تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     28-06-2020

’’قوم کا سردار باپ نہیں‘ خادم ہوتا ہے‘‘

''ملک کا وزیراعظم ایک باپ کی طرح ہوتا ہے اور قوم اس کے بچے ہوتے ہیں۔اگر بچے بھوکے ہوں تو کیا میں بادشاہ رہوں گا یا اپنے اخراجات کم کروں گا‘دوسرے ممالک سے فنڈز مانگتے ہوئے مجھے شرم آئی مگر ضرورت تھی‘‘۔ پارلیمنٹ کو طویل عرصہ نظرانداز کرنے کے بعد ایوان میں وزیراعظم عمران خان نے خطاب کیا تو خود کو اور اپنی حکومت کو عوام کا سب سے بڑا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کی۔عوام کا ہمدرد اور مسیحا ہونے کا دعویٰ پرانا ہے‘ لیکن بار بار دہرانا پڑتا ہے کیونکہ اقتدار کے باوجود اب تک عوام کیلئے صحیح معنوں میں کچھ نہیں کر پائے۔ اسی خطاب میں تیل سستا کرنے کا بھی کریڈٹ لیا‘ مگر ایک ہی دن بعد تیل کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کر دیا گیا اور اس کیلئے پہلی تاریخ کا انتظار بھی نہیں کیا گیا ۔
سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ کوروناکی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی طلب کم ہوئی اور تیل سستا ہوا‘ مگر پاکستان میں تیل سستا کرنے کا کریڈٹ لینے والے تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک نہ پہنچا پائے‘ کیونکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں کم نرخوں پر تیل بیچنے پر راضی نہ ہوئیں۔ عوام تیل کی تلاش میں خوار ہوتے رہے اور حکومت تماشا دیکھتی رہی۔ میڈیا میں دباؤ بڑھنے پر نوٹس لینے کا اعلان کرنا پڑا‘ انکوائری کا ڈھونگ بھی رچایا‘جرمانے کا اعلان بھی کیا ‘مگر جرمانہ وصولی سے پہلے ہی حکومت تیل کمپنیوں کے مطالبات سامنے ڈھیر ہو چکی تھی۔ مصنوعی قلت کے دوران آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے سستے تیل سے تمام دستیاب سٹوریج فل کر لیے تھے اور اب فی لٹر 25 روپے کے اضافے کے بعد انہیں اربوں روپے تحفے میں دیئے گئے ہیں‘ لیکن یہ تحفہ کورونا اور مہنگائی سے الجھتے عوام کی جیب سے نکال کر دیا گیا ہے۔ 
ایک اور خطرناک رجحان جو کسی سکینڈل اور کرپشن کی طرف اشارہ کرتا ہے‘ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تخمینہ اوگرا کے ذمے ہے جو وزارتِ پٹرولیم کو قیمتوں میں کمی یا اضافہ تجویز کرتا ہے‘ لیکن اس بار اوگرا کا کردار ختم کرتے ہوئے پٹرولیم اور خزانہ ڈویژن نے قیمتوں کا تعین کیا اور نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔ حکمران جماعت اس اضافے کے جواز تلاش کر رہی ہے۔ حکومت کے ایک ترجمان نے بھارت اور چین میں قیمتوں کا ایک چارٹ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے قوم پر احسان جتایا کہ پٹرول قیمت میں اضافہ 31 روپے 58 پیسے بنتا تھا‘ لیکن حکومت نے 25 روپے 58 پیسے بڑھایا‘ ڈیزل کی قیمت میں اضافہ 24 روپے 31 پیسے فی لٹر بنتا تھا لیکن حکومت نے غریب پروری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 21 روپے 31 پیسے فی لٹر اضافہ کیا۔ ایک وزیر کے غیرمصدقہ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ خطے کے دوسرے ملکوں میں تیل کی قیمتیں 128 روپے سے 176 روپے تک فی لیٹر ہیں‘ اس لحاظ سے پاکستان میں تیل اب بھی بہت سستا ہے۔ اس غریب پرور حکومت کے وزیر اور ترجمان کے بیان کو آسان لفظوں میں سمجھایا جائے تو مطلب یہ ہے کہ عوام کو کم از کم چھ روپے کاریلیف دیا گیا ہے اور اگر عوام نے ناشکری کی تو ریلیف کسی بھی وقت واپس لے لیا جائے گا۔
پٹرول کی قیمتوں کی خبر کے ساتھ ایک اور خوشخبری حکومت کے اپنے شماریات ڈویژن کی طرف سے شائع ہوئی جس میں بتایا گیا ہے کہ بجٹ کے بعد دوسرے ہفتے بھی مہنگائی کی شرح میں 0.15 فیصد اضافہ ریکارڈ کیاگیا۔ ایک ہفتے کے دوران 14 اشیا ضروریہ مہنگی ہوئیں‘ ٹماٹر 17 روپے فی کلو‘ آ ٹے کا 20 کلو کا تھیلا ساڑھے چار روپے ‘ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 16 روپے مہنگا ہوا‘ سرخ مرچ پاؤڈر کی قیمت 11 روپے بڑھ گئی‘ تازہ دودھ‘گوشت‘چاول‘آلو‘پیاز بھی مہنگے ہوئے۔
ایک بات واضح ہے کہ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ مہنگائی کی اس لہر کو تیز کرے گا۔ قومی اسمبلی میں قوم سے ہمدردی کرتے ہوئے وزیراعظم صاحب نے ریاست کے سربراہ کو قوم کا باپ تو قرار دیا لیکن یہ وہی نظریہ ہے جو سربراہان اپنے خلاف تنقید اور بغاوت کو روکنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔'' ریاست مدینہ‘‘ کا دعویٰ کرنے والوں کو یہ بھی علم نہیں کہ حکمرانی کی ذمہ داری دراصل قوم کی خدامی ہے ۔جب کوئی خادم ہوگا تو اس سے سوال بھی کیا جائے گا‘ جب کوئی باپ تسلیم کیا جائے گا تو سرپرستی کا فرض اُس پہ عائد ہو گا۔ بات صرف تیل کی قیمتوں کی نہیں‘ عوام کی ضرورت کی ہر شے مہنگی اور ناپید ہے‘دواؤں کی قیمتوں میں اضافے پر سپریم کورٹ میں سماعت کا احوال بھی شائع ہوا ہے‘ اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے ایک دو عدالتی ریمارکس سے ہی حکومتی کارکردگی کا اندازہ ہو جائے گا کہ قوم کا باپ کہلوانے کے خواہش مند قوم کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد صاحب نے ریمارکس دیئے کہ دوا ساز ادارے بھی بہت بڑا مافیا ہیں‘ کمپنیاں خریداری کے نام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں‘حکومت کچھ نہیں کرتی‘ ڈریپ کہتی ہے‘ مٹھی گرم کرو سارا کام ہوجائے گا‘ جبکہ حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے‘ فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں‘ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آخر کیا کر رہی ہے؟ 
پی آئی اے کے طیارے کی کراچی میں تباہی پر حکومت اور سول ایوی ایشن بری الذمہ ہونے کی کوشش میں پاکستان کی ہوابازی کی صنعت کو ہی داؤ پر لگانے پر تلے ہیں۔ جن کی اپنی ڈگریوں اور قابلیت پر سوال ہے‘ انہوں نے پاکستان کے تمام پائلٹوں ‘ خواہ وہ پی آئی اے کے ساتھ ہو یا کسی غیرملکی کمپنی کے ساتھ‘کو مشکوک بنا دیا ہے اور اس پر بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ وزیر ہوابازی نے پائلٹوں کو مشکوک بنایا لیکن ساتھ ہی پی آئی اے کو بہتر بنانے کے دعوے بھی کئے اور بہتری کا عالم یہ ہے کہ کورونا وائرس کے باعث بیرون ملک پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپسی کیلئے مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے ‘مصیبت میں پھنسے پاکستانی بلیک میں ٹکٹ خریدنے پر مجبورہیں‘ پی آئی اے کی ہیلپ لائن بھی مسافروں کو صحیح معلومات دینے سے قاصر ہے‘ دبئی اور کرغستان میں پھنسے شہریوں کا کہنا ہے کہ کچھ ٹریول ایجنسیاں ایجنٹوں کے ذریعے ٹکٹ فراہم کر رہی ہیں اور وہ اصل رقم سے کئی گنا زائد وصول کر رہی ہیں۔
نئے پاکستان کی حالت یہ ہے کہ حکومت قرنطینہ میں ہے‘ معیشت آئی سی یو میں‘ زراعت ٹڈی دَل کے نرغے میں ہے اور عوام غربت کے شکنجے میں کسے جا چکے ہیں۔ اس حکومت نے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ اب اپوزیشن جماعتیں بھی اس کو گرا کر خود اقتدار میں نہیں آنا چاہتیں‘ 22 سال اقتدار میں آنے کی کوشش کرنے والی جماعت نے 22 مہینے میں ہی اپنی ساکھ ختم کر لی ہے۔ اس حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ چینی بحران کا نوٹس لیا تو قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 90 روپے فی کلو تک جا پہنچی اور پھر شوگر ملز مالکان کے دباؤ پر ان کی مرضی کا ریٹ فکس کر دیا گیا‘ لیکن حالت یہ ہے کہ منڈی میں اس قیمت پر بھی چینی دستیاب نہیں اور پرائس مجسٹریٹوں کو کریانہ فروشوں کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ گندم کی کٹائی بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ گندم اور آٹے کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں‘ ساہیوال میں معصوموں کے قتل کا نوٹس لیا گیا اور حال یہ ہے کہ قاتل رہا ہو کر ملازمتوں پر بحال ہو چکے ہیں۔ اب تو ریاض فتیانہ جیسے سینئر سیاستدان بھی عوام کو بھوک ‘ مہنگائی اور کورونا سے نجات کیلئے ٹڈیاں تجویز کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب قوم کا باپ بننے کی کوشش میں ہیں اور ان کے ساتھی انہیں اسی مغالطے کا شکار رکھنا چاہتے ہیں‘ جس طرح وہ تاریخ اور جغرافیہ کے حوالے سے کئی مغالطوں کا شکار ہیں‘ سیاسی معاملات میں بھی ابہام کا شکار نظر آتے ہیں‘حالانکہ دین اسلام میں تو کہا گیا ہے کہ "سید القوم خادمھم یعنی ''قوم کا سردار اس کا خادم ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved