تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     01-07-2020

کاک ٹیل

ہمارا ایجنڈا عوام کی خدمت‘ جو کہتے ہیں کرتے ہیں: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''ہمارا ایجنڈا عوام کی خدمت‘ جو کہتے ہیں کرتے ہیں‘‘ اور کہتے وہی ہیں ‘جس میں کرنے کا عنصر کم سے کم ہو‘ بلکہ زیادہ تر تو ہم کہنے ہی کو کرنے کے برابر سمجھ لیتے ہیں‘ کیونکہ کہنا بجائے خود ایک کام ہے‘ جو زبان سے کیا جاتا ہے اور اسی طرح ایجنڈے کا عوام کی خدمت ہونا بھی زیادہ تر ایجنڈے ہی کی شکل میں رہ جاتا ہے‘ جو ہم نے بڑی محنت سے بنایا ہے‘ کیونکہ ایجنڈا ہی اصل چیز ہوتا ہے اور جس طرح ایجنڈا بن گیا ہے‘ ایک دن اس پر عمل بھی کر کے دکھا دیں گے‘ کیونکہ ہم ''سہج پکے سو میٹھا ہو‘‘ کے قائل ہیں اور جو اکثر اوقات پکتا نہیں‘ بلکہ کچّا ہی رہ جاتا ہے‘ اس لیے میٹھا ہونے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
معیشت کو نشانہ بنانے والے نامراد رہیں گے: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''پاکستانی معیشت کو نشانہ بنانے والے نامراد رہیں گے‘‘ کیونکہ ہماری معیشت پہلے ہی اس قدر پسماندہ ہے کہ اسے نشانہ بنانے والوں کو واقعی کچھ حاصل نہیں ہوگا‘ جبکہ ان کا نشانہ بھی کچھ زیادہ ٹھیک نہیں‘ اس لیے انہیں سب سے پہلے اپنا نشانہ درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اول تو نشانہ خطا ہونے اور کوئی چیز نزدیک سے بھی گزر جانے سے ہی یہ معیشت ڈانواں ڈول ہونے لگتی ہے‘ تاہم امید ہے کہ مخالفین کے نشانہ درست کرنے تک ہم بھی معیشت کو کسی حد تک مضبوط بنا لیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ''انقرہ کانفرنس‘‘ کے لیے پیغام جاری کر رہے تھے۔
حاجتمندوں کی قطار
ایک شخص گھر سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک جنازہ جا ر ہا ہے‘ جس کے شرکاء قطار باندھے ہوئے تھے اور ایک کتا بھی ساتھ ساتھ جا رہا تھا‘ جس کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے۔ اس نے جنازے میں شریک ایک آدمی سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے ؟تو اسے بتایا گیا کہ جو شخص سب سے آگے آگے جا رہا ہے یہ اس کی بیوی کا جنازہ ہے۔اور یہ کتا اور اس کے گلے میں پھولوں کے ہار؟‘‘ اس نے پوچھا۔''اس کی بیوی اِس کتّے کے کاٹنے ہی سے مری ہے‘‘ اس نے جواب دیا۔ ''کیا یہ کتا ایک دن کیلئے مجھے نہیں مل سکتا؟‘‘اس شخص نے التجا بھرے انداز میں کہا ۔''کیوں نہیں‘ لیکن یہ اتنی لمبی قطار اس کتے کے امیدواروں ہی کی ہے۔
طریقہ
ایک شخص نے اپنے ایک دوست سے پوچھا: ''یار! بیوی کو خوش کرنے کا کوئی طریقہ بتائو؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ '' بیوی کو خوش رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ اس کے حُسن کی تعریف کرتے رہو‘‘۔ وہ شخص گھر گیا تو اس کی بیوی آٹا گوندھ رہی تھی۔ وہ بولا ''بہت خوبصورت لگ رہی ہو‘‘۔ ''کیا کہا؟‘‘ اس کی بیوی نے حیران ہو کر سر اٹھاتے ہوئے پوچھا۔''خدا کی قسم بالکل حُور لگ رہی ہو‘‘۔ اس پر اس کی بیوی نے رونا شروع کر دیا تو وہ بولا'' کمال ہے‘ میں نے تمہاری تعریف کی ہے اور تم رونے لگ گئی ہو؟‘‘۔''روئوں نہ تو اور کیا کروں؟‘‘ بیوی نے جواب دیا۔ ''چھوٹی بیٹی نے سلائی مشین میں دے کر انگلی زخمی کر لی ہے‘ بڑی نے ڈنر سیٹ توڑ دیا ہے‘ اوپر سے آپ نشہ کر کے گھر آ گئے ہیں۔ میں روئوں نہ تو اور کیا کروں؟‘‘۔
تاکید
ایک شخص کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ اس کا جنازہ لے کر جا رہے تھے کہ گلی کے موڑ پر جنازے کی چارپائی کھمبے سے ٹکرائی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کچھ عرصے کے بعد وہ پھر انتقال کر گئی۔ جنازہ لے کر جا رہے تھے کہ کھمبے کے نزدیک پہنچے تو اس شخص نے بلند آواز سے کہا ''کھمبے سے ذرا بچا کے!‘‘۔
کیا بنے گا؟
بیوی کافی عرصے سے بیمار چلی آ رہی تھی کہ ایک دن اُس نے اپنے میاں سے کہا: ''میں سوچ رہی ہوں کہ اگر میں مر گئی تو تمہارا کیا بنے گا؟‘‘۔''اور میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر تم نہ مری تو پھر میرا کیا بنے گا؟‘‘ میاں نے جواب دیا۔
تلاش
ایک صاحب بازار میں پریشان پھر رہے تھے کہ انہیں اپنا ایک دوست مل گیا‘ جس سے انہوں نے پوچھا ''تم کدھر؟‘‘۔ ''یار دراصل میں اور میری بیوی شاپنگ کے لیے آئے تھے ‘ لیکن وہ رش میں کہیں گم ہو گئی ہے‘ اسے تلاش کر رہا ہوں‘‘۔ ''تمہاری بیوی کا حلیہ کیا تھا؟‘‘ اس نے دوست سے پوچھا۔''دراز قد‘ سرخ و سفید رنگت اور بلا کی خوبصورت‘ اور تمہاری بیوی؟‘‘ اس نے پوچھا۔دوست بولا'' میری بیوی کو چھوڑو‘چلو دوونوں کو مل کر تمہاری بیوی کو ڈھونڈتے ہیں‘ ‘۔
اور‘ اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
نہ جنگل سے نہ میں صحرا کی ویرانی سے ڈرتا ہوں
بس اپنے شہر میں پھیلی بیابانی سے ڈرتا ہوں
کہاں مجھ کو ڈرا سکتی ہے دریائوں کی طغیانی
مگر اُس آنکھ سے بہتے ہوئے پانی سے ڈرتا ہوں
مرے شعروں میں تیرے حسن کی خوشبو جھلکتی ہے
اسی خاطر سرِ محفل غزل خوانی سے ڈرتا ہوں
پریشاں کر تو سکتا ہوں تجھے دو چار جملوں میں
مگر میں اس کے بعد اپنی پریشانی سے ڈرتا ہوں
یہی مشکل مجھے در پیش رہتی ہے کہ میں اکثر
نہیں ڈرتا کسی مشکل سے‘ آسانی سے ڈرتا ہوں
ڈرا سکتی نہیں قیصرؔ مجھے صحرائوں کی وحشت
میں خود صحرا ہوں اور اپنی ہی ویرانی سے ڈرتا ہوں
(قیصر مسعود‘ دوحہ‘ قطر)
...............
یہی مسماری ہے تعمیر اپنی
کھنڈر ہونا ہے گر تقدیر اپنی
ہمیں ہیں ورثہ دارِ حرف و معنی
جہاں تک دیکھیے جاگیر اپنی 
مرے خوابوں کے گُم ہیں رنگ سارے
دکھائیں تو ذرا تصویر اپنی
ادا کرنی تھی بس اک رسمِ کُہنہ
سو کہہ دی بات بے تاثیر اپنی
زہے قسمت کہ بیعت آپ سے ہوں
گزر جاتی یونہی بے پیر اپنی (صابرؔ‘ انڈیا)
آج کا مطلع
یوں ہی کہیں سن لیا کرو بات ہماری
ویسے کوئی کم بھی نہیں خدمات ہماری

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved