تحریر : محمد اعجاز میاں تاریخ اشاعت     28-06-2020

نہ ختم ہونے والا آٹا بحران

ملک میں جب بھی گندم یا آٹے کا بحران پیدا ہوا‘ اس کے پیچھے مصنوعی وجوہات ہی پائی گئی ہیں۔ 2019ء کے آخر میں آنے والا بحران بھی حکومت اور بیوروکریسی کی کم فہمی‘ ناتجربہ کاری‘ ورکنگ ریلیشن شپ نہ ہونے اورعدم تحفظ کے شکار افسران کی نااہلیوں کے باعث شدت اختیار کر گیا تھا۔ اس بحران کی سب سے بڑی وجہ اپریل میں گندم خریداری کے دوران صوبائی حکومتوں کی غفلت تھی۔ جب چاروں صوبوں کو گندم اٹھانے کا ہدف ملنے کے باوجود سندھ حکومت نے ایک بوری گندم نہ خریدی‘ اور غلط بیانی کرتے ہوئے 9 لاکھ ٹن کے ذخائر کا دعویٰ کرتی رہی۔پنجاب نے بھی 20سے 22دن تاخیر سے گندم خریدنا شروع کی اور وہ بھی پوری نہ خریدی‘ بلوچستان نے بھی کوئی گندم نہ خریدی۔ اُس وقتCarry Forward Reserves بھی پانچ سال کی کم ترین سطح پر تھے ۔ محکمہ خوراک کوآگاہ کر دیا گیا تھا کہ بارشوں کے باعث گندم کی پیداوار میں نمایاں کمی کے سبب حکومت کو اپنے خریداری اہداف مکمل کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے ‘ لہٰذا گندم کی ایکسپورٹ اور سمگلنگ کو سختی سے روکا جائے ‘جس پر کوئی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ جب کوٹہ ریلیز ہوا تب بھی تیس سے چالیس لاکھ ٹن گندم موجود تھی جو نئی فصل آنے تک ملک کیلئے کافی تھی‘مگرفوڈ ڈیپارٹمنٹ اس کی مانیٹرنگ میں بھی ناکام رہا۔ نہ ہی ضلعی حکومتوں کو آن بورڈ لیاگیا اور نہ اس چیز کو یقینی بنایا گیاکہ فلور ملز کو جاری ہونے والی سبسڈائزڈگندم پس کر آٹا مارکیٹ میں بھی رہا ہے کہ نہیں؟ گندم کا کوٹہ افغانستان سمگل ہوتارہا‘رہی سہی کسر فیڈ ملز نے پوری کر دی‘ صرف پنجاب کی 63 فیڈ ملز میں سے ہر ایک روزانہ 25ہزار (اوسط) بوری گندم استعمال کرتی رہی۔ملک میں گندم کی اچانک کمی سے ہلچل مچ گئی‘ ڈیمانڈ بڑھی تو آڑھتیوں نے ملی بھگت سے گندم کو چھپا لیااورریٹ 2200روپے فی من تک جا پہنچا۔
ماضی میں ہمیشہ حکومت اور فلور ملز مل کر گندم خریدتی تھیں ‘مگر اس سال ہلچل مچنے سے حکومت نے گندم خود خرید لی جبکہ فلور ملز نہ خرید سکیں؛ چنانچہ آج ایک من گندم کی قیمت 2000اور آٹے کا 20کلو کاتھیلا 11سے 12 سو روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ فلورملز مالکان کہتے ہیں کہ مہنگی گندم خرید کر سستا آٹانہیں بیچ سکتے ۔ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ نئی فصل کے آتے ہی دو ماہ کے اندر تھیلے کی قیمت 220روپے تک بڑھ گئی اور حکومت نے گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اب یوکرائن سے آنے والی غیر معیاری گندم بھی عوام کو 1650روپے فی من پڑے گی جو سرخی مائل ہوتی ہے‘ جس کی زیادہ مانگ بھی نہیں اور یہ گندم مقامی گندم کے ساتھ ملا کر فروخت کی جاسکتی ہے ۔یہاں یہ باور کرانا ضروری ہے کہ حکومت کو ہر صورت اس سال ملوں کے کوٹے کا ریٹ امپورٹ پرائس کے برابر رکھنا ہوگا‘ اگرریٹ 1400یا 1450رکھ دیا گیا تو پھر گندم کون درآمد کرے گا؟ جس سے خدشہ ہے کہ یہ تمام مسائل دوبارہ جنم لے سکتے ہیں۔ اسی طرح رواں سال گندم کی پیداوار بھی 27ملین ٹن کے اندازے سے ایک ملین ٹن کم ہوئی‘ جبکہ گزشتہ سال کے بچے ہوئے ذخائر کو ملا کر کل مقدار 26.2ملین ٹن بنتی ہے ‘ حکومت اور ادارے اس بار بھی مطمئن ہیں کہ ملک میں گندم کی طلب کے حساب سے صورتحال تسلی بخش ہے ‘مگر خدا جانے یہ اعداد و شمار اور تخمینے کس حد تک ٹھیک ثابت ہوں گے ‘ کیونکہ پاکستان میں فصلوں کے حوالے سے رپورٹنگ کا نظام فرسودہ اور مشکوک بن چکا ہے ۔ اس نظام کے تحت کسی بھی فصل کے تخمینے اور پیش گوئیاں آج تک سچ ثابت نہیں ہوئیں جو ملک میں اجناس کی آئے روز کی کمی کا سبب بن رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں گندم کا فی کس استعمال 124کلوہے ‘ اگر رواں سال پیداواربھی ٹارگٹ سے کم ہوئی تو حکومت کس طرح مطلوبہ مقدار پوری ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے ؟ لہٰذا یہ اعداد و شمار مشکوک نظر آتے ہیں‘ کراپ رپورٹنگ کے نظام میں جدید انتظامات جیسے جی پی آر ایس سسٹم لانا ضروری ہے۔
کسی بھی ریاست میں معیشت اور کاروبار میں حکومت کی مرکزی ذمہ داریاں Facilitation‘ Regulation اور Good Governance ہوتی ہیں‘ پاکستانی حکومت کو بھی گندم کے کاروبار میں خود حصہ دار بننے کی بجائے اس میں بتدریج پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کرنا ہوگا جبکہ حکومت اپنی توجہ مانیٹرنگ پر مرکوز رکھے ۔حکومت خود قرضہ لے کر کوٹہ ریلیز کرنے کی بجائے فلور ملز کو قرضے فراہم کرے اور محکمہ خوراک ملز کو ریگولیٹ کرے ۔ اسی طرح ملک کی ایک اور بڑی ضرورت مضبوط و مربوط پرائس کنٹرول میکنزم ہے کیونکہ پاکستان میں تاجراور کاروباری شخصیات کو اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے دیر نہیں لگتی ۔ آج لائف سیونگ ادویات سے لے کر بچوں کے دودھ تک ہر چیز میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ چند ہزارکا ٹیکہ لاکھوں اور 200والا ماسک 800روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ گندم اور آٹے کے کاروبار میں بھی یہی لوٹ مار جاری ہے‘ لہٰذا پاکستان میں ایک جامع‘ کڑا اور مؤثر پرائس کنٹرول میکنزم ہونا چاہیے جس کی حکومتی سطح پر سخت نگرانی ہو۔
محکمہ خوراک کے پاس گندم ذخیرہ کرنے کے محفوظ وسائل بھی نہ ہونے کے برابر ہیں‘ لہٰذا سٹوریج کے جدید نظام متعارف کروانا بھی وقت کی ضرورت ہے ۔ خیبرپختونخوا میں گندم بحران کی بڑی وجہ سمگلنگ ہے ‘ اور یہ بھی محض اتفاق نہیں کہ ملک میں زیادہ تر فلور ملز سمگلنگ روٹ پر واقع ہیں‘حکومت کو یہاں بھی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور خیبر پختونخوا کو گندم کے بجائے آٹا مہیا کرنا چاہیے ۔متعدد ملیں جن کا کوئی برانڈ کوئی مارکیٹنگ نیٹ ورک نہیں وہ ستمبر‘ اکتوبر میں گندم کا ریٹ بڑھنے پر اپنے کوٹے بیچ دیتی ہیں‘ ان پر بھی سخت نظر رکھنی چاہیے ‘ جس کیلئے محکمہ خوراک ضلعی حکومتوں کو آن بورڈ لے‘ جبکہ گندم ہورڈنگ کی مانیٹرنگ کیلئے سپیشل برانچ‘ پولیس اور آئی بی کی معاونت بھی ناگزیر ہے ‘ خاص طور پر سندھ میں صورتحال نہایت یشویشناک ہے ‘ جہاں حال ہی میں نیب نے سب سے بڑے گندم سکینڈل میں 10 ارب کی وصولی کی ہے ۔اسی طرح سبسڈائزڈ ریٹ پر گندم یا آٹا صرف Targeted Community کیلئے ہونا چاہیے ‘باقی افراد کو مارکیٹ ریٹ پر آٹا بیچنا چاہیے۔ آج 61اضلاع میں حملہ آور ٹڈی دَل کے خاتمے کیلئے بھی حکومت کو بندوبست کرنا ہوگا‘ کیونکہ یہ پاکستان کیلئے کورونا سے بڑا معاشی نقصان ثابت ہو سکتا ہے ۔
بلاشبہ گندم کی طلب کے مطابق پیداوار اورپورے ملک میں اس کی ہموار رسد سے عوام کی فوڈ سکیورٹی مشروط ہے ‘ملک میں اگر گندم محفوظ ہے تو گویا عوام کو غذائی تحفظ حاصل ہے‘ مگر افسوس کہ کہیں بھی حکو متی رِٹ دکھائی نہیں دیتی‘ عمران خان صاحب برسراقتدار آئے تو امید کی کرن جاگی تھی کہ ملک کے حالات سنور یں گے ‘ مافیاز اور لٹیرے پکڑے جائیں گے ‘ خوشحالی ہو گی اورراج کرے گی خلق ِخدا‘ مگر یہ تمام امیدیں فقط خوش فہمیاں ثابت ہوئیں۔ ہمارے حکمرانوں کی نہ کوئی پلاننگ‘ نہ کوئی حکمت عملی ہے۔آج یہ عالم ہے کہ قیمتوں کے استحکام کیلئے ستمبر‘ اکتوبر میں جاری ہونے والا کوٹہ جون‘ جولائی میں ہی ریلیز کرنا پڑ رہا ہے ‘ جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ مگر کیا حکومت نے یہ سوچا ہے کہ کوٹہ جلد جاری کرنے سے گندم اپنے مقررہ وقت سے قبل جنوری‘ فروری میں ہی ختم ہو گئی تو پھر کیا ہوگا ؟ لہٰذا کوٹہ ریلیز کرتے ہوئے نہایت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ‘ ملک میں نہ ملازمتیں بچی ہیں اور نہ ہی روشن مستقبل کی امیدیں‘ اب اگر غریب کے منہ سے روٹی بھی چھین لی گئی تو اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا ؟ حکومت آج بھی سنجیدگی سے آٹا بحران کا کوئی ٹھوس سد باب کرتی نظر نہیں آتی اور ڈر ہے کہ آنے والے دنوں میں غریب کو دو وقت کی روٹی بھی نہ ملی تو اس کی زندگی مزید اجیرن ہو جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved