تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     30-06-2020

سیّد منور حسن : ہم بدلتے ہیں رُخ ہواؤں کا

لیجئے سید منور حسین بھی اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے ہیں۔ہم نے اس زندگی میں بھی بارہا انہیں اپنے رب کے حضور حاضری دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ اُن کے رکوع و سجود میں جو انہماک‘ استغراق اور استحضا ہوتا تھا وہ کہیں اور کم ہی دیکھنے کو ملا۔ وہ دنیا میں جہاں کہیں ہوتے اَذان کی آواز سنتے یا کلائی پر بندھی گھڑی کے مطابق نماز کا وقت ہوتے ہی بے قرار ہو کر مسجد جانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے۔ 
اُن سے پہلی ملاقات 1960ء کی دہائی میں اُس وقت ہوئی جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تھے۔ ہم نے سکول سے فارغ ہو کر نیا نیا کالج میں قدم رکھا تھا۔ تب ہمیں جمعیت کے نوجوان قائدین کی اپنی عمر سے کہیں بڑی بھاری بھرکم اصطلاحات سے لدی ہوئی کڑوی کسیلی تقاریر سننے کا یارا نہ تھا۔ ایسے میں جب ہم نے روسٹرم پر چھریرے بدن کے ایک بانکے سجیلے نوجوان کو اپنے سرخ و سپید چہرے پر سیاہ رنگ کی ترشی ہوئی ننھی منی ڈاڑھی کے ساتھ دیکھا تو ہم قدرے متوجہ ہوئے۔ تاہم جب ہم نے اس مانوس اجنبی کو تحریک اسلامی کی سنجیدہ باتوں کو اپنے لہجے کی روانی اور چاشنی اور اپنی دھیمی دھیمی مسکراہٹوں کی چاندنی سے گل و گلزار بناتے دیکھا تو ہم ہمہ تن گوش ہو گئے۔ یوں ہم نو گرفتارِ محبت و جمعیت ہو گئے۔ سید صاحب کے ساتھ محبت کی یہ ابتدائی کہانی اب نصف صدی پر پھیل چکی ہے۔ سید منور حسن جلال و جمال کا ایک دلکش مرقع تھے۔ 
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اُن کے جلال و جمال اور پرجوش عوامی خطابت کا نقطۂ عروج 1977ء کے عام انتخابات تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس زمانے میں سید صاحب کراچی کی مقبول ترین شخصیت تھے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے کے ان عام انتخابات میں کراچی کے ایک حلقے سے منور صاحب نے اپنے مدمقابل جمیل الدین عالی سے 70 ہزار ووٹ زیادہ لیے اور یوں وہ اِن انتخابات میں سارے پاکستان کے کسی حلقے سے سب سے زیادہ ووٹ لینے والے کامیاب امیدوار کے طور پر اُبھر کر دنیا کے سامنے آئے۔ انہی جلسوں میں ایک شب سید صاحب نے بڑے پرجوش لہجے میں ایک جملہ کہا کہ جس پر مجمع فرطِ جذبات سے سرشار ہو گیا۔ آپ نے کہا: 
ہم بدلتے ہیں رُخ ہوائوں کا۔یہ کوئی لفاظی اور مبالغہ آرائی نہ تھی‘ دنیا میں مشکل ترین کام اپنے نفس کے سرکش گھوڑے کی لگامیں کھینچنا اور اس کا رُخ بدلنا ہے‘ سید صاحب نے پہلے یہ ناقابل یقین کام انجام دیا اور پھر دنیا کے سامنے یہ دعویٰ کیا تھا۔ منور صاحب نے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے اپنی طلبہ سیاست کا آغاز کیا۔ وہ 1959ء میں این ایس ایف کے صدر بھی رہے۔ پھر کچھ ہی عرصے کے بعد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے انقلابی لٹریچر سے سیدصاحب کی ایسی قلب ماہیت ہوئی کہ ہوائوں کا رُخ ہی بدل گیا۔ 1977ء کی انتخابی دھاندلی کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے اجلاس کی تو نوبت ہی نہ آ سکی۔ 1977ء کی تحریکِ نظامِ مصطفی چلی تو ایک عظیم الشان احتجاجی جلسے میں خان عبدالولی خان نے نوجوان سید منور حسن کا پرجوش اور مدلل خطاب سنا تو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے حیرت سے کہا کہ مولانا مودودی نے کیسے کیسے ہیرے پیدا کیے ہیں۔ ولی خان سید منور حسن کے تقویٰ اور دیانت و امانت کے بارے میں سن لیتے تو مزید حیرت میں ڈوب جاتے۔
سید منور حسن 2009ء میں امیر جماعت اسلامی مقرر ہوئے۔ اللہ نے سید صاحب کو اسلامی تقویٰ کا اعلیٰ ترین معیار عطا کیا تھا۔ 2012ء میں اُن کی صاحبزادی فاطمہ کی رخصتی کے موقعے پر بعض احباب نے دعوت نامے میں کی گئی گزارش کے برعکس لاکھوں کے تحائف دیئے۔ انہوں نے دمِ رخصت اپنی صاحبزادی کے سر پر دستِ شفقت رکھا اور پوچھا بیٹی! یہ تحائف منور حسن کی بیٹی کو یا امیر جماعت اسلامی کو ملے ہیں؟ ماں عائشہ منور اور باپ سید منور کے زیورِ تربیت سے آراستہ بیٹی نے ایک لمحے کے توقف کے بغیر کہا: ابا جان! یہ تحائف امیر جماعت اسلامی کو ملے ہیں۔ اس پر انہوں نے بیٹی کی رضامندی سے تمام نقدی اور اشیا کی صورت میں ملنے والے سارے تحائف جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دیئے۔ اسی طرح اب اہلِ منصورہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ سید صاحب کو بیرونِ ملک سے جو تحائف ملتے وہ واپس آکر منصورہ میں جمع کرا دیتے۔ 
سید منور حسن نے حق شناسی اور حق گوئی کا حق ادا کر دیا۔ جب کئی برسوں تک روشنیوں کا شہر قاتلوں کی آماجگاہ بنا رہا۔ جب جناب صلاح الدین اور حکیم محمد سعید جیسی عظیم شخصیات کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا تھا۔ جب ایم کیو ایم کے قاتلوں کو انسانوں کو چڑیوں کی طرح پھڑکانے کا لائسنس حاصل تھا تب زبانیں گنگ اور ضمیر خوابیدہ تھے اس وقت بھی سید زادہ قاتلوں کو للکارتا تھا اور اپنے خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتا تھا۔ پھر جب حق گو سید کو اپنے ایک بیان پر معافی مانگنے کو کہا گیا تو سید کا جواب بڑا واضح تھا۔ وہ حق گوئی کے معاملے میں کسی مداہنت‘ مفاہمت اور مصالحت کے قائل نہ تھے۔ اس وقت سید صاحب کا جو بیان تھا آج وہ پاکستان کا سرکاری بیانیہ ہے۔سید منور حسن حلقۂ یاراں میں بریشم سے بڑھ کر نرم ہوتے۔ اُن کے مقام و مرتبے کے ہم پاسنگ بھی نہ تھے مگر پھر بھی وہ نجی مجالس میں ہمیں دوستوں کا درجہ دیتے۔
جس زمانے میں منور صاحب قیّم جماعت تھے تو ایک بے تکلف ملاقات میں بھائی فرید نے منور صاحب سے کہا کہ بھابھی عائشہ منور کے قیّمہ منتخب ہونے سے جماعت اسلامی کی خواتین کو ایک بہت اچھی قیّمہ مل گئی ہے۔ چونک کر بولے: کیا مطلب تمہارا؟ کیا جماعت کے مردوں کو اچھا قیّم نہیں ملا؟ فرید پراچہ نے مسکراتے ہوئے کہا: میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ پھر منور صاحب بھی مسکراہٹیں بکھیرنے لگے۔ منور صاحب گاہے بگاہے مختلف ملکی موضوعات پر تبادلۂ خیال کے لیے منصورہ میں ہم جیسے ''غیرجماعتی‘‘ افراد کو کھانے کی دعوت پر مدعو کرتے۔ ایسی دعوتوں میں بالعموم آٹھ دس افراد سے زیادہ نہ ہوتے۔ منور صاحب نہایت صبرو سکون کے ساتھ سب کے تجزیے سنتے اور پھر آخر میں اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے۔ البتہ ون آن ون ملاقاتوں میں وہ محبت کے ساتھ برہم بھی ہو جاتے ‘مگر فی الفور اپنی برہمیٔ مزاج کو شگفتہ بیانی سے بدل دیتے۔ ہمارا اُن سے بس ایک سیاسی اختلاف تھا۔ وہ اتحادوں کی سیاست کے خلاف تھے اور ہم اتحادوں کے زبردست حامی تھے۔ میں انہیں 2002ء کی اسمبلی میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی کی شاندار کامیابی کی مثال دیا کرتا۔ وہ اپنے موقف سے تو رجوع نہ فرماتے مگر میرے نقطۂ نظر کو بھی یکسر رد نہ کرتے۔
اس بیماری سے کچھ عرصہ پہلے ایک بار منور صاحب کراچی میں شدید علیل ہو گئے۔ اُن کے صحت یاب ہونے پر میں نے انہیں فون کیا تو اُن کی آواز میں وہی کھنک اور لہجے میں وہی حلاوت و اپنائیت تھی۔ میں نے کہا کہ یار لوگوں نے آپ کی خرابیِ ٔ صحت کے بارے میں افواہیں پھیلا رکھی تھیں مگر آپ تو ماشاء اللہ بالکل ٹھیک ہیں۔ کہنے لگے :میاں! تمہارا فون آ گیا‘ دل خوش ہوا۔ اور ''تم‘‘ سمجھتے ہو کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔پھر مسکرا کر کہنے لگے کہ اللہ کا شکر ہے اب طبیعت بہت بہتر ہے۔ 
اب سید صاحب اور ہمارے درمیان موت کی دیوار کھڑی ہے۔ ہم اُن کے اس مقامِ بلند کا کوئی اندازہ نہیں کر سکے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں اعلیٰ علیین میں عطا فرمایا ہو گا۔ ہماری دعا اور استدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حسن ظن سے بھی بڑھ کر سید صاحب کو بلند مقام عطا فرمائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved