تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     30-06-2020

بجٹ منظور لیکن ناز نخرے آسمانوں پر

نیک والدین‘ قابل اساتذہ اور اچھے دوستوں کی صحبت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔ہماری امی جو خود پابندِ صوم صلوات تھیں‘ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی کوئی نماز قضا کی ہو ‘سوائے شدید ترین بیماری کی حالت میں ‘لیکن صحت یابی کے بعد وہ سب سے پہلے اپنی نمازوں کی ادائیگی کیا کرتی تھیں۔ ہمیں بھی ہمیشہ تلقین کیاکرتی تھیں کہ نماز ہمیشہ اول وقت میں پڑھ لینی چاہیے اور قضا نہیں کرنی چاہیے‘ اس کے لیے وہ ہمیشہ پنجابی کااکھان بولتی تھیں کہ ''ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘‘ یعنی کام وہی جو وقت پر کرلیا جائے اور انگریزی زبان میں بھی یہی تلقین موجود ہے کہ A stitch in time saves nine۔وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ ڈیڑھ سال سے کْچھ ایسا ہی رویہ اپنائے رکھا اور کرکٹ ٹیم کے کپتان کے طور پر وہ جس برق رفتاری سے فیصلے کرتے تھے‘ سیاست کا کپتان بننے کے بعد عمران خان صاحب میں وہ تیزی نظر نہیں آرہی اور معاملات خراب ہوتے ہوئے یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ مخالفین نے کمر کس لی اور چیلنج کرنا شروع کردیا ۔جو کام وقت پر کیے جاسکتے تھے اب انہیں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خان صاحب اپنے لیے تو مشکلات پیدا کرچکے ہیں بقیہ کھلاڑی بھی اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں ۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کافی گہما گہمی ہے‘ سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں‘ ملاقاتوں‘ ظہرانوں اور عشائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اتحادیوں کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت کے ارکانِ پارلیمان بھی عمران خان صاحب سے کھچے کھچے سے اور ناراض نظر آئے۔ راجہ ریاض سمیت چند ارکان نے تو قومی اسمبلی اور ٹاک شوز میں بھی اپنے اختلافات‘ تحفظات اور گلوں شکوؤں کے انبار لگادیے۔ سیاسی امراض کے ماہرینِ طب کے نزدیک یہ علامات اچھی نہیں اور بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ مرض بڑھتاجارہا ہے۔ اب تک کوئی دوا‘ دارو اور مرہم کارگر نہیں ہو پارہا۔ جوں جوں دوا کا استعمال کیا جاتا ہے مرض بڑھتا جارہا ہے۔ ہر دوائی‘ ہر نسخہ الٹا اثر دکھاتا ہے‘ ہر اچھا کام الٹ پڑ جاتا ہے‘ عام تاثر‘جو کہ ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے‘یہ ہوتا جارہا ہے کہ طبیب میں نہیں مریض میں مسئلہ ہے‘ جو اپنے اقدامات‘ فیصلوں اور رویوں میں توازن نہیں رکھ پارہا ‘اس لیے کچھ اور سوچا جائے‘ لیکن ابھی تک ماہر طبیب سو فیصد مایوس نہیں ہوئے اور تگ و دو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم کی اپنے الیکٹورل کالج قومی اسمبلی سے مسلسل دوری اور اپنے ووٹرز یعنی ارکانِ پارلیمان کو لفٹ نہ کرانے کے رویوں نے سیاسی گھاؤ کافی گہرے کردیے ہیں۔ درست آید یا نہیں اس کے بارے میں فی الوقت کْچھ کہنا قبل ازوقت ہے‘ لیکن دیر آید کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اس ڈیمیج کو کب تک اور کتنا کنٹرول کیا جاسکے گا ‘اس کا انحصاراگلے فیصلوں‘ اقدامات اور سب سے بڑھ کر رویے پر ہوگا۔ حکومت نے ایک اور وفاقی بجٹ تو منظور کروالیا‘ مگر امسال بجٹ منظور کروانے کے لیے اچھے خاصے پاپڑ بیلنے پڑے اوراتحادیوں کی ناراضیاں ‘ناز نخرے اٹھانا پڑے۔ وزیراعظم عمران خان کو بجٹ اجلاس میں آکر ایک مفاہمتی تقریر کرنا پڑی اور اپوزیشن کو نرم لہجے میں یہ پیغام دینا پڑا کہ ان کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ‘نیب اوراحتساب کے جاری عمل سے برات اور عدم مداخلت کا یقین دلایا اور اپوزیشن حیرت انگیز طور پر وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے دوران پْرسکون رہی‘ کسی قسم کا شورشرابہ نہیں کیا اور خلل بھی نہیں ڈالا۔اپوزیشن اورعمران خان کے رویوں میں یہ تبدیلی بہت سوں کو ہضم نہیں ہوئی۔ پارلیمانی روایت کے مطابق اپوزیشن کے رہنماؤں خواجہ آصف اور بلاول بھٹو نے جوابی تقریروں میں پارلیمانی آداب میں رہتے ہوئے حساب برابر کردیا۔ صورتحال کی سنگین ترین صورت کے پیش نظر عمران خان کو وزیراعظم ہاؤس کے دروازے سب کے لیے کھولنے پڑے اور حکومتی ارکان پارلیمان اور اتحادیوں کے لیے ایک عشائیے کا اہتمام کیاگیا‘ لیکن عشائیے میں شرکت کے لیے اپنے ارکان پارلیمان کو راضی کرنے کے لیے اس قدر جدوجہد کرنا پڑے گی‘ اس کا اندازہ شاید پی ٹی آئی کو بھی نہیں تھا۔ 
اختر مینگل کے بعد شاہ زین بگٹی اور ق لیگ نے بھی غم غصے کے پیغام بھیجے اور جیسا کہ عرض کیا کہ اپنی جماعت کے ارکان بھی بغاوت پر اترے ہوئے تھے اور ابھی تک ہیں‘ مصلحت پسند قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر‘ شاہ محمود قریشی‘ پرویز خٹک ارکان پارلیمان کو مناتے رہے۔ اسد قیصر نے بہت جتن کیے کہ ق لیگ اپنے کسی ایک رکن کو عشائیے میں بھیج دے لیکن وہ راضی نہ ہوئے ‘ حتیٰ کہ کابینہ کے رکن طارق بشیر چیمہ بھی شریک نہیں ہوئے۔ شاہ زین بگٹی آخری وقت پر راضی ہوئے اور پھر الگ ملاقات کی اور اپنے یک رکنی ووٹ کے وجود کی اہمیت کا احساس دلایا۔ ایم کیو ایم اورجی ڈی اے نے بھی الگ الگ ملاقاتیں کرکے بتایا کہ ہم اتحادی ہیں‘ آپ کا لازمی جزو نہیں‘ ہمیں از خود اپنا نہ سمجھا جائے۔ پھر ایک ایک کرکے آزاد ارکان نے بھی وزیراعظم سے ملاقاتیں کیں‘ گویا وہ بھی احسان اور احساس جتلارہے تھے کہ آپ کے وزیراعظم بننے میں ہمارا ووٹ بھی شامل ہے اور سپیکر اسد قیصر سب سے آخر میں پی ٹی آئی کے دس سے زائد ناراض ارکان کو لے کر پہنچے اور کپتان کے دیے ہوئے ٹاسک کو پورا کرکے سرخرو ہوئے۔بعض ارکان پارلیمان اور اتحادی ایسے بھی تھے جنہوں نے دو دو کھانے کھائے ‘وزیراعظم ہاؤس میں بھی موجود تھے اور چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ واقع ایف ایٹ میں بھی موجود تھے۔ ان ارکان میں جی ڈی اے کی اور بلوچستان عوامی پارٹی کی وفاقی وزرا زبیدہ جلال‘ فہمیدہ مرزا اور بلوچستان سے آزاد رکن اسلم بھوتانی شامل تھے۔ 
اختر مینگل کے جانے کے بعد چوہدری برادران کو اچھی طرح اندازہ ہوچکا ہے کہ ان کی قدرومنزلت اور اہمیت کس قدر بڑھ چکی ہے‘ اب عمران خان چاہتے ہوئے بھی ق لیگ کو آنکھیں دکھا نہیں سکتے‘ اس لیے وہ اس قدر فرنٹ فٹ پر کھیل کر عمران خان صاحب کو چیلنج کررہے ہیں‘ پہلا چیلنج وزیراعظم کے عشائیے میں عدم شرکت‘ دوسرا چیلنج اپنے گھر میں عشائیے کا اہتمام اور سیاسی قوت کا پیغام اور پھر مونس الٰہی کا ٹویٹ کے عمران خان کا مقصد محض پانچ سال پورے کرنا ہے یا پھر کارکردگی دکھانا ہے؟ 
صورتحال بڑی دلچسپ ہوچکی ہے‘ بجٹ منظور ہوچکا ہے‘ وزیراعظم ہاؤس میں عمران خان صاحب کا خطاب اہم تھا‘ جس میں انہوں نے تمام اطراف میں یہ بتادیا کہ ان سے کیا مطالبات کیے جارہے ہیں اور انہیں اپنا عہدہ بچانے کے لیے کیا پیغامات دیے جارہے ہیں‘ وہ ایسا کیا کریں کہ جس کے بعد ان کے لیے آسانیاں پیدا ہوجائیں اور وہ سب کے لیے قابلِ قبول ہوجائیں ؟ انہوں نے واضح طور پر مسلم لیگ (ن) کا نام لے کر کہا کہ آٹھ دس لوگوں کو چھوڑ دوں تو سب اچھا ہوسکتا ہے‘ لیکن عمران خان صاحب نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ ان کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے نظریے کو نہیں چھوڑیں گے‘ یعنی اگر نظریے اور اقتدار میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنا پڑے تو عمران خان نظریے کو ترجیح دیں گے۔ 
معلوم یہی ہوتا ہے کہ سیاسی صورتحال کی سنگینی اپوزیشن کی پھر تیوں‘ اتحادیوں کے اعتماد اور پی ٹی آئی کے باغی ارکان کی ہمت کودیکھ عمران خان زمینی حقائق کا ادراک کرچکے ہیں اس لیے وہ اپنی سرخ لائن کا تعین بھی کرچکے ہیں کہ کب اور کہاں تک وہ جاسکتے ہیں ‘لیکن عمران خان کا سیاست کے بارے میں لگایا جانے والا ایک اندازہ درست نہیں ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved