تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-07-2020

پہلے ’’کاٹھ کباڑ‘‘ ٹھکانے لگایا جائے

بہت کچھ ہے‘ جو کیا جانا ہے‘ بہت کچھ ہے ‘جو بے تاب ہے کہ ہم اُسے حاصل کریں‘ مگر یہ سب کچھ محض باتوں سے ہونے والا نہیں۔ ہمیں جو کچھ بھی بننا ہے‘ وہ محنت ہی کا نتیجہ ہوسکتا ہے اور جو کچھ ہم پانا چاہتے ہیں‘ وہ محض باتیں کرنے اور قیاس کے گھوڑے دوڑاتے رہنے سے نہیں مل جائے گا۔ یہی دنیا کا ابدی اصول ہے۔ ہر دور کے انسان کو اُسی وقت کچھ ملا ہے‘ جب اُس نے خود کو جہدِ مسلسل کی منزل تک پہنچایا ہے۔ حقیقی کامیابی کسی بھی انسان کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کا نتیجہ نہیں ہوا کرتی۔ انسان کی نیت صاف ہو یا گندی‘ ارادوں کی غایت خواہ کچھ ہو‘ محنت تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ کسی بھی حوالے سے فطری صلاحیت کا پایا جانا حیرت انگیز امر نہیں۔ دنیا کے ہر انسان کو قدرت نے کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور ودیعت کی ہے‘ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کی رونق ماند پڑ جائے‘ بے صلاحیت انسانوں کا وجود دنیا کو ویرانہ بنانے میں دیر نہ لگائے۔ بہت سوں کو قدرت کی طرف سے ہمہ جہت نوعیت کی صلاحیت عطا کی جاتی ہے ‘تاکہ اُن کی عمدہ کارکردگی دیکھ کر دوسروں کو بھی کچھ کرنے کی تحریک ملے‘ وہ بھی کامیابی کے حوالے سے اپنے ذہن کو تیاری کی حالت میں لائیں۔ ہمیں کچھ بننے اور کچھ پانے کے لیے زندگی بھر بہت کچھ کرتے رہنا پڑتا ہے۔ اس اصول سے استثنیٰ کسی کو بھی حاصل نہیں ہے‘ علاوہ ازیں جس میں صلاحیت ہوتی ہے‘ اُسے بھی محض باصلاحیت ہونے کی بنیاد پر کچھ نہیں مل جاتا‘ یعنی صلاحیت کو بروئے کار لانا ہر اُس انسان پر لازم ہے‘ جو دوسروں سے ہٹ کر اور کچھ آگے جاکر کچھ کرنا چاہتا ہے۔
یہ مسابقت کی دنیا ہے۔ صلاحیت رکھنے والے لاکھوں نہیں‘ کروڑوں ہیں۔ سوال باصلاحیت ہونے کا نہیں‘ صلاحیت کو نکھار کر‘ پروان چڑھاکر بھرپور انداز سے بروئے کار لانے کا ہے۔ جو ایسا کر پاتے ہیں‘ وہی کامیاب رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے مثال بنتے ہیں‘ اگر کسی کو اس بات کا یقین نہ ہو تو کسی بھی کامیاب انسان کے بارے میں پڑھ کر دیکھ لے۔ اندازہ ہوجائے گا کہ کامیابی یقینی بنانے کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں؟ کتنے جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ ہم زندگی بھر جو کچھ کہتے‘ سُنتے اور کرتے ہیں‘ وہ سب ہمارے حافظے کا حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ یہ فطری معاملہ ہے۔ انسان اس معاملے میں بہت حد تک بے بس ہے‘ مجبورِ محض ہے۔ ہمارے حافظے میں دنیا بھر کے معاملات پڑے رہتے ہیں ‘مگر خیر یہ سب کے سب ہر وقت فعال نہیں ہوتے۔ جن معاملات سے ہمارا واسطہ تواتر سے پڑتا رہتا ہو‘ وہ متحرّک رہتے ہیں۔ حافظے میں پڑی ہوئی ایسی باتیں ہمیشہ تر و تازہ رہتی ہیں‘ جن کا ہماری زندگی کے عملی پہلو سے گہرا اور ناگزیر نوعیت کا تعلق ہو۔ ہمارے تعلقات اور کیریئر وغیرہ سے مناسبت رکھنے والی باتیں حافظے میں متحرّک رہ کر ہمیں عمل پسند رویے کا حامل ہونے کی راہ دکھاتی ہیں۔ ہم نے جو کچھ بھی سوچ رکھا ہے‘ اُس کے حصول کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہوتی رہتی ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ تو ماحول ہے۔ جب بھی ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ تب کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے ‘جو ہمارے ارادوں کو کمزور کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ماحول میں ایسا کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے‘ جو ہمارے خلاف ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کائنات ہمارے خلاف سازش کر رہی ہے! ہمیں اسی حالت میں آگے بڑھنا ہے‘ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ جب حالات مکمل طور پر سازگار یا موافق ہوجائیں گے ‘تب ہی ہم کریں گے تو سمجھ لیجیے ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے اور زندگی یونہی گزر جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ ماحول میں ایسا بہت کچھ بھی ہو رہا ہوتا ہے‘ جو ہماری معاونت کرسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے‘ ہم ایسے معاملات کو شناخت کر پاتے ہیں یا نہیں؟ ہمارے حافظے میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہمارے لیے سُود مند تو کیا ہوگا‘ اُلٹا رکاوٹ کا درجہ رکھتا ہے! ایک طرف تو ماحول ہماری راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف ہم خود بھی اپنا بھلا نہیں چاہتے۔ اپنا بھلا نہ چاہنے کا ایک طریقہ یہ بھی تو ہے کہ انسان اپنے ذہن کو صاف ستھری حالت میں نہ رکھے۔ ذہن میں بہت سی ناکارہ باتیں بھری ہوں تو انسان ڈھنگ سے سوچ پاتا ہے ‘نہ کچھ کرنے کے قابل ہی رہتا ہے۔ 
ہم جو کچھ دیکھتے‘ سُنتے اور کہتے ہیں‘ اُسے اپنے حافظے میں محفوظ کرتے چلے جاتے ہیں۔ بہت سی باتیں خوابیدہ رہتی ہیں‘ یعنی اُن کا ہمارے معمولات سے بظاہر کچھ خاص تعلق نہیں ہوتا‘ مگر ہم خود ہی اُنہیں خواہ مخواہ بیدار رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں‘ جن باتوں کا ہماری زندگی سے بظاہر کوئی خاص تعلق نہ ہو‘ اُنہیں حافظے میں متحرّک رکھنا حماقت کے سوا کچھ نہیں ‘مگر ہم میں سے بہت سوں کو اس حماقت کا مستقل اعادہ نا صرف اچھا لگتا ہے ‘بلکہ اُس کا جواز بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے غیر متعلق معاملات کے بارے میں سوچتے رہنا ہمارے لیے سوہانِ روح ہو جاتا ہے۔ حافظے میں جو کچھ ہے‘ وہ سب کا سب ہمارے کام کا نہیں‘ جن باتوں سے ہمارا کچھ خاص تعلق نہ ہو‘ اُن کے بارے میں سوچ سوچ کر اُن کی نیند خراب نہیں کرنی چاہیے۔ اچھا ہے کہ ایسی تمام باتیں حافظے کے بستر پر خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹتی رہیں‘ اگر کچھ کرنا ہے تو پہلے مرحلے میں لازم ہے کہ ذہن کو ''کاٹھ کباڑ‘‘ سے نجات دلائی جائے۔ جن معاملات کا ہمارے تعلقات اور کیریئر سے کوئی خاص ربط یا تعلق نہ ہو‘ اُن کے بارے میں سوچنے سے یکسر گریز کیا جانا چاہیے۔الغرض ہمیں صرف اُن باتوں پر متوجہ رہنا چاہیے ‘جو ہمارے لیے ہماری زندگی میں کسی بھی اعتبار سے کام کی ہوں اور کسی بھی شعبے میں پیش رفت یقینی بنانے کے حوالے سے معاونت کرسکتی ہوں۔ہم اپنے معاملات میں بھرپور توجہ ہم اُسی وقت دے سکتے ہیں ‘جب ترجیحات کا تعین ڈھنگ سے کیا گیا ہو اور اس کے لیے لازم ہے کہ ذہن کو صاف ستھری‘ کارآمد حالت میں رکھا جائے! 
ذہن کی تطہیر لازم ہے۔ حافظے میں صرف وہی باتیں نمایاں طور پر موجود رہنی چاہئیں‘ جن سے ہمارا کسی بھی طرح کا ربط بنتا ہو۔ سکول اور کالج کے زمانے کے جن دوستوں سے معاملات اچھے رہے ہوں‘ اُنہیں یاد کرکے‘ اُن کے بارے میں سوچ کر سکون ملتا ہے۔ سکول کے تمام ساتھیوں کے بارے میں سوچتے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہی حال خاندان‘ حلقۂ احباب اور کیریئر سے متعلق اصحاب کا بھی ہے۔ جہاں آپ کام کر رہے ہوں‘ وہاں سب کے سب آپ کے نہیں ہوتے اور آپ کو بھی ہر ایک کا نہیں ہونا‘ جن سے تعلقات اچھے ہوں اور گاڑھی چھنتی ہوں ‘اُن پر متوجہ رہنا کافی ہے۔اسی اصول کے تحت خاندان کا ہر فرد اس قابل نہیں ہوتا کہ اُس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوا جائے۔ دوستوں میں بھی سب اس قابل نہیں ہوتے کہ اُن سے گہرے اور مضبوط تعلقات استوار رکھے جائیں۔ تعلقات کے معاملے میں آپ کو اپنے مفادات اور ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے‘ اگر ایسا نہیں کریں گے‘ تو آپ اپنے دل و دماغ کا بوجھ بڑھاتے رہیں گے۔ 
ہر وقت بہت سے معاملات میں دلچسپی لیتے رہنے سے ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے۔ ایسے میں آپ طے نہیں کر پاتے کہ کرنا کیا ہے اور یوں آپ کی توانائی ضائع ہوتی رہتی ہے۔ توانائی کا اس طور واقع ہونے والا ضیاع پچھتاوے کے احساس کو جنم دیتا ہے۔ یہ احساس توانا ہو تو وقت کے ضیاع سے ہونے والا دکھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وقت کے ضیاع کا احساس ہی تو انسان کا سب سے معلم ہے۔یہ احساس ہی تو سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے وجود کو ضائع کرنے سے اجتناب برتنا ہے۔ حافظے کو کباڑ خانے میں تبدیل ہونے سے بچائیے۔ خیالات کا تجزیہ لازم ہے۔ اِس تجزیے ہی کی مدد سے آپ طے کرسکیں گے کہ کن معاملات کو اہم گرداننا ہے۔ آزما دیکھیے‘ ذہن کی صفائی آپ کی راہِ عمل میں کھڑی ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved