کوئی بھی نہیں جانتاکہ کورونا کیا بلا ہے اور کیسے یہ انسانوں پر نازل ہوئی ؟میں آپ کو اس کے بارے میں خفیہ حقائق بتا تاہوں: ۔
کورونا وائرس کے ڈانڈے گزشتہ برس پیرس میں ہونے والے ایک خفیہ اجلاس سے جا ملتے ہیں ۔ امریکہ ‘ چین ‘ روس اور تمام یورپی ممالک کی قیادت وہاں موجود تھی ۔ اس اجلاس کی تیاریاں کئی برس پہلے سے جاری تھیں ۔ تمام ممالک کے نامور ماہرین آپس میں رابطے میں تھے اور ایک دوسرے سے معلومات شیئر کر رہے تھے ۔ عشروں کے غور و فکر اور معلومات کے خفیہ تبادلے کے بعد یہ ماہرین ایک خوفناک نتیجے پر پہنچے تھے ۔ ان کے پاس دنیا کی آبادی سے متعلق تمام تر ڈیٹا اور کمپیوٹر سیمولیشنز موجود تھیں ۔ یہ ڈیٹا انتہائی خوفناک نتائج فراہم کر رہا تھا۔ اس ڈیٹا کا کہنا یہ تھا کہ دنیا کی آبادی اس قدر زیادہ بڑھ چکی ہے کہ کرہ ٔ ارض اب اس کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے ۔ معاملے کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ 7ارب انسانوں کے لیے خوراک کم ہوتی جا رہی ہے ۔پانی اور زمین سمیت تمام وسائل پہ جنگیں عام ہوتی جا رہی ہیں ۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ زمین اس قدر زیادہ وزن اٹھانے کے لیے نہیں بنائی گئی ۔ انسانوں کے بوجھ سے زمین کے crustپر ناقابلِ بیان وزن پہلے ہی لاد دیا گیا ہے ۔ ایک صدی بعد ‘ جب انسانوں کی تعداد پندرہ ارب سے بھی بڑھ جائے تو یہ کرسٹ ایک دن ٹوٹے گااور وہ ایک قیامت خیز دن ہوگا۔کرسٹ زمین کا وہ حصہ ہے ‘ جسے عام الفاظ میں ہم براعظم کہتے ہیں ۔ زمین کا وہ حصہ ‘ جس سے ہم انسانوں کو واسطہ پڑتا ہے ‘ اسی کرسٹ میں ساری معدنیات دفن ہیں ‘ اسی میں زمین پانی ذخیرہ کرتی ہے ۔ کرسٹ ٹوٹنے کے ساتھ ہی مختلف براعظم مختلف جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکارہو جائیں گے ۔ کروڑوں افراد ایک ہی ہلے میں زیرزمین بھڑکتے ہوئے لاوے میں جا گریں گے ۔ سڑکیں ‘ پل ‘ ریلوے کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ بڑے بڑے شہر صفحہ ٔ ہستی سے مٹ جائیں گے ۔ یہ خوفناک تباہی صرف پہلی قسط ہوگی ۔
صرف یہی نہیں ‘ کمپیوٹر ماڈلز نے ماہرین کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ جیسے ہی زمین کے نیچے سے بھڑکتا ہوا لاوہ‘ سینکڑوں مقامات سے اوپر آئے گا‘ کرہ ٔ ارض کی ساری برف پگھل کر پانی بن جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ صرف چند ہفتوں کے اندر اندر پورا کرۂ ارض تیس فٹ تک پانی کے نیچے چلا جائے گا۔ یوں یہ خوب صورت اور دل کش دنیاانسان کے ہاتھوں ختم ہو جائے گی ۔ دنیا میں صرف انسان شعور رکھتاہے ۔ جب تمام انسان لاوے میں پگھل کر یا پانی میں ڈوب کر مر جائیں گے تو کائنات کے صفحا ت پر لکھی گئی انسان کی عبرت ناک داستان پڑھنے والا بھی کوئی نہ ہوگا۔خشکی پہ پائی جانے والی جانداروں کی تمام اقسام (Species)صرف چند ہفتوںمیں ختم ہو جائیں گی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی کے اندر انہیں سانس لینا نہیں آتا۔ ان کے پاس اس کے لیے مطلوبہ اعضا ہی موجود نہیں ‘ لہٰذااس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کرہ ٔ ارض کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے؛ قتل ِ عام ۔کسی نہ کسی طرح انسانوں کی تعداد کم کرنا ہوگی ۔ آپ میری بات سمجھ گئے ہوں گے ۔ جب کشتی ڈوب رہی ہوتی ہے تو وزن کم کیا جاتاہے ۔ کرۂ ارض سے اگر انسانوں کا وزن کم کر دیا جائے تو یہ ڈوبتی نائو پار لگ سکتی ہے ۔اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو تو پھر انسان سمیت خشکی کے تمام جانداروں کے پاس مرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ موجود نہیں ۔ پیرس میں ہونے والے اس اجلاس میں دنیا بھر کی سیاسی اور فوجی قیادت اسی مقصد کے لیے خفیہ طور پر اکھٹی ہوئی تھی ۔ جون 2019ء کے دوسرے ہفتے میں یہی وہ وقت تھا‘ جب دنیا بھر کے اہم لوگ ایک دن کے لیے اچانک غائب ہو گئے تھے۔ اس اجلاس میں امریکہ ‘ چین ‘ روس اور یورپ کی قیادت نے شام سمیت دنیا بھر میں اپنے تنازعات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہمیں بہرحال دنیا سے انسانوں کی آبادی کم کرنا ہے۔بحث ہوتی رہی ؛ انسانوں کو مارنے کے لیے کیا راستہ اختیار کیا جائے ؟ ایک سیدھا راستہ جنگوں کا بھی تھا‘ لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ آگ انسان کے اختیار سے باہر نکل جاتی ہے ۔ظاہر ہے کہ دنیا بھر کی افواج کے سربراہان کو تو منصوبے میں شریک کیا جا سکتاہے ‘لیکن عام سپاہیوں کو تو نہیں ۔ وہ تو اپنے وطن کے لیے جی جان سے لڑے گا ۔ دوسراجنگوں میں وسائل کی تباہی بھی بے حد زیادہ ہوتی ہے ۔ کم سے کم نقصان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل کرنے کا راستہ ایک ہی تھا اور وہ تھا ایک حیاتیاتی ہتھیار۔ ایک ایسا وائرس ‘جو انسانوں کو قتل کرے۔جب سے یہ دنیا آباد ہوئی ہے ‘ وائرس ایک ہی ہلّے میں کروڑوں لوگوں کو قتل کرتا آیا ہے ؛ جیسا کہ پچھلی صدی کے سو سال میں چیچک نے 30کروڑ انسانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ علاوہ ازیں اس سے زیادہ خوف و ہراس پولیو کے دنوں میں تھا ۔ چھوٹے چھوٹے بچّے ‘ جن کے کھیلنے کودنے کے دن تھے‘ وہ بری طرح معذور ہو رہے تھے‘ ان پھول جیسے بچوں کو لوہے کے سانچوں میں بند کر دیا جا تاتھا‘ تاکہ ان کی ہڈیاں زیادہ نہ مڑیں ۔ اس سے زیادہ تکلیف ایک شخص کو کیا ہوسکتی ہے کہ اس کی اولاد زندگی بھر کے لیے بری طرح معذور ہو جائے ۔ اس کی ساری نروز ہی تباہ ہو کر رہ جائیں ۔ ایک ایک قدم اٹھانا اس کے لیے تکلیف دہ ہو جائے یا اسی بیماری میں سسک سسک کر وہ مر جائے ۔ یہ وہ زمانہ تھا ‘ جب پولیو کا کوئی علاج موجود نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیو جیسا وائرس ایک مکمل صحت مند قوتِ مدافعت رکھنے والے بچّے کو آسانی کے ساتھ تباہ و برباد کر کے رکھ سکتاہے ‘ اگر اس کے جسم میں پولیو کے خلاف مخصوص اینٹی باڈیز موجود نہ ہوں تو ! ویکسین کے چند قطرے اسے زندگی بھر کے لیے محفوظ و مامون کر دیتے ہیں ۔ جب کوئی مریض اپنے امیون سسٹم کی وجہ سے صحت یاب ہوتا ہے‘ توکچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ صرف اچھا کھا پی کر‘ قوتِ مدافعت کو مضبوط رکھ کر آپ بیماریوں سے بچ سکتے ہیں ۔ ان کے لیے گزارش ہے کہ جب آپ کے خاندان میں کوئی بچہ پیدا ہو تواپنے اس فارمولے پر عمل کر کے دکھائیں ؛ نہ کروائیں اس کی ویکسی نیشن اور اسے اچھی چیزیں کھلائیں ۔کبھی بھی وہ ایسا نہیں کریں گے ۔
خیر‘بات ہو رہی تھی خفیہ اجلاس کی‘ تو اس اجلاس میں طے یہ پایا کہ پہلے ایک کورونانامی ایک کم خطرناک وائرس دنیا میں چھوڑا جائے گا‘ جو صرف بوڑھوں اور بیماروں کا خاتمہ کرے گا‘ جبکہ دنیا بھر کی اہم شخصیات کو اس وائرس سے بچانے کے لیے ایک خفیہ ویکسین کے ذریعے امیون کر دیا جائے گا۔ بیس لاکھ افراد کی ہلاکت کے بعد اس کی ویکسین عام لوگوں کے لیے بھی منظرعام پر لائی جائے گی‘ لیکن یہ ویکسین ہوگی اصل ہتھیار۔ اس سے لوگ کورونا سے تو محفوظ ہو جائیں گے ‘لیکن ان کی ایک بڑی اکثریت بچّے پیدا کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گی۔ اس کے اگلے برس کورونا وائرس کا اگلا ورژن لانچ کیا جائے گا ۔ یہ پہلے ورژن سے کہیں زیادہ خوفناک ہوگا ۔ یہ نوجوان مردوں اور عورتوں کو قتل کرے گا ۔ یہی وہ لوگ ہیں ‘ جو بچّے پیدا کرتے ہیں ۔ یوں قریب دس سال کے عرصے میں آبادی 7ارب سے کم کر کے 4.5ارب تک لائے جائے گی ۔ کورونا وائرس کے اس خطرناک ورژن کی ویکسین ہر ایک کو نہیں دی جائے گی ۔ اس کی قیمت ہوگی سات لاکھ روپے ‘ اسے صرف وہی خرید سکیں گے‘ جو امیر ہوں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگلے دس برس میں آبادی 4.5ارب سے کم ہو کر صرف 80کروڑ رہ جائے گی ۔ اس کے بعد تمام ممالک کی حکومتیں ایک لائحہ ٔعمل ترتیب دیں گی ۔ اس کے بعد ہر شخص بچّے پیدا کرنے کیلئے اس طرح سے آزاد ہرگز نہیں ہوگا۔
یہ ہوتی ہے‘ ایک سازشی تھیوری ۔ حقیقت یہ ہے کہ اوپر جو کچھ آپ نے پڑھا ہے ‘ وہ سو فیصد جھوٹ ہے ‘لیکن ایک فیصد ماہرین کے علاوہ باقی لوگ اسے پڑھ کر آگے پھیلا دیں گے ۔ زمین کاکرسٹ 7ارب کیا‘ 50 ارب لوگوں کا بوجھ اٹھا سکتاہے ‘گوکہ غذائی قلت پیدا ہو جائے گی ۔پیرس میں ایسا کوئی خفیہ اجلاس کبھی ہوا ہی نہیں ۔ نہ ہی دنیا کے اہم لوگ جون 2019ء میں ایک دن کے لیے کہیں غائب ہوئے تھے ۔ کورونا‘ اگر انسانی ہاتھوں سے بنا ہوتا تو دنیا بھر میں موجود آزاد سائنسدان اس کا بھانڈا پھوڑ چکے ہوتے ۔ یہ ساری سازشی تھیوری بیس منٹ میں لکھی گئی ‘ بغیر کسی محنت اور سوچ بچار کے ۔ آپ خود سوچیں کہ اگر میں محنت کروں تو دن میں کتنی سازشی تھیوریز لکھ کر پھیلا سکتا ہوں ۔ کتنا آسان کام ہے یہ ۔ اس لیے ہر چیز سوچے سمجھے بغیر شیئر نہ کیا کریں‘ دنیا میں آج ڈس انفارمیشن کی ایک بہت خوفناک جنگ چل رہی ہے ۔