تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-07-2020

کھچڑی اور جواد ؔشیخ کا تازہ کلام

کُرسی چھوڑنے سے گھبرانا نہیں چاہیے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''کُرسی چھوڑنے سے گھبرانا نہیں چاہیے‘‘ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ میری بات کا الٹا ہی اثر ہوتا ہے‘ یعنی پہلے میں نے کہا تھا کہ کورونا سے گھبرانا نہیں چاہیے‘ لیکن عوام نے گھبرا گھبرا کر نا صرف کورونا کی حوصلہ افزائی کی‘ بلکہ مجھے بھی پریشان کیا؛ چنانچہ اب نہ گھبرانے کی تلقین میں اپنے آپ کو کر رہا ہوں‘ کیونکہ کرسی چھوڑنے کا سب سے زیادہ اثر خود مجھ پر ہی پڑے گا‘ تاہم میں بھی اس تلقین پر عمل نہیں کر سکتا‘ کیونکہ میں بھی عوام ہی سے ہوں‘ جنہوں نے پہلے بھی میری بات پر عمل نہیں کیا تھا‘ لیکن آخر کہنے میں کیا حرج ہے ۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔
اگر مافیا نے راج کرنا ہے تو حکمرانوں کو گھر جانا چاہیے: حمزہ 
پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''اگر مافیا نے راج کرنا ہے تو حکمرانوں کو گھر جانا چاہیے‘‘ جبکہ ہمیں گھر جانے کی سہولت سے بھی محروم کیا جا رہا ہے‘ بلکہ جیل بھجوانے کی تیاریاں ہو رہی ہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی نیا انکشاف یا مقدمہ ہمارے سر پر آن کھڑا ہوتا ہے اور ہمارے اثاثوں کی گنتی نئے سرے سے شروع ہو جاتی ہے‘ جبکہ یہ اثاثے ویسے بھی قوم کی ملکیت ہیں ‘کیونکہ ہم بھی اسی قوم کے افراد ہیں اور ہمیں بھی برابر کے حقوق حاصل ہیں؛ اگرچہ ہم نے ان حقوق کا استعمال کچھ ضرورت سے زیادہ ہی کر لیا تھا‘ تاہم‘ ہم نے حقوق کے استعمال کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض بھی سر انجام دیئے ہیں‘ جو حکومت کے پیٹ میں مروڑ کی طرح اٹھ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیاکے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
نام کا مغالطہ
شہر میں کرکٹ میچ ہو رہا تھا اور باہر سے کوئی ٹیم آئی ہوئی تھی۔ ایک نوجوان کالج سے فارغ ہوتے ہی میچ دیکھنے چلا گیا‘ جہاں بہت رش تھا اور ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ وہ قطار میں شامل ہو گیا۔ کافی دیر کے بعد جب وہ کھڑکی پر پہنچا تو پیچھے سے ایک آواز آئی ''اللہ دِتّے!‘‘ وہ کھڑکی چھوڑ کر جدھر سے آواز آئی تھی‘ اس طرف گیا‘ لیکن آواز دینے والے کا کچھ پتا نہ چلا۔ وہ پھر قطار میں جا لگا اور بالآخر ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے سوچا کہ کرکٹ تین چار گھنٹے کا کھیل ہے۔ کچھ کھانے کے لیے بھی لے لینا چاہیے‘ لیکن سٹیڈیم کے قریب صرف پاپ کارن دستیاب تھے‘ جس کے لیے بھی لمبی قطار لگی ہوئی تھی‘جس میں وہ بھی شامل ہو گیا۔ وہ اپنی باری آنے پر کھڑکی تک پہنچا ہی تھا کہ پیچھے سے پھر وہی آواز آئی ''اللہ دتّے! ‘‘ وہ نوجوان کھڑکی چھوڑ کر آواز کی طرف لپکا ‘لیکن اسے پھر کچھ پتا نہ چلا کہ کس نے آواز دی تھی‘ وہ پھر قطار میں شامل ہوا اور بالآخر پاپ کارن حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اندر جا کر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ عقب سے پھر وہی آواز آئی ''اللہ دتّے!‘‘ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور بولا ''میرا نام اللہ دتّہ نہیں‘ اللہ وسایا ہے ‘ تم میرے پیچھے کیوں پڑے ہو؟‘‘۔
قریب المرگ امپائر
شہر میں کانٹے دار کرکٹ میچ ہو رہا تھا کہ ایک کلرک نے اپنے سپرنٹنڈنٹ سے جا کر کہا کہ اس کے چچا کا انتقال ہو گیا ہے اور اس نے جنازے میں شریک ہونا ہے ‘اس لیے اُسے آدھے دن کی رخصت دے دی جائے ‘جو کہ منظور کر لی گئی۔ کچھ دیر کے بعد وہ سپرنٹنڈنٹ بھی میچ دیکھنے جا پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ کلرک میچ دیکھ رہا ہے‘ وہ اس سے بولے ''تم نے تو کہا تھا کہ تم نے اپنے چچا کے جنازے میں شریک ہونا ہے‘‘ تو کلرک بولا'' ان کے انتقال میں اب تھوڑی ہی دیر باقی رہ گئی ہے‘ کیونکہ وہ میچ کے امپائر ہیں اور انہیں یہ تک معلوم نہیں کہ کرکٹ میں رنز بنائے جاتے ہیں یا گول‘ اس لیے یا تو انہیں کھلاڑیوں نے مار ڈالنا ہے یا دوسرے امپائروں نے‘‘۔
آٹو گراف 
میچ کے دوران ایک کھلاڑی نے اتنے زور سے ہٹ لگائی کہ بال سٹیڈیم کو پار کرتا ہوا باہر جاتا ہوا ایک کار کے شیشے پر لگا‘ جس سے گاڑی بے قابو ہو گئی اور دو چار دوسری گاڑیوں کو بھی ٹکرانے سے نقصان پہنچا۔ اتنے میں اس کھلاڑی نے دیکھا کہ ایک تھانیدار وکٹوں کی طرف بھاگا چلا آ رہا ہے۔ جب وہ نزدیک پہنچا تو کھلاڑی نے کہا ''کیا آپ مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟‘‘۔ ''نہیں جناب!‘‘ تھانیدار بولا'' میں تو اپنے بیٹے کے لیے آپ سے آٹو گراف لینے آیا ہوں!‘‘۔
ایک اور میچ
شہر میں کرکٹ میچ ہو رہا تھا اور دنیا کی ایک مشہور ٹیم کھیلنے کے لیے آئی ہوئی تھی۔ ایک مقامی بائولر نے اس طرح گیند پھینکی کہ دنیا کے بہترین بلّے باز کی کلّی اڑا دی۔
''نو بال‘‘ امپائر نے زور سے چیختے ہوئے کہا ''بیوقوف! یہ لوگ تمہاری بائولنگ نہیں‘ بلکہ دنیا کے اس مشہورٹیم کے کھلاڑی کی بیٹنگ دیکھنے کے لیے جمع ہیں‘‘۔
اور اب آخر میں جوادؔ شیخ کا تازہ کلام:
سنبھل نہیں گئی حضرت‘ درست ہو گئی ہے
بگڑ کے اور بھی حالت درست ہو گئی ہے
عجیب بات سنی ہے‘ خدا معاف کرے
کہ آں جناب کی صُحبت درست ہو گئی ہے
خراب شے ہوا کرتی تھی کوئی دن پہلے
مجھے ملی ہے تو شہرت درست ہو گئی ہے
نجانے کون مخاطب ہے ان دنوں تجھ سے
کوئی بھی ہو‘ مری لکنت درست ہو گئی ہے
غلط تو خیر محبت میں اور کیا ہوتا
مگر یہ ہے کہ طبیعت درست ہو گئی ہے
ابھی گیا ہے مجھے کوستے ہوئے کوئی
کہ اس تئیں میری نیت درست ہو گئی ہے
کھلا کہ اُس سے بچھڑنے کی دیر تھی جوادؔ
مری اک اور بھی عادت درست ہو گئی ہے
............
کیا کوئی لگائے مری گویائی کی قیمت
یہ شہد نچھوڑا ہے ترے باغ سے میں نے
کچھ نہ ہونے کے بھی ہوتے ہیں مسائل کیا کیا
صرف ہونا ہی نہیں سانحہ ہوتا مرے ساتھ
آج کا مطلع
وہ تو اپنا تھا‘ یہ دھوکا اسے کیا دینا تھا
میں نہیں ہوں اسے پہلے ہی بتا دینا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved