پہلو میں جس الیکشن کا بہت شور سُنتے تھے وہ آیا بھی اور چلا بھی گیا۔ یہ تو خیر نہیں کہا جاسکتا کہ جو چیرا تو اِک قطرۂ خُوں نہ نکلا، مگر ہاں خُون کچھ زیادہ نہیں نکلا۔ شاید اِس کا ایک سبب یہ ہو کہ الیکشن سے پہلے ہی قوم کی رگوں سے خاصا خون نکالا جاچکا تھا! ہر بیان کے تالاب میں مینڈیٹ کا مینڈک سب سے زیادہ پُھدک رہا تھا۔ ’’اسٹیک ہولڈرز‘‘ ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔ سبھی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اراضی کی طرح مینڈیٹ بھی ترکے میں ملتا ہے۔ قوم اِس دلیل، منطق یا خوش فہمی کو ماننے کے لیے تیار نہ تھی۔ اور پھر یہ ہوا کہ مینڈیٹ کا راگ الاپنے والوں نے رائے دہندگان کے مزاج کی حشر سامانی دیکھ کر چُپ سادھنے میں عافیت جانی! مینڈیٹ تقسیم ہوچکا۔ جسے جو مِلنا تھا، مِل چکا۔ یا جسے جو دیا جانا تھا، دیا جاچکا۔ اب نئی منتخب حکومت کی تشکیل کا جاں گُسل مرحلہ درپیش ہے۔ جاں گُسل یوں کہ کوئی بھی محروم رہنے کو تیار نہیں۔ سبھی اقتدار کی ٹرین میں سوار ہونا چاہتے ہیں۔ آنیاں جانیاں اب تک لگی ہوئی ہیں۔ کِسی کو بھی اپنے اُصولوں کے ساتھ پلیٹ فارم پر پڑے پڑے اگلی ٹرین کا انتظار کرنا گوارا نہیں۔ اقتدار کی عادت پڑ جائے تو پروٹوکول کے بغیر جینا کِس کے اختیار میں رہتا ہے؟ اقتدار کی جو ٹرین کچھ ہی دِنوں میں روانہ ہونے والی ہے اگر اُس میں اُصولوں کے ساتھ سوار ہونا ممکن نہ ہو تو یار لوگ سارے اُصول تجنے کو بھی تیار ہیں۔ اُصولوں کا کیا اچار ڈالنا ہے؟ ویسے بھی اُصول تو گھر کی کھیتی ہوتے ہیں‘ جب چاہو فصل کاٹ لو اور جب چاہو، دوبارہ اُگالو! اگر کِسی کو حکومت بنانے کے لیے کِسی کی ضرورت نہیں ہے تو کیا ہوا؟ جو اپنی تصویر کو بہر صورت اقتدار کے فریم میں فِٹ دیکھنا چاہتے ہیں وہ ریشہ خطمی ہوئے جاتے ہیں، تلوے چاٹنے میں بھی اُنہیں کچھ عار نہیں۔ دُنیا اور کچھ سیکھے نہ سیکھے، ہم سے اِتنا تو سیکھ ہی لے کہ بے داغ جمہوریت کیونکر پروان چڑھائی جاتی ہے۔ ہم بھی سُنتے آئے ہیں کہ اختلاف میں برکت ہے مگر اختلاف میں برکت تلاش کرنے کے زمانے گئے۔ قوم ایک زمانے سے رو رہی ہے کہ اتفاقِ رائے کی روایت قائم کرکے اُسے پروان چڑھایا جائے۔ سیاست کی ڈگڈگی بجانے والوں نے قوم کی یہ بات دانتوں سے پکڑلی۔ کامل ہم آہنگی، یگانگت اور مفاہمت کی سیاست کو ایسا پروان چڑھایا گیا ہے کہ قوم حیران و پریشان ہے۔ اور شاید یہ بھی سوچ رہی ہے کہ اتفاقِ رائے کا خواب دیکھا ہی کیوں تھا! خیبر پختونخوا میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا بلا مقابلہ انتخاب قوم کو مُبارک۔ دِل ڈرے ہوئے ہیں۔ کہیں ایک بار پھر فرینڈلی اپوزیشن کی باری تو نہیں! باری کا انتظار فریقین کو رہتا ہے۔ خصلتوں کی باری واری کچھ نہیں ہوتی۔ مثلاً سرکاری اداروں کی رگوں سے خُون نچوڑ لینے کی کوئی باری واری طے نہیں ہوتی۔ قومی خزانے میں نقب لگانے کی بھی کوئی باری نہیں ہوتی۔ سب اِس پر ہر بار واری ہوئے جاتے ہیں! مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پندرہ دنوں میں کئی بار عندیہ دیا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کو ترجیح دے گی۔ یہ سُن کر تھوڑا سا خوف محسوس ہوتا ہے۔ قوم کو اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ مسلم لیگ (ن) یا کوئی اور حکمران جماعت کِسے ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے اور کِسے داغِ مفارقت دینے کے مُوڈ میں ہے۔ قوم کو مسائل کے حل سے غرض ہے۔ مسائل حل ہوجائیں گے تو سَت بسم اللہ۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ بادشاہ وہی ہے جو بادشاہوں جیسا کام کر دِکھائے، بادشاہ بن کر دِکھادے! قوم منتظر ہے کہ مسائل کی رگوں سے کچھ خُون نُچڑے، کچھ اُن کی بھی ہڈیاں چٹخیں اور ٹوٹیں۔ مسائل کو، بحرانوں کو اِتنا خوش نصیب تو نہیں ہونا چاہیے کہ وہ قوم کو ہر وقت بھنبھوڑتے ہی رہیں اور کبھی پکڑائی نہ دیں۔ کوئی دِن ایسا بھی تو ہو جو اُن کا نہ ہو! ایک جمہوری میعاد ختم ہوئی۔ پانچ سال یوں گزرے کہ کوئی بنیادی مسئلہ حل نہ ہوا۔ سیاسی جنگل کے باسی مفاہمت کے تالاب پر شیر و شکر ہوکر پیاس بُجھاتے رہے۔ سیاست کے جنگل میں ویسے تو خیر کوئی قانون نہیں چلتا مگر ہمارے ہاں یہ ثابت ہوا کہ جب اِس کے باسی طے کرلیں تو ایسا قانون بھی سامنے آسکتا ہے جس کے آگے لاقانونیت کی دال سو جتن کرنے سے گل نہیں سکتی! شیر اور بکری (کہانیوں کے سِوا) ایک گھاٹ پر کب دیکھے گئے ہیں؟ مگر ہم نے دیکھے۔ ایک دوسرے پر درندگی کا الزام لگاتے نہ تھکنے والے مفاہمت کی چادر اوڑھ کر سوگئے! مفاہمت کی سیاست تو اب قوم کے لیے گالی بن کر رہ گئی ہے۔ قوم نہیں چاہتی کہ جمہوریت کے نام پر ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی روش اپنائی جائے۔ مسلم لیگ (ن) نے اچھا کیا کہ پیپلز پارٹی کو مینڈیٹ کی میعاد پوری کرنے کا موقع عطا کیا‘ مگر یہ سب صرف سیاست کی حد تک اچھا تھا۔ قوم کو کیا ملا؟ توانائی کا بحران وہ جن تھا جسے پورے پانچ برس کی مدت میں بھی دوبارہ بوتل میں بند نہ کیا جاسکا۔ اور بند ہوتا بھی کیسے، ایسا کرنے کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کیا گیا! اب جواب میں مسلم لیگ (ن) بھی چاہے گی کہ اُسے پانچ سال پورے کرنے کا موقع دیا جائے۔ کچھ وعدے اُس نے بھی کئے ہیں جنہیں قوم پورے ہوتے ہوئے دیکھنا چاہے گی۔ یہ سب کیسے ہوگا؟ گمان ہمیشہ اچھا رکھنا چاہیے۔ میاں نواز شریف کی طرف قوم بہت پُرامید ہوکر دیکھ رہی ہے۔ ہمیں تو بس یونہی مُنیرؔ نیازی مرحوم یاد آگئے ہیں ۔ ؎ اِک اور دریا کا سامنا تھا مُنیرؔ مجھ کو میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا! کیا کریں، حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ ذرا سی ایسی ویسی بات سے دِل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔ وسوسوں کی گھٹاؤں کو گِھر گِھر آنے میں دیر نہیں لگتی۔ ابھی ابھی ہم نے جمہوریت کا ایک دریا پار کیا ہے۔ اور بقول جگرؔ مُراد آبادی ڈوب کر پار کیا ہے۔ اب پھر شاید ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ دریا نِری مفاہمت کا نہ ہو! قوم یہ گھاس بہت چَر چُکی! جہاں شیر اور بکری ساتھ ساتھ پانی پیتے ہوں ایسے گھاٹ قوم کو مزید پیاسا مار دیں گے۔ منتخب ایوانوں کو پاکستان ٹیلی وِژن کی طرح ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا راگ الاپنے کے بجائے عملی سطح پر کچھ ایسا کرنا چاہیے جس سے قوم کا بھلا ہو، معیشت رواں ہو، معاشرہ ہم آہنگی کی طرف بڑھے۔ مفاہمت اور ہم آہنگی ایوان تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ قوم کے نصیب میں صرف ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم والی کیفیت نہیں ہونی چاہیے۔ اہلِ اختیار کو کبھی کبھی مُنہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے معاملات کی دُرستی کی طرف بھی جانا چاہے۔ قوم ایسے ہی لمحات کے انتظار میں سُوکھ کا کانٹا ہوئی جارہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved