اکٹھے تھے ‘اکٹھے رہیں گے ‘عوام کی خدمت کریں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اکٹھے تھے اور اکٹھے رہیں گے اور عوام کی خدمت کریں گے‘‘ اگرچہ اکٹھے رہنے سے زیادہ سے زیادہ اپنی ہی خدمت ہو سکتی ہے اور اسے بھی کم نہ سمجھا جائے کہ محاورے کے مطابق بھی اوّل خویش بعد درویش کے فارمولے پر عمل کر رہے ہیں‘ لیکن درویشوں ‘یعنی عوام کی باری بھی ضرور آئے گی‘ یعنی اک ذرا اپنی خدمت سے فارغ ہونے کی دیر ہے اور اسی طرح ہم عوام کی خدمت بھی کر کے دکھا دیں گے‘ جبکہ خدمت کی ایک مثال قائم کرنے کے لیے بھی اپنی خدمت کر رہے ہیں‘جس میں ہمارے بعض معززین انفرادی طور پر بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
غریب کی جیب پر اربوں کا ڈاکہ ڈالا گیا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جمہوریت کے نام پرغریب کی جیب پر اربوں کا ڈاکہ ڈالا گیا‘‘ اور یہی بات شاہد خاقان عباسی نے بھی کی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ غریب کی جیب میں یہ اربوں روپے کہاں سے آ گئے تھے اور اگر یہ بات صحیح ہے تو اس کا مطلب ہے کہ غریب واقعی امیر ہو گیا ہے اور یہ ہماری پالیسیوں ہی کا نتیجہ ہے‘ جبکہ ہم خود غریب طبع لوگ ہیں‘ بلکہ یوں سمجھیے کہ اوپر سے جتنے بھی باہر کیوں نہ ہوں‘ اندر سے‘ یعنی دل سے کافی غریب ہیں اور جس کی ایک روشن مثال ہمارے بعض انکل بھی ہیں‘ بلکہ وہ تو غربت لکیر سے بھی نیچے چلے گئے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وقت کی پابندی
امریکہ کی ایک سگریٹ ساز کمپنی کو اپنی 70 ویں سالگرہ پر معلوم ہوا کہ ایک امریکی ریاست کے ایک گائوں میں ایک شخص ساٹھ سال سے اس برانڈ کے سگریٹ پی رہا ہے۔ سو‘ انہوں نے انہیں مشہوری کی طرح ایک پروگرام بنایا اور اپنا ایک آدمی اُس گائوں میں بھیجا‘ جہاں جا کر اُسے معلوم ہوا کہ وہاں ایک بابا واقعی ساٹھ سال سے اُن کی برانڈ کے سگریٹ پی رہا ہے۔ وہ شخص اس کے گھر گیا‘ جہاں وہ بزرگ اسی برانڈ کے سگریٹ پی رہے تھے۔ اس نے بابا جی سے پوچھا کہ کیا کبھی آپ نے ہوائی جہاز سے سفر کیا ہے؟ جس پر وہ بابا جی نے کہا کہ کیا تو نہیں‘ لیکن سنا ہے کہ بہت مزیدار ہوتا ہے اور جہاں خوبصورت ایئر ہوسٹس ہوتی ہیں‘ تو اس کا جواب بھی نفی میں ملا‘ پھر پوچھا کہ کیا آپ کبھی ٹی وی پر آئے ہیں؟ بابا جی نے کہا کہ آیا تو نہیں‘ لیکن ٹی وی پر اپنی تصویر دیکھنے کا شوق بہت ہے۔ اس نے کہا؛ فلاں تاریخ کو ہمارا ایک آدمی آپ کو ہوائی جہاز سے ہمارے شہر لائے گا۔ آپ کو فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرایا جائے گا اور ٹھیک صبح سات سے آٹھ بجے تک آپ ٹی وی کے سامنے ہوں گے۔ اس پر بابا جی بولے کہ مجھے منظور نہیں۔ وجہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ تو میرا کھانسنے کا وقت ہے!
دوسری بار
شکار گاہ‘ چونکہ وہاں سے کافی دور تھی‘ اس لیے دو دوستوں نے ایک چھوٹا جہاز کرائے پر لیا اور شکار کو چل نکلے‘ جہاں پہنچ کر انہوں نے چھ عدد صحت مند قسم کے بارہ سنگھے شکار کر لیے۔ واپسی کے لیے انہیں جہاز پر لادنے کامرحلہ آیا تو پائلٹ نے کہا کہ جہاز چھوٹا ہے اور اتنا وزن اٹھا کر نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پورا کرایہ دیا ہوا ہے‘ نیز پچھلے سال بھی ہم نے چھ بارہ سنگھے شکار کیے تھے اور جہاز پر لاد لیے تھے۔ اس پر پائلٹ لاجواب ہو گیا اور بارہ سنگھے لاد کر جب جہاز اڑا تو پانچ منٹ کے بعد ہی ناک کے بل نیچے آ گرا۔ خوش قسمتی سے وہ دونوں بچ گئے۔ جب جہاز کے ملبے سے باہر نکل رہے تھے تو ایک نے دوسرے سے پوچھا: تمہارے خیال میں یہ کونسی جگہ ہے؟ تو دوسرا اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولا: ''میرے خیال میں یہ وہی جگہ جہاں ہم پچھلے سال گرے تھے۔‘‘
جھیل میں تربوز
غُل غپاڑہ کرنے کے الزام میں تین آدمیوں کو پکڑ کر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو مجسٹریٹ نے ایک سے پوچھا: ''بتائو‘ تم کیا کر رہے تھے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا: جناب میں جھیل میں تربوز پھینک رہا تھا‘‘ ۔ مجسٹریٹ نے جب دوسرے سے وہی سوال کیا تو اس نے بھی وہی جواب دیا۔ جب تیسرے سے پوچھا گیا تو وہ بولا: ''جناب! میں ہی تو وہ تربوز ہوں‘ جسے یہ دونوں جھیل میں پھینک رہے تھے۔‘‘
اور‘ اب آخر میں احمدؔ فرہاد کی شاعری:
عجیب دن تھے کہ نام کرنے کا سوچتے تھے
ہم اپنے حصے کا کام کرنے کا سوچتے تھے
وہ روشنی تھی ہماری آنکھوں کے طاقچوں میں
چراغ جھُک کر سلام کرنے کا سوچتے تھے
یہ زرد پیڑوں کے شاخچوں سے لگے پرندے
کبھی ہوا کو غلام کرنے کا سوچتے تھے
گراں گزرنے لگا ہے اُن کو صبا کا لہجہ
جو تیز لو سے کلام کرنے کا سوچتے تھے
کمال یہ ہے کہ ایک ہی عمر تھی جسے ہم
نجانے کس کس کے نام کرنے کا سوچتے تھے
عجیب خوابوں بھری وہ آنکھیں تھیں دوست جن پر
ہم اپنی نیندیں حرام کرنے کا سوچتے تھے
تُو کون ہے جو اُس کی کمی پوری کرے گا
وہ آئے گا تو اپنی کمی پوری کرے گا
اک آدھ اگر ہوتا تو ہم مان بھی لیتے
اے شخص تو کس کس کی کمی پوری کرے گا
تجھ سا ہے میری جان مگر تُو تو نہیں ہے
یہ پھول تری کتنی کمی پوری کرے گا
قحطِ قربت کی رُت میں بھی ہم کو
کچھ حسینائوں کی اجازت تھی
وہ پھلوں تک پہنچ گیا ہے اب
جس کو بس چھائوں کی اجازت تھی
دیکھ لیتے تھے خواب دریا کے
اتنی صحرائوں کی اجازت تھی
آج کا مطلع
جھجکتی ہوئی مہربانی کے دن
وہ کیا تھے تری نوجوانی کے دن