سید منور حسن کے بعد یہ منصب مطیع الرحمان نظامی نے سنبھالا۔ وہی مطیع الرحمان جو بعد میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر رہے اور پاکستان سے محبت کی پاداش میں 11 مئی 2016ء کو تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے۔ سید منور حسن کے جانشین سے ایسی ہی توقع تھی۔
متوکل، درویش اور متقی سید منور حسن سادگی اور قناعت میں اپنی مثال آپ تھے۔ ایک بار منصورہ میں ملاقات ہوئی۔ سفید شلوار قمیص پر لگا ہوا نیل بتا رہا تھا‘ یہ جوڑا دھوبی کے ہاں نہیں، گھر میں دھلا ہے۔ قناعت، درویشی اور توکل ایسا کہ بطور امیر جماعت اسلامی ان کی صاحبزادی کی شادی پر جماعت اسلامی سے متعلق اور کچھ دیگر صاحبانِ ثروت نے سونے کے زیورات کے سیٹ حسب روایت سلامی کے طور پر دیئے۔ شادی کی تقریب کے اگلے روز سید منور حسن نے زیورات کے یہ سارے سیٹ جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دیئے اور کہاکہ جماعت کے ان اصحاب اور دیگر شرکت کرنے والوں نے یہ قیمتی تحائف مجھے بطور امیر جماعت اسلامی دیئے تھے اس لیے ان پر میرا نہیں، جماعت اسلامی کا حق ہے۔ آج کے دور میں جب ارب پتی حکمران غیرملکی سربراہان سے ملنے والے تحائف‘ جو قانونی طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت ہوتے ہیں اور توشہ خانہ میں جمع کروائے جاتے ہیں‘ کوڑیوں کے مول خرید کر غتربود کرگئے‘ سید منور حسن کا یہ اقدام مثالی تھا۔ کسے یاد نہ ہو گا کہ پرویز مشرف، میاں نواز شریف، آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی اور دیگر حکمرانوں نے سرکاری توشہ خانہ میں جمع ہونے والے یہ قیمتی تحائف‘ جن کی مارکیٹ ویلیو لاکھوں اور کروڑوں روپے میں تھی‘ اپنی مرضی کی قیمت لگوا کر ہضم کر لئے۔ میاں نواز شریف کے اس سلسلے میں گزشتہ دنوں شاید عدالتی وارنٹ بھی جاری ہوئے ہیں۔ لیکن بالکل سفید پوش اور جماعت اسلامی کی طرف سے بطور امیر ملنے والے قلیل مشاہرے پر اپنی سادہ زندگی گزارنے والے سید منور حسن نے لاکھوں روپے مالیت کے یہ دس بارہ سونے کے سیٹ گھر لے جانے کے بجائے، جو انہیں ان کی صاحبزادی کی شادی میں تحفتاً دیئے گئے تھے‘ جماعت کے توشہ خانہ میں جمع کروا دیئے اور اپنا توشۂ آخرت روشن کر لیا۔ اس شادی میں مہمانوں کی تواضع صرف چائے سے کی گئی تھی۔
شادی کے تحائف پر یاد آیا۔ ملتان کے ایک سیاستدان نے‘ جب وہ بہت بڑے عہدے پر فائز تھا‘ اپنے بیٹے کا ولیمہ ملتان کے بجائے لاہور میں محض اس لیے کیا کہ پاکستان بھر سے آنے والے مہمانوں کو ہوائی سفر کی سہولت حاصل رہے۔ شنید ہے اس کا سارا خرچہ ایک تعمیراتی کمپنی والوں نے اٹھایا جن کو اس دور میں بہت سارے تعمیراتی پروجیکٹس کا ٹھیکہ ملا تھا۔ باقی قصہ یوں ہے کہ موصوف کو بیٹے کے ولیمے پر لوگوں نے‘ جن میں اکثریت سپانسرز، فنانسرز اور بینی فشریز کی تھی‘ درجنوں کاریں تحفہ کے طور پر سلامی میں دیں۔ ایک کار ڈیلر نے بتایا کہ اس کے بعد شہر میں اگلے کئی روز تک گاڑیوں کی قیمتیں گر گئیں کہ یہ ساری گاڑیاں ایک دم مارکیٹ میں برائے فروخت آ گئیں اور سپلائی اور ڈیمانڈ کا توازن بگڑ گیا۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے چوری دے کپڑے تے ڈانگاں دے گز یعنی چوری شدہ کپڑے کو ماپنے کے لیے گز کی جگہ بانس کی لاٹھیاں استعمال ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سید منور حسن کا ایثار، توکل، درویشی، حق گوئی، کھرا پن اور تقویٰ قبول فرمائے۔ آہستہ آہستہ اب وہ لوگ رخصت ہوتے جا رہے ہیں جن کا دم غنیمت تھا۔ مصلحت سے بالاتر ہوکر اپنے دل کی بات زبان پر لانا اور وہ بھی سیاست جیسی بے رحم فیلڈ میں بہت مشکل کام ہے لیکن سید منور حسن نے یہ بھاری پتھر ساری عمر بڑی سہولت سے اٹھائے رکھا۔ کراچی میں تب ایم کیو ایم کے قائد کو للکارتے رہے جب ایسا کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا‘ اور بڑے بڑے نام نہاد بہادروں کی زبان کو فالج کا عارضہ لاحق تھا۔ انہوں نے کبھی اپنے اندر کی بات کو مصلحت کے پیش نظر قربان نہ کیا۔ خود قربان ہوئے مگر اپنی دل کی بات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ ان کے خیالات سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر ان کی سچائی سے نہیں۔ جھوٹ اور منافقت بھری دنیا سے ایک سچا، کھرا، بے باک اور مصلحت سے بالاتر شخص رخصت ہوا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved