زندگی کے سفر میں ہمارے پاس جو بھی سامان ہوتا ہے‘ اُس میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے ‘جو ہمارا نہیں ہوتا۔ ہم جیسے جیسے آگے بڑھتے جاتے ہیں‘ یعنی جوں جوں عمر ڈھلتی جاتی ہے‘ دوسروں کے خیالات اور اور اعمال کے اثرات ہماری نفسی ساخت کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ بعض معاملات میں ہم اِتنے مجبور ہوتے ہیں کہ کوشش کرنے پر بھی دوسروں کے خیالات سے بچ کر گزر نہیں سکتے‘ اسی طور دوسروں کے اعمال بھی ہم پر کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ہوکر ہی رہتے ہیں۔ کیا ہمیں دوسروں کے افکار و اعمال سے ہر حال میں بچنا چاہیے؟ ایسا کرنا ضروری نہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کی ضرورت ہیں‘ مگر دنیا کے لیے ناگزیر تو کوئی بھی نہیں۔ کسی بھی قبرستان پر ایک نظر ڈالیے؛ قبور میں وہ لوگ آسودۂ خاک ہیں‘ جو خود کو ناگزیر سمجھا کرتے تھے اور یہ گمان بھی رکھتے تھے کہ دنیا اُن کے بعد ڈھنگ سے نہیں چل پائے گی! دیکھ لیجیے‘ دنیا آج بھی قائم ہے اور ڈھنگ سے چل بھی رہی ہے۔ ناگزیر تو خیر کوئی بھی نہیں‘ مگر ہاں دنیا کی رونق برقرار رکھنے اور اُس میں اضافہ یقینی بنانے کے لیے سبھی کو کچھ نہ کچھ کرنا ہی چاہیے۔ اللہ نے جسے جو صلاحیت دی ہے‘ وہ اُسے بروئے کار لاکر اس دنیا کی رونق میں اضافہ کرسکتا ہے۔ اس کے لیے افکار و اعمال کا تفاعل کلیدی کردار کا حامل ہے ‘یعنی آپ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچائیں اور اُن کے خیالات سے مستفید ہوں‘ اسی طور اپنے اعمال سے دوسروں کی مدد کریں اور دوسروں کے اچھے اعمال سے کام لیں۔
خرابی اُس وقت پیدا ہوتی ہے ‘جب غیر متعلق قسم کے خیالات ہماری نفسی ساخت کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ہم خواہ کسی ماحول میں ہوں‘ سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق ہوتا ہے‘ نہ ہمارے کام کا۔ ہمیں بہت سے معاملات سے دُور رہنا پڑتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کے پاس وقت بھی کم ہے اور سکت بھی‘ اگر ہم ہر معاملے پر توجہ دینے لگیں تو وقت اور سکت ہی ضائع نہیں ہوگی‘ ذہن پر دباؤ بھی بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں ہماری سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوگی۔ ایسی صورت میں عمل پسند رویے کو پروان چڑھانا بہت حد تک ناممکن سا ہوکر رہ جائے گا۔
غیر متعلق معاملات سے بچنا فی زمانہ ہمارا سب سے بڑا امتحان ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہے ‘جو بظاہر کام کا ہے‘ مگر درحقیقت ہمارے لیے لاحاصل ہے۔ جس طرح ہر چمکیلی چیز سونا نہیں ہوتی‘ بالکل اُسی طرح اچھا دکھائی دینے والا ہر معاملہ اچھا نہیں ہوتا اور ہمارے لیے اُس میں زیادہ افادیت نہیں ہوتی۔ ہمیں اپنے لیے ہر معاملے میں ترجیحات کا تعین کرنا ہوتا ہے‘ تاکہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنا زیادہ مشکل نہ ہو۔ جو کچھ ماحول میں رونما ہو رہا ہو‘ وہ ہمارے لیے آسانیاں بھی پیدا کرتا ہے اور مشکلات بھی۔ ہمیں ہر وقت چوکس رہنا پڑتا ہے‘ تاکہ آسانیوں سے کماحقہ مستفید ہوں اور مشکلات سے دامن بچایا جاسکے۔ خود کو ڈھیلا چھوڑ دینے کی صورت میں ہم اپنے ہی لیے مشکلات بڑھاتے ہیں۔ ماحول کو الزام دینا کسی بھی درجے میں دانش کا مظہر نہیں۔ ماحول میں جو کچھ بھی رونما ہو رہا ہوتا ہے‘ وہ نہ تو ہماری مرضی کا محتاج ہوتا ہے‘ نہ ہمارے لیے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ماحول ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے۔ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے باخبر رہنا ہمارے لیے لازم ہے‘ تاکہ کسی بھی غیر ضروری اور غیر متعلق تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنا ممکن ہو۔ ماحول میں ہر تبدیلی کسی نہ کسی کے لیے کوئی نہ کوئی مفہوم ضرور رکھتی ہے۔ لازم نہیں کہ آپ کے لیے اُس تبدیلی کا کوئی مفہوم یا فائدہ ہو۔ ایسے میں آپ کا اُس تبدیلی کے اثرات سے بچنے کی کوشش نہ کرنا آپ ہی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
غیر متعلق معاملات سے دامن بچاتے ہوئے گزرنا ہر انسان کی انتہائی بنیادی ضرورتوں میں سرِفہرست ہے۔ ہمارے اندرونی (گھریلو) اور بیرونی ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے ‘جو کسی حد تک تو اہمیت رکھتا ہے‘ مگر مجموعی طور پر ہمارے لیے زیادہ کام کا نہیں ہوتا۔ ہمیں قدم قدم پر محتاط رہنا پڑتا ہے‘ تاکہ غیر متعلق معاملات ہماری زندگی کا حصہ نہ بنیں اور ہماری صلاحیت و سکت کے ضیاع کا سبب ثابت نہ ہوں۔ ہمارے پاس وقت بھی محدود ہے اور دیگر وسائل بھی۔ ہر انسان کو بیشتر معاملات میں مجبورِ محض کی حیثیت سے کام کرنا پڑتا ہے‘مگر خیر ایسا نہیں ہے کہ ہمارا اپنے معاملات پر‘ اپنی زندگی پر کوئی اختیار ہی نہیں‘ اگر واقعی ایسا ہو یعنی ہم اپنی زندگی کو تبدیلیوں سے محفوظ نہ رکھ پائیں تو جینا محال ہو جائے۔ اگر ماحول ہر معاملے میں ہم پر پوری طرح حاوی ہو جائے تو ہمارے لیے سانس لینا بھی ممکن نہ رہے۔
آج کے انسان کو ہر معاملے میں ترجیحات کا تعین کرتے رہنا ہے۔ ترجیحات جامد نہیں ہوسکتیں ‘یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے لیے چند ترجیحات کا تعین کریں اور پھر آٹھ دس سال تک اُن ترجیحات کے مطابق ہی زندگی بسر کرتے رہیں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اُسے ذہن نشین رکھتے ہوئے ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کرتے رہنا ہمارے لیے اہم ہے۔ ماحول کی ہر بڑی تبدیلی ہم سے کچھ نہ کچھ کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ بہت سی تبدیلیاں ہمیں غیر معمولی احتیاط برتنے پر مجبور کرتی ہیں‘ تاکہ ہمارے معاملات اُن تبدیلیوں کے اثرات سے متاثر نہ ہوں۔
اگر آپ کو کسی ایسی جگہ سے گزرنا پڑے‘ جہاں راستہ تنگ ہو اور دونوں طرف جھاڑیاں ہوں تو آپ کیا کریں گے؟ ایسی حالت میں لباس اور جسم دونوں کو کانٹوں سے بچانا لازم ٹھہرتا ہے۔ فی زمانہ زندگی بسر کرنے کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہمارے لیے راستہ تنگ ہے اور دونوں طرف جھاڑیاں ہیں۔ غیر متعلق معاملات ہمارے لیے جھاڑیاں ہی تو ہیں۔ بس‘ ہم نے ذرا سی لاپروائی برتی اور گئے کام سے۔ دنیا کم و بیش ہر دور میں ایسی ہی تھی اور ایسی ہی رہے گی۔ سوال دنیا کو بدلنے کا نہیں‘ خود کو بدلنے کا ہے۔ انسان کے لیے اتنا ہی بہت ہے کہ خود کو بدل لے۔ دنیا کو بدلنا کسی کے لیے ممکن تھا نہ ہے۔ قائدانہ صلاحیت کے حامل افراد بھی بہت بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اُس وقت ممکن بنا پاتے ہیں جب باصلاحیت و ہم خیال افراد کی ٹیم ساتھ ہوتی ہے اور پورے خلوص و جاں فشانی کے ساتھ محنت بھی کر رہی ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی انفرادی حیثیت میں کوئی بڑا تیر نہیں مار سکتا۔
ایک دور تھا کہ ہر شعبہ پیچیدہ تو تھا ‘مگر ایک خاص حد تک‘ اگر کسی کے دل میں کچھ بننے کی تمنا ہوتی تھی تو اُس تمنا کو عملی شکل دینا کوئی بہت بڑا دردِ سر نہیں ہوا کرتا تھا۔ منصوبہ سازی کے ساتھ کچھ مدت تک کی جانے والی محنت رنگ لے آتی تھی اور زندگی بھرپور کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جاتی تھی۔ اب‘ ایسا نہیں ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں‘ جس میں قدم قدم پر الجھنیں ہیں۔ بہت سی الجھنیں بلا جواز بھی نہیں۔ جب ہر شعبے میں مسابقت بڑھ جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ آج‘ اگر کسی کو غیر معمولی کامیابی حاصل کرنی ہے تو خود کو سخت مقابلے کے لیے تیار کرنا پڑے گا اور معاملہ محض سخت تیاری تک محدود نہیں۔ بہت کچھ ہے جو کرنا ہے اور اُس سے کہیں زیادہ وہ ہے‘ جو نہیں کرنا۔ غیر متعلق معاملات سے بچنا ہی کامیابی کی طرف بڑھنے کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ ہم زندگی بھر لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بہت سے غیر متعلق معاملات ہماری زندگی کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھاکر بروئے کار بھی لانا ہے‘ مگر احتیاط کے ساتھ۔ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت۔ ایسے میں ہم اپنے وسائل کے ضیاع کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ قدرت نے ہمیں جو وسائل بخشے ہیں ‘اُن میں سے بڑا یا سب سے قیمتی وقت ہے۔ کسی بھی طرح کے غیر متعلق معاملات میں الجھ کر ہم اصلاً اپنا وقت ہی تو ضائع کرتے ہیں۔ اس غلطی سے ہر حال میں بچنا ہے۔ فی زمانہ کامیابی کے لیے لازم سمجھے جانے والے اعمال میں سرِ فہرست یہ ہے کہ ہم اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ ہر ناگزیر راہ سے گزرنا تو ہے‘ مگر بچتے بچاتے۔