سیاسی بساط پر بہت سے مہرے تیزی سے الٹ‘ پلٹ رہے ہیں۔ بازی کل تک کسی کی تھی‘ اب کسی اور کی ہوتی جارہی ہے۔ جو کچھ کل تک خواب و خیال تھا وہ اب بالکل سامنے کی بات ہوگیا ہے۔ سیاسی بُت کدے میں کچھ بُت اُلٹ گئے ہیں اور کچھ اُلٹے جانے کی منزل میں آگئے ہیں۔ پہلے یورپ نے اور پھر امریکا نے دنیا کی حکمرانی سنبھالی۔ یورپ سے پہلے بھی کئی سپر پاورز گزریں۔ کسی زمانے میں موجودہ ایران پر مشتمل علاقہ بھی سپر پاور کہلاتا تھا۔ یہ نبیٔ اکرمؐ کی بعثت کے وقت کی بات ہے‘ اسی دور میں سلطنتِ روم بھی اپنے زوال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی سپاہ نے ان دونوں سپر پاورز کے تابوتوں میں آخری کیل ٹھونکی۔ ایک دور تھا کہ چین بھی بہت حد تک سپر پاور تھا اور اس نے کئی خطوں پر اپنے اثرات مرتب کیے تھے۔
عالمگیر حکمرانی کے حوالے سے یورپ اور امریکا کا معاملہ بہت مختلف رہا ہے۔ کم و بیش ساڑھے تین ہزار سال میں فطری علوم و فنون کے حوالے سے جو پیش رفت ممکن بنائی جاسکی تھی‘ اُسے بروئے کار لاتے ہوئے پہلے یورپ اور پھر امریکا نے جدید دور کو حقیقی معنوں میں انقلاب انگیز رنگ دیا۔ یورپی قوتوں (بالخصوص برطانیہ) نے اپنے عہدِ جہالت و ظلمت کو کسی نہ کسی طور پچھاڑنے کے بعد فطری علوم و فنون کے حوالے سے پیش رفت کا ایسا دور شروع کیا‘ جس نے اُسے دنیا کا امام بنادیا۔ یورپی طاقتوں نے کئی خطوں کو مادّی ترقی ہی کی بنیاد پر اپنا فرماں بردار بنایا۔ ان خطوں کو حقیقی معنوں میں ترقی سے ہم کنار کرنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا گیا۔ ہاں‘ قدرتی وسائل بٹورنے کا سلسلہ پوری قوت کے ساتھ جاری رہا۔ یورپی طاقتوں نے ایشیا اور افریقا کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لاکر غیر معمولی ترقی یقینی بنائی ‘مگر جواب میں اِن خطوں کو کچھ بھی نہ دیا۔ کچھ دیا بھی تو محض بہ قدرِ اشک ِ بلبل اور کچھ بنایا بھی تو محض اپنی سہولت کی خاطر۔
یورپ کے تین سو سالہ اور امریکا کے سات عشروں پر محیط دور کے بعد اب تھوڑی بہت تبدیلی کی گنجائش پیدا ہو رہی ہے۔ جب یورپ کئی خطوں پر حاوی و متصرّف تھا ‘تب یہ خیال کم ہی لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتا تھا کہ یورپی طاقتوں کو کبھی زوال کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ہر دور کا مخمصہ رہا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کی امامت مختلف ریاستوں اور خطوں کو سونپی جاتی رہی ہے۔ جب بھی کوئی طاقت ابھرتی تھی تب ایسا لگتا تھا کہ اُس کا اقتدار حتمی اور دائمی نوعیت کا ہے‘ یعنی مزید کسی تبدیلی کی گنجائش ہے‘ نہ ضرورت۔ رومن سلطنت کے بارے میں بھی یہی تاثر اور تصور عام تھا اور فارس (ایران) کی سلطنت سے متعلق بھی کچھ ایسے ہی خیالات عام ہوچکے تھے۔ پھر یہ ہوا کہ دونوں طاقتیں اپنے بوجھ تلے دب کر رہ گئیں۔ غیر معمولی طاقت غیر معمولی خرابیوں کو بھی جن دیتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑی سلطنتیں ہمیشہ اپنے بوجھ سے گرتی ہیں‘ یعنی خود کو سنبھال نہیں پاتیں‘ اصلاح نہیں کر پاتیں۔
مادّی ترقی کے حوالے سے یورپ باقی دنیا سے اتنا آگے نکل گیا تھا کہ بیشتر خطوں کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ اب ‘ان کا مقدر کبھی نہیں بدلے گا۔ کم و بیش تین صدیوں تک یورپ نے ہر معاملے میں پیش رفت یقینی بناکر دنیا کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کیا‘ پھر امریکا آیا اور اُس نے بھی حیرت انگیز سرعت کے ساتھ دنیا کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کا عمل شروع کیا۔ یورپ سے اشتراکِ عمل کے نتیجے میں امریکا نے عالمی اداروں کا جال بچھاکر اپنی پوزیشن اِتنی مضبوط کرلی کہ اب بہت سے معاملات میں خرابی سہنے اور کمزور پڑ جانے پر بھی وہ عالمگیر سطح کے قائد کی حیثیت کا حامل ہے۔ عالمی مالیاتی نظام کو امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر اپنے حق میں کرلیا ہے۔ کساد بازاری کے کئی ادوار سے گزرنے پر بھی امریکا اب تک غیر معمولی حد تک موافق پوزیشن میں ہے۔
کل تک جو کچھ امریکا کے لیے مستقل نوعیت کا معاملہ تھا ‘وہ اب بہت حد تک وقتی سی کیفیت میں تبدیل ہوچکا۔ عالمی سیاسی و مالیاتی نظام پر امریکا اور اُس کے ہم نواؤں کا تصرّف اس قدر مستحکم نوعیت کا رہا ہے کہ بہت سوں کے ذہنوں میں یہ بات پیدا ہی نہیں ہوتی تھی کہ اب کوئی جوہری یا بنیادی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ کم و بیش ایک صدی کے دوران عالمی سیاست و معیشت پر امریکا اور یورپ کا غیر معمولی تصرّف دنیا بھر میں اس تصور کو فروغ دینے کا باعث رہا ہے کہ اب کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہوگی‘ یعنی دنیا بے فکری کی چادر اوڑھ کر سو جائے ‘کیونکہ اب چار پانچ صدیوں تک کوئی بھی بڑی طاقت نہیں ابھرے گی۔ فرانسس فوکویاما نے (ایجنڈے کے تحت) ہی ''دی اینڈ آف ہسٹری‘‘ جیسی کتاب لکھی‘ جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ سیاسی و معاشرتی نظریات سمیت تمام معاملات میں تاریخ کا خاتمہ ہوچکا اور اب دنیا میں کوئی بڑی معاشرتی تبدیلی رونما نہیں ہوگی‘ کوئی حقیقی نیا سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی نظریہ نہیں ابھرے گا۔ گویا مغرب کو حتمی سمجھ لیا جائے۔ کم و بیش اسی ایجنڈے کے تحت سیموئل ہنٹن گنٹن نے ''دی کلیش آف سویلائزیشن‘‘ لکھی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے اسلام کو مغربی تہذیب کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے اور ایک بڑی جنگ کا ماحول تیار کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔
تاریخ کے تسلسل کو ذہن نشین رکھیے تو دنیا ایسے موڑ پر آچکی ہے‘ جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس موڑ سے دنیا کسی بھی طرف نکل سکتی ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوا ہے کہ کسی نے غیر معمولی طاقت سے ہم کنار ہونے کے بعد بدمست ہوکر ایسا بہت کچھ کیا جو دنیا کو شدید نوعیت کی خرابیوں سے دوچار کرنے کا باعث بنا۔ چار تا پانچ ہزار سال کے عمل میں کئی سپر پاورز ابھریں‘ پنپنے کے عمل سے گزریں اور پھر زوال سے دوچار ہوئیں۔ ہر سپر پاور نے دنیا سے بہت کچھ لیا اور بہت کم دیا۔ دعوے تو ہر دور کی سپر پاور نے یہی کیے کہ وہ دنیا کا بھلا چاہتی ہے اور اُسے کچھ دینا چاہتی ہے۔ جب کوئی ریاست بڑی طاقت میں تبدیل ہوتی ہے تب مختلف شعبوں میں غیر معمولی پیش رفت بھی یقینی بناتی ہے۔ دعوے تو اصلاحِ عالم کے کیے جاتے ہیں‘ مگر سب کچھ اپنے مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت اور سماجی علوم کے شعبے میں اس کا آگے بڑھنا عالمی فلاح و بہبود کا معاملہ نہیں ہوتا‘ بلکہ سب کچھ اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ہوتا ہے۔
آج بھی یہی کچھ تو ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپ نے دنیا پر حکمرانی کے مزے لُوٹے ہیں۔ اب‘ چین اور اُس کے چند ہم خیال ممالک ابھر رہے ہیں تو امریکا و یورپ کو اپنا سنگھاسن ڈولتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ حکمراں اور قائدانہ حیثیت کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے دونوں خطے کسی بھی حد سے گزرنے کو بے تاب دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ اپنا اقتدار بچانے کے لیے ہر سپر پاور زیادہ سے زیادہ خرابی پیدا کرنے پر متوجہ رہتی ہے۔ مقصود یہ ہوتا ہے کہ اپنا بھلا ہو جائے‘ اگر غیر معمولی خرابی سے اپنا بھلا نہ ہو تو یہ خیال دلوں کو سکون فراہم کرتا ہے کہ دوسروں کا بھی تو بھلا نہ ہوسکے گا۔
ہم ایک عجیب دو راہے پر کھڑے ہیں۔ ایک سپر پاور کمزور پڑتی جارہی ہے اور دوسری ابھر رہی ہے۔ ابھی اُس کا عنفوانِ شباب ہے۔ چین نے امریکا اور یورپ ‘(یعنی مغرب) کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ امریکا کسی نہ کسی طور اپنی قائدانہ حیثیت بچانا چاہتا ہے ‘مگر معاملات کچھ زیادہ امید افزاء معلوم نہیں ہوتے۔ لڑائی بڑوں کی ہے ‘مگر دل ہمارے دَہل رہے ہیں۔ سات عشروں سے راج کرنے والی سپر پاور کمزور پڑ رہی ہے اور ابھرتی ہوئی سپر پاور حاوی و متصرّف ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ ہم ٹھہرے صرف تماشائی‘ مگر خیر‘ بہت کچھ جھیلنا بھی پڑے گا۔ ؎
اب دیکھیے کیا حال ہمارا ہو سَحر تک
بھڑکی ہوئی اِک آگ سی دل سے جگر تک