پرانی یادیں کبھی بے ساختہ لوحِ حافظہ پر نمودار ہوتی ہیں۔ انہی یادوں نے آج گرفت میں لیا ہوا ہے۔ جولائی2012ء کی ایک صبح قومی ایئر لائن کی پرواز پر لاہور سے مانچسٹر روانگی تھی۔ عزیزان حافظ ذوالکفل (بھانجا) اور حافظ طلحہ ادریس(پوتا) ایئرپورٹ تک میرے ساتھ گئے۔ سامان مختصر تھا۔ ٹرالی سامان لے کر اندر چلی گئی تو مجھے بھی اندر جانا تھا۔ دونوں حفاظ ڈیپارچر گیٹ پر رخصت کرنے کے بعد انتظار میں کھڑے تھے ‘مگر میں نے انہیں بتایا کہ وہ چلے جائیں‘ کیونکہ ایئرپورٹ کے اندر بھی کئی برخوردار مل گئے تھے۔ پسنجر کائونٹر پر دو یورپین نوجوان کھڑے تھے‘چودھری جاوید (پی آئی اے) اور میں کائونٹر پر پہنچے۔ قومی ایئر لائن کے سٹاف نے ان دونوں گوروں کو ایک جانب کرکے مجھ سے میری ٹکٹ طلب کی۔ میں نے کہا کہ ان لوگوں کا جو قومی و عمومی رویہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے‘ اس کی وجہ سے اگرچہ یوں ان کو سائیڈ پر کر دینے سے بعض لوگوں کو کچھ تسکین تو ملتی ہے‘ مگر یہ درست نہیں۔ یہ پہلے سے کھڑے ہیں‘ ان کو پہلے بورڈنگ کارڈ دیجیے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ان کی ٹکٹ کنفرم نہیں‘ جبکہ آپ کی ٹکٹ اور سیٹ بھی کنفرم ہے۔ میں نے کہا؛ چلو یہ تو معقول بات ہے۔
یہاں سے فارغ ہونے کے بعد امیگریشن کائونٹر سے گزرتے ہوئے میں لائونج میں جاکر بیٹھ گیا۔ یہیں ایک دو اور مسافر‘ جنہیں مانچسٹر جانا تھا‘ ملے؛ غالباً وہ مجھے پہچانتے ہوں گے۔ وہ بڑی بے تکلفی سے حال احوال پوچھنے لگے‘ پھر منزلِ مقصود کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے کہ اچھی خبر ہے‘ آپ بھی مانچسٹر جا رہے ہیں۔ ان سے تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور وقت تیزی سے گزر گیا۔ اکثر و بیش تر پروازیں تاخیر کا شکار تھیں اور مسلسل اعلان ہو رہا تھا کہ فلاں پرواز اب اتنے بجے کی بجائے فلاں وقت پر جائے گی۔ جو از جہاز کی فنی خرابی یا لاہور پہنچنے والی پرواز کی تاخیر بتایا جا رہا تھا۔ معذرت بھی واجبی سی اور بصد تکلف کی جا رہی تھی۔ مہذب ملکوں میں ریل‘ ٹرام اور جہاز کا لیٹ ہو جانا المیہ سمجھا جاتا ہے‘ یہاں یہ معمول کا حصہ ہے۔
اللہ ہمیں بدعنوانوں سے نجات عطا فرمائے۔ واضح رہے کہ سال ہا سال تک ہماری قومی ایئرلائن دنیا کی اعلیٰ رینک ہوائی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی۔ ہمارے لوگوں نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کی ایر لائنز کو منظم اور کامیاب بنایا‘ مگر اپنا حال اتنا ابتر ہے کہ خدا کی پناہ!
اتفاق سے ہماری پرواز ٹھیک وقت پر روانہ ہو رہی تھی۔ جہاز میں ''تشریف لے جانے‘‘ کا اعلان ہوا تو مسافر تشریف لے جانے کے بجائے بھاگنے لگے۔ پتا نہیں ہمارا یہ مزاج کب تبدیل ہوگا۔ بیرون ِملک یہی پاکستانی قطاروں میں مہذب انداز میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ اپنی باری پر ہم بھی ''تشریف‘‘ لے گئے۔ عملے کے ایک خوش اخلاق نوجوان نے جہاز کے داخلہ گیٹ پر استقبال کیا اور سیٹ کی طرف راہ نمائی کی۔ جہاز تقریباً خالی تھا۔ بالخصوص پچھلا حصہ تو صحرا کی طرح ویران تھا۔ جہاز میں بیٹھ جانے کے بعد کپتان نے مسافروں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ہی یہ مژدہ سنایا کہ روانگی کا وقت ہو چکا ہے ‘مگر ابھی کلیئرنس نہیں ملی‘ جونہی ہمیں کلیئرنس ملے گی ‘ہم پرواز کر جائیں گے۔ کلیئرنس ملنے میں بھی تقریباً آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ اس دوران ٹیلی فون پر کئی پیغام موصول ہوئے اور کئی کالیں بھی آگئیں۔ یہ موبائل بھی عجیب چیز ہے۔ اس کی سہولیات بھی بے شمار ہیں‘ لیکن اس کی پیدا کردہ مصیبتیں بھی ناگفتہ بہ ہیں۔
قومی ایئرلائن ہمارا ملکی اثاثہ ہے‘ جودنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنی‘ لیکن المیہ یہ ہے کہ وطن ِعزیز میں اقربا پروری کا جو چلن سیاسی جماعتوں نے پروان چڑھایا ‘اس سے ہمارے پورے قومی نظام کو دیمک لگ گئی۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی ادارے سب ہی زبوں حالی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے‘ کسی کی کہی یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے کہ بس اللہ کے سہارے پر چل رہا ہے‘ یہ ملک! دنیا بھر میں فضائی حادثات کی شرح انتہائی کم ہے‘ لیکن ہمارے یہاں کچھ عرصے سے اس کے ایک غیرمحفوظ سفر ہونے کا تاثر ابھرنا صورت ِ حال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
قومی ایئر لائن کی سروس کبھی تو بہت اچھی ہوا کرتی تھی۔ آج کل معاملہ دگرگوں ہے۔ اتنی بڑی ائیرلائن کے خسارے میں جانے کی وجوہات معلوم کی جائیں تو اوپر کی اخباری خبر میں بیان کردہ حقائق کے علاوہ اقربا پروری‘ سیاسی وابستگیوں پر نوازشیں‘ ناقص انتظامات‘ خراب سروس اور احتساب کے فقدان کی بدولت قومی ائیر لائن میں کھانے پینے کا معیار و مقدار اس قدر گر گیا ہے کہ معلوم نہیں ہوتا یہ انٹرنیشنل پرواز کے معیار کی تواضع ہے ‘جبکہ کرائے دن بدن آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ جہاز میں نماز پڑھنے کے لیے ایئر ہوسٹس سے پوچھا تو اسے یوں اچنبھا لگا جیسے نماز کا نام پہلی بار سن رہی ہو۔ ایک دوسری ہوسٹس بہرحال متوجہ ہوئی اور اس نے کہا کہ معذرت‘ ہمارے پاس نہ ہی کوئی جائے نماز ہے اور نہ ہی اس وقت کوئی کمبل ہے اور ہمیں قبلے کا بھی کوئی پتا نہیں۔ میں نے کہا؛ قبلے کی آپ فکر نہ کریں‘ آپ کوئی صاف ستھرا پیش بند ‘یعنی ایپرن (Apron) ہے تو وہی دے دیں۔ اس نے کہا کہ ہاں جناب یہ تو ممکن ہے۔ میں نے اندازے سے قبلے کا تعین کیا اور نماز ظہر کے دو رکعت فرض ادا کرلیے۔
ذہن نشین رہے کہ عرب ممالک کی ائیرلائنز میں نماز ادا کرنے کے لیے تمام ممکنہ سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ ہوائی سفر کے دوران ہم دو تین مسافر باجماعت نماز بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ جہازوں میں سفر کے دوران کئی بار یورپین خواتین و حضرات نے نماز پڑھتے دیکھا تو بڑی دلچسپی سے سوالات کیے‘ نائن الیون کے بعد صورتِ حال مختلف ہے۔
جہاز نے اڑان لی اور فضا میں بلند ہوا تو آسمان کو بادلوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں جہاز ان بادلوں کا سینہ چیرتا ہوا ان سے اوپر اڑنے لگا۔ عملے کی طرف سے معمول کے اعلانات ہوتے رہے۔ موبائلز اور دیگر برقی آلات کے استعمال کو ایر پورٹ پر ہی اعلان کے ذریعے ممنوع قرار دے دیا گیا تھا۔ کافی دیر تک بادلوں کی وجہ سے زمین نظر نہ آ رہی تھی۔ کئی گھنٹوں کے بعد جہاز ایشیا سے نکل کر مشرقی یورپ میں داخل ہوا اور پھر منزلِ مقصود کے قریبی علاقے میں پہنچا تو نیچے خوب صورت جھیلیں‘ آبی گزرگاہیں‘ وسیع و عریض زرعی و حیوانی (لائیو سٹاک) فارمز اور موٹر ویز کا جال نظر آنے لگا۔ ٹھیک وقت پر جہاز مانچسٹر ایئرپورٹ پر آن اترا۔ کپتان نے آدھے گھنٹے کی تاخیر آٹھ گھنٹے کے اس سفر میں کور کرلی تھی۔ مانچسٹر ایئرپورٹ پر بے شمار ہوائی کمپنیوں کے جہاز رن وے پر مختلف اطراف میں چہل قدمی (Taxying) کر رہے تھے۔ ہر چند لمحوں کے بعد کوئی جہاز فضا میں بلند ہوتا اور فراٹے بھرتا ہوا نظروں سے غائب ہو جاتا۔
معلوم نہیں عالمی سطح پر ائیرلائنز کی کوئی تقسیم بندی ہوتی ہوگی کہ کس کو ترجیح حاصل ہے۔ ہمارا جہاز دیگر اترتے ہوئے اور چڑھتے ہوئے جہازوں کی نسبت زیادہ ہی دیر انتظار میں رکھا گیا۔ ہمارے جہاز کو اپنے کائونٹر‘ یعنی ٹیوب (Tube)تک پہنچنے میں کافی وقت لگا ‘جس کی وجہ فاصلہ بھی تھا ‘مگر جہازوں کی نقل و حرکت بھی ایک سبب تھا۔
قومی ائیر لائن کے عملے نے جہاز کے اترنے سے قبل مسافروں کے درمیان برطانیہ کے امیگریشن فارم تقسیم کیے ‘جو بمشکل آدھے لوگوں کو مل سکے۔ باقی لوگوں نے خود کائونٹر پر جاکر فارم حاصل کیے۔ معلوم ہوا کہ کئی مسافر فارم پر کرنا نہیں جانتے۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے رشتہ دار جو ان کے مہمان کی حیثیت سے وہاں جاتے رہتے ہیں‘ زیادہ تر بڑی عمر کے لوگ اور اَن پڑھ ہوتے ہیں۔
مسافروں کی ایک بڑی تعداد برٹش شہری تھے۔ انہیں فارم پرُ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میری باری پر امیگریشن افسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا تو بڑے ادب و احترام سے مہر لگا دی اور خیرسگالی کے الفاظ کے ساتھ میرا پاسپورٹ میرے سپرد کر دیا۔ میرے عزیز میاں غلام سرور ائیر پورٹ کے باہر اپنے بچوں سمیت میرا انتظار کر رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھے اور خیریت سے گھر پہنچے۔ اس ائیر پورٹ پر ایک سابقہ سفر میں تلخ تجربہ پیش آیا‘ جو دلچسپ بھی تھا اور پریشان کن بھی۔ اس کا حال کسی اگلی ملاقات میں!