کبھی سوچتا ہوں کچھ لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں یا چالاک کہ ساری عمر پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ ایسے ایسے لوگ اس ملک پر حکمرانی کر گئے ہیں یا کررہے ہیں کہ حیران ہوتی ہے۔ اندھا دھند دولت کمانے کے علاوہ ان کے پاس کیا ایسی صفت تھی کہ وہ اس ملک کے حاکم یا مالک بن بیٹھے؟ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بڑی صفت ہو کہ وہ بہت سا مال کما سکتے ہیں اور وہ پرانا محاورہ کہ'' جس گھر دانے اوہدے کملے وی سیانے‘‘ یعنی جس کی جیب بھری ہوئی ہو وہ دنیا کا ذہین اور کامیاب بندہ سمجھا جاتا ہے‘ اس کی بونگیاں بھی اقوال زریں لگتی ہیں۔ ایک امریکی محاورہ ہے کہ اگر آپ اتنے چالاک اور ذہین ہیں تو پھر آپ امیر کیوں نہیں یا پھر بالزاک کا وہ فقرہ کیسے سب پر فٹ آتا ہے کہ Behind every great fortune there is a crime ۔
دو سو سال پہلے فرانسیسی ادیب بالزاک نے یہ اصول طے کر دیا تھا کہ بغیر جرم آپ دولت مند نہیں ہو سکتے۔ ایماندار انسان ارب پتیوں کی نوکری تو کر سکتا ہے لیکن خود ارب پتی نہیں بن سکتا۔ یہی دیکھ لیں کابینہ میں کیسے کیسے لوگ بیٹھے ہیں جو بڑے آرام سے مال بھی بنا رہے ہیں‘ فیصلے بھی خود کررہے ہیں‘ اپنے اپنے کاروبار کو فائدے بھی پہنچا رہے ہیں۔ ان کے نام ہر دوسری انکوائری رپورٹ میں شامل ہیں کہ وہ کیسے اس ملک اور قوم کو لوٹتے رہے ہیں‘ لیکن وہ ہمارے سر کے تاج بھی ہیں۔ ابھی بجٹ میں دیکھ لیں کیسے انجینئر نگ سیکٹر کو رعایتوں کے نام پر وزیر اعظم کے ایک اہم مشیر کی کمپنیاں فائدے اٹھائیں گی۔ کورونا کے باعث کچھ دن پہلے تک پاکستان سے سینی ٹائزر ایکسپورٹ کرنے پر پابندی تھی‘ جونہی ان مشیر صاحب کے صاحبزادے کی کمپنی نے بنانا شروع کیے ساتھ ہی ایکسپورٹ کی اجازت مل گئی۔ ابھی بجلی گھروں کو پیسے دینے کیلئے دو سوارب روپے کا قرضہ لیا گیا ہے جس میں سے ڈیڑھ ارب روپے ندیم بابر کی کمپنی لے گئی ہے جس کا نام اس انکوائری رپورٹ میں ہے جن کے بجلی گھروں نے عوام کو لوٹا ہے اور رپورٹ بھی دبا لی گئی ہے۔
اب بولیں ۔
میں ارشد شریف کا پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں عمران خان کے سپیشل اسسٹنٹ ندیم بابر کا کلپ چلایا گیا جس میں وہ فرما رہے تھے کہ ان کا کام تو مشورہ دینا ہے‘ فیصلے کابینہ یا وزیراعظم کرتے ہیں۔ کبھی وہ مشورہ مان لیتے ہیں ‘ کبھی نہیں مانتے۔ مطلب پٹرول پر جو اربوں روپے عوام کی جیب سے نکالے گئے ہیں اس کا وزیر اعظم اور کابینہ سے پوچھیں۔ پٹرولیم کی وزارت ایک خط پچیس مارچ کو جاری کرتی ہے کہ آج سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو روک دیا جائے کہ وہ باہر سے سستا تیل نہ منگوائیں کیونکہ وزیر اعظم کے بعض مصاحبین کا پروگرام بن گیا تھا کہ انہوں نے چند آئل ریفائنریز کو فائدہ پہنچانا ہے جن کے بورڈ میں وہ خود شامل ہیں۔ ایک ماہ تک تیل بیرون ملک سے نہیں منگوایا‘ جب دنیا میں سستا ترین تیل دستیاب تھا۔ سمجھ دار حکمران فوراًپلان بناتے ہیں کہ کس طرح چند ماہ کا تیل سٹور کر لیا جائے‘ مگر ان لوگوں نے سستے تیل کی امپورٹ پر پابندی لگا کر پٹرول کی شارٹیج پیدا کر دی۔ آئل ریفائنری نے اس شارٹیج سے فائدہ اٹھا کر اربوں کھرے کر لیے۔
سب سے مزے کا کام یہ ہوا کہ آئل بحران پر کابینہ میں وزرا سنبھالے نہیں جارہے تھے کہ عوام کا کچومر نکل گیا اور اب لوگ حکومت پر تنقید کر رہے ہیں اور وزرا عوام کا سامنا نہیں کر سکتے۔ وزیروں نے کہا‘ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے‘ وزیر اعظم نے کہا‘ فکر نہ کریں اس کابینہ اجلاس کے بعد وہ ان مشیروں اور وزیروں سے ایک اور اجلاس کر رہے ہیں اور کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور آئل مافیا کے ساتھ سختی سے نمٹیں گے۔ اجلاس کے بعد آئل مافیا سے تو نہ نمٹا گیا لیکن آئل مافیا نے وزیر اعظم کوقائل کر لیا کہ فوراً پچیس روپے فی لٹر تیل کی قیمت بڑھائی جائے۔ اب سب وزرا‘ جو اِس اجلاس میں توقع لگائے بیٹھے تھے کہ مشیروں کی خیر نہیں ہے وہ خود پر ہنس رہے ہیں۔ ایک وزیر سے میری بات ہوئی تو بولا: ہم تو شرمندگی کے مارے کسی کو منہ نہیں دکھا سکتے کہ ایک ہفتہ پہلے کابینہ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ آئل مافیا کو نہیں چھوڑیں گے اور اب ایک ہفتہ بعد آئل مافیا ہم پر ہنس رہا ہے۔
اب وزیروں اور ارب پتی مشیروں کے درمیان اختلافات بھی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ کچھ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ فواد چودھری نے اسد عمر‘ جہانگیر ترین اور شاہ محمود کا جو کچا چٹھا کھولا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم کو پتہ چلا تھا کہ دونوں وزیر وزیر اعظم بننے کی اداکاری کر رہے ہیں‘ لہٰذا انہیں فکس کرایا جائے۔ فواد چوہدری کی بات کو کابینہ میں فیصل وائوڈا آگے لے کر بڑھے جب وہ برسے کہ انہیں پتہ ہے یہاں کون لوگ وزیر اعظم کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے کابینہ اجلاس میں احتجاج کیا کہ فواد چوہدری نے ان پر غلط الزام لگایا ہے۔ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کو توقع تھی کہ وزیر اعظم کابینہ اجلاس میں فواد چودھری پر برس پڑیں گے‘ تاہم دونوں اس وقت حیران رہ گئے جب عمران خان صاحب نے فواد چودھری پر کوئی غصہ نہیں کیا ‘ صرف اتنا کہا: فواد بہتر ہوتا تم باہر بات نہ کرتے۔ فواد نے الٹا شاہ محمود قریشی اور اسد عمر پر کابینہ میں چڑھائی کر دی کہ اس نے کیا غلط کہا اور پوچھا کہ آپ لوگ ایک دوسرے کے خلاف سازشیں نہیں کرتے؟ فواد چودھری کی چڑھائی کے بعد آپ نے دیکھا ہو گا کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر ہر وقت عمران خان کے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں‘ چاہے پریس کانفرنس ہو‘ پارلیمنٹ ہو یا ٹوئٹر‘ تاکہ عمران خان کو وفاداری کا یقین دلایا جائے‘ حالانکہ سیاست میں وفاداری نام کی چیز نہیں ہوتی ‘ صرف ایک دوسرے کو استعمال کرنا ہوتا ہے۔
ویسے مزے کی بات ندیم بابر نے کی ہے کہ جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں اس کا ان سے تعلق نہیں ہے کیونکہ وہ تو مشورہ دیتے ہیں باقی عمل کرنا ‘ نہ کرنا کابینہ یا وزیر اعظم کا کام ہے۔مزے کی بات ہے کہ اس کابینہ کے فیصلوں سے فائدہ زیادہ ندیم بابر جیسے لوگوں کو ہو رہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان کا اایسے فیصلوں سے تعلق نہیں کیونکہ وہ تو صرف مشورہ دیتے ہیں۔ مطلب کل کو پھنسیں تو وزیر اعظم یا عمر ایوب‘ جن کے دستخط سے سب کام ہوتے ہیں ۔ یہ ہوتے ہیں ٹیکنوکریٹس جو جانتے ہیں کہ کیسے چندہ وغیرہ دے کر پہلے عہدہ لینا ہے‘ مشیر بن کر اندھا دھند پیسہ کمانا ہے اور کل کو کوئی جواب طلبی کرے تو سارا ملبہ وزیر اعظم اور وزیروں پر ڈال دینا ہے ۔ایسے لوگ بعد میں وعدہ معاف گواہ بننے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔
بہرحال مجھے پی ٹی آئی کے منتخب وزیروں اور ایم این ایز پر ترس آتا ہے کہ بائیس برس تک سڑکوں کی خاک چھانتے رہے‘ مشکلات کا سامنا کیا‘ لوگوں کی منت ترلے سے ٹکٹیں لیں‘ پھر لوگوں کے ہاتھ پائوں جوڑ کر ووٹ لیے‘ کروڑوں لگا کر الیکشن جیتے‘ کیا اس لیے کہ پوری کابینہ ٹیکنو کریٹ مشیروں کے کاروبار کو ترقی دینے کے فیصلوں پر مہر ثبت کرتی رہے؟ پی ٹی آئی کے نوجوانوں پر بھی ترس آتا ہے جو سارا دن سوشل میڈیا پر ان مشیروں کی کرپشن کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ ارب پتی مشیر بھی شوکت عزیز کی طرح اپنا بھرا بیگ اٹھا کر نکل جائیں گے اور یہ بے چارے پیچھے کھسیانی بلی کی طرح سوشل میڈیا پر ان کا دفاع اور صحافیوں کو گالیاں ہی دیتے رہیں گے ۔ ساری محنت اور مصیبتیں پی ٹی آئی کے ورکرز نے اٹھائیں اور دولت کمائی دوسروں نے۔ دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں!