جب ایک نیا شہر بسایا جاتاہے ‘ ایک نئی ہائوسنگ سوسائٹی بنتی ہے تو اس کی زمین ‘ سیوریج لائن ‘ بجلی کا نظام ‘ پانی کے پائپ‘ ہر چیز ناپ تول کر بچھائی جاتی ہے ۔اسلام آباد شہر چونکہ پوری منصوبہ بندی سے بسایا گیا تھا ؛لہٰذا یہ چیز اس شہر میں آپ کو بخوبی نظر آئے گی ۔ آپ مارگلہ کی بلندی پہ جائیں ‘ شہر کی سڑکیں‘ ایک ایک سیکٹر آپ کو الگ الگ نظر آئے گا ‘اگر آپ اس سارے نظام کا جائزہ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہو جاتاہے کہ اس شہر میں کتنے لوگ آسانی سے رہ سکتے ہیں ؟ یہ تعداد کہاں تک بڑھے گی تو مشکلات پیدا ہوں گی اور کہاں جا کر شہر لوگوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو جائے گا۔
اب‘ دوسری طرف آئیں ۔ آپ کو معلوم ہے کہ کرّہ ٔ ارض یا ہماری زمین ہر چیز میں خود کفیل ہے ۔ اس میں جتنی بھی چیزیں پائی جاتی ہیں ‘ ان میں نہ تو کوئی اضافہ کیا جا سکتاہے ‘اور نہ کمی۔ سب سے بڑی مثال پانی ہے ۔ درجہ ٔ حرارت بڑھنے کے ساتھ ساتھ کرّہ ٔ ارض کے مختلف حصوں ‘ بالخصوص انٹارکٹکا کی برف پگھلتی جا رہی ہے ۔آبادیوں کے ڈوبنے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے ۔ ایک وقت آئے گا‘ جب کراچی جیسے بہت بڑے ساحلی شہرپانی میں ڈوب جائیں گے۔ کروڑوں افراد بے گھر ہو جائیں گے ۔ پانی آہستہ آہستہ خشکی پر چڑھتا رہے گا؛حتیٰ کہ یہ آبادیوں کو نقصان پہنچانے لگے گا ۔
لیکن آپ اس پانی کو اٹھا کر کرّہ ٔ ارض سے کہیں دُور نہیں لے جا سکتے ۔ آپ‘ اسے گرم کر کے اڑا دیں ‘ وہ بارش کی صورت میں پھر زمین پہ برس جائے گا‘ اگر آپ ایسا کوئی منصوبہ بنائیں کہ ہم پانی کو خلا میں پھینک دیں تو اس کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ انسانوں کے بس سے باہر ہیں ۔ یہ وہ صورتِ حال ہے ‘ جس میں فلپائنز جیسے جزائر پہ آباد ممالک خوف سے چلّا رہے ہیں ۔ امریکہ اور چین جیسے بڑے ممالک آپس میں معاہدے کر کے کوئلے سمیت کاربن کا اخراج گھٹا رہے ہیں کہ برف پگھلنی بند ہو ۔
اسی طرح یہ زمین جس طرح ہے ‘ اسی طرح رہے گی۔ یہ self sustainingہے۔ آپ اس میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کر سکتے ۔ جاپان جیسے دنیا کے امیر ترین ممالک آبادی بہت زیادہ بڑھنے اور زمین کم ہونے پر یہ نہیں کر سکتے کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے ملک روس سے خشکی کا ایک ٹکڑا خرید کر کاٹ کر جاپان کے ساتھ جوڑ دیں ‘ اگر آپ ارتھ سائنسز کو پڑھیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ self sustainingزمین ڈیزائن کی گئی ہے ۔ اس کا سب سے نیچے والاحصہ ‘ جسے coreکہتے ہیں‘ وہ لوہے کا بنا ہوا ہے ۔اس لوہے کے کور کا مائع حصہ وہ مقناطیسی میدان پیدا کرتاہے ‘ جو کہ زمین کے اوپر بسنے والی مخلوقات کو سورج کی تابکار شعاعوں سے بچاتا ہے ۔ اس کے اوپر مینٹل ہے۔ کور اور مینٹل میں درجہ ٔ حرارت اس قدر زیادہ ہے کہ مخلوقات یہاں زندہ نہیں رہ سکتیں ۔ مینٹل کے اوپر کرسٹ ہے ‘ جس کے اوپر ہم رہتے ہیں ۔
اس کرسٹ میں جو مٹی رکھی گئی ہے ‘ وہ اس طرح کی ہے کہ وہ زندہ چیزوں کو زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے ۔ یہ مٹی پانی کو اپنے اندر روکتی ہے ۔ بیج اس میں رکھ دیا جائے تو وہ پھٹ کر پودا بن جاتاہے ۔ یہ مٹی پودوں کی جڑوں کو اپنے اندر سرایت کرنے دیتی ہے ۔ پودوں کو جانور کھاتے ہیں ۔ سبزی خور جانوروں کو گوشت خور جانور اور انسان کھاتے ہیں ۔
زمین میں جو کچھ ہے ‘ وہ فکسڈ ہے ۔ اس میں کمی اور اضافہ نہیں ہو سکتا۔ پانی کی مثال آپ کے سامنے ہے ‘ جو بخارات بن کر اڑتا ہے ‘ بارش بن کر برس جاتاہے ‘ بارش کا پانی زمین کے نیچے ایک خاص گہرائی میں جا کر روک دیا جاتاہے ۔ جب انسان چاہے ‘ زمین میں سوراخ کر کے اس پانی کو واپس نکال کر استعمال کر سکتاہے ‘ اسی طرح سے زمین کے جو پودے ہیں ‘ وہ سبزی خور جانوروں کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہیں ۔ آپ یہ سوچیں کہ اگر پودے بہت کم ہوتے ‘ زمین صرف چند سخت جان پودوں کو اپنے اندر جڑیں گاڑنے اور اُگنے کی اجازت دیتی تو سبزی خور بھوکے مر جاتے‘ لیکن ایسا نہیں ہے ۔ ہر جگہ سبزہ اُگا ہوا ہے کہ جانور کھاتے رہیں اور اپنا پیٹ بھرتے رہیں ۔ انسان تو اس قابل ہے کہ زمین میں سوراخ کر کے پانی نکال سکے ‘لیکن جھیلوں اور تالابوں کی شکل میں میٹھا پانی زمین کی سطح پر بھی رکھا گیا ہے کہ جانور اپنی پیاس بجھا سکیں ۔
تو زمین میں جتنے بھی وسائل ہیں ‘ وہ فکسڈ ہیں‘ لیکن جب ایک نیا انسان یا نیا جانور پیدا ہوتاہے تو زمین کے وسائل کھانے والوں میں ایک کا اضافہ ہو جاتاہے ۔ آپ سات ارب انسانوں کو دیکھیں ۔ آج سے 80سال بعد 2100ء میں ہو سکتاہے کہ یہ آبادی 11یا 12ارب تک پہنچ جائے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وسائل استعمال کرنے والوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ لیکن ان وسائل میں اضافہ نہیں ہو رہا ۔
لیکن اب ‘ایک لمحہ رک کر آپ یہ سوچیں کہ زراعت آج کیا ویسی ہی ہے ‘جیسی کہ ہزاروں سال پہلے تھی ؟ چلیں ہزاروں سال کو چھوڑیں ‘ آپ صرف سو سال پہلے کی زراعت کا آج کی زراعت سے موازنہ کر لیں ‘ اگر انسان اس قابل تھے کہ وہ زمین پر پھیلتے چلے گئے تو اس کے ساتھ ساتھ ان کا دماغ اس طرح سے بنایا گیا تھا کہ وہ زراعت کو بھی بہتر بنا لیں ۔ سو سال پہلے جو فصل سو من فی ایکڑ تھی ‘ آج کیا ٹنل فارمنگ اور ڈرپ اری گیشن سے کتنے گنا زیادہ ہو چکی ہے ؟ وہ جو بڑی کیلکولیشنز والا خالق ہے ‘ کیا اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک جانور اپنے جیسے کتنے جانور پیدا کرے گا؟ کیا اسے یہ علم نہیں تھا کہ ایک پودا کتنے بیج پیدا کرے گا اور ان بیجوں میں سے کتنے پودے اور درختوں میں بدلیں گے ؟ آپ یہ دیکھیں کہ ایک زمین کے وسائل سے آج بھی 87لاکھ قسم کی مخلوقات اپنا پیٹ بھر رہی ہیں ۔ کیا یہ سب اتفاقاً ہو رہا ہے؟
کیا یہ اتفاق ہے کہ نیچے لوہے کا کور ‘ جو مقناطیسی میدان پیدا کر رہا ہے اور اس کے اوپر مٹی ‘ جونا صرف پودوں کو اپنے اند رجڑیں گا ڑ کر جانوروں کی خوراک پیدا کر رہا ہے‘ بلکہ پانی کو بھی اپنی سطح کے اوپر اور نیچے سٹور کر رہا ہے ۔ آپ ایک لمحے کے لیے سوچتے ہیں کہ ایک انسان مرنے سے پہلے اپنے جیسے پانچ انسان پیدا کرکے مرتاہے تو سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایک درخت زندگی بھر میں کتنے بیج پیدا کرتاہے ۔ پرندے آتے ہیں ‘ پھل کھاتے ہیں ‘ بیج اپنے پیٹ میں لے جا کر کہیں دُور گرا دیتے ہیں ۔ وہاں سے دو نئے پودے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ کتنی بڑی نشانی ہے کہ پودے کس طرح کرّہ ٔ ارض پہ پھیلتے چلے گئے ۔ انسان کی پیدائش سے کروڑوں اربوں سال پہلے ۔ جیسے جیسے انسان بڑھتے جا رہے ہیں ‘ اسی طرح ان کا دماغ فصلوں سے زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرتا چلا جا رہا ہے ۔
ان میں سے کوئی چیز بھی اتفاق نہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان یہ سوچتاہے کہ اسے ہمیشہ اس کرّہ ٔ ارض پہ زندہ رہنا ہے ‘جبکہ کرّہ ٔ ارض کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہاں کوئی جاندار بھی ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکا۔ انسان یہ کہے گاکہ میں ذہین ہوں ‘ اس لیے میں ہمیشہ زندہ رہنے کا استحقاق رکھتاہوں۔ کیا انسان نے اپنی اسی ذہانت سے کام لے کر اتنے جوہری ہتھیار نہیں بنا ڈالے‘ جو کرّہ ٔ ارض سے زندگی کا صفایا کر سکتے ہیں ؟ یہ بات ٹھیک ہے کہ انسان ذہین ہے‘ لیکن حیاتیاتی طور پر دوسرے جانوروں جیسا ایک جانور ہی ہے ۔ کیا آئن سٹائن اور سٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسدان بھی اپنی طبعی عمر پوری ہونے پر بے بسی کی موت مر نہیں گئے ؟ انسان جو مرضی کر لے ‘ آخر میں بے بسی کی موت اس کا انتظار کر رہی ہے ۔ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی ۔ ایک دن آئے ‘ ایک حادثہ ہو گا اور انسان صفحہ ٔ ہستی سے مٹ جائے گا ۔ یہ تقدیر ہے اور تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے ؟