سیاسی نظام کے بارے میں گفتگو سیاسی اور دانش ور حلقوں میں تواتر سے ہوتی رہتی ہے۔ اس کے ناقدین کا خیال ہے کہ پارلیمانی نظام ہمارے ملک کے سماجی رویوں کے اعتبار سے موزوں نہیں ہے۔ کچھ مبصرین برملا اس بات کا اظہار کرتے چلے آئے ہیں کہ اس کو صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا جانا چاہئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں کوئی قابلِ عمل تجویز میں نے نہیں سنی‘ پڑھی یا دیکھی۔ صرف موجودہ آئین میں ترامیم کی جا سکتی ہیں‘ مگر اس کا بنیادی ڈھانچہ‘ جس کے بارے میں عدالت عالیہ فیصلہ دے چکی ہے‘ تبدیل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ آئینی اور قانونی موشگافیوں کے لئے کافی گنجائش موجود ہے کہ آخر بنیادی ڈھانچے کا تعین کیسے ہو سکتا ہے اور کون کر سکتا ہے؟ اراکین پارلیمان اور تمام سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام پر متفق نظر آتی ہیں۔ ایسے میں وہ کیونکر ایسے نظام کو تبدیل کریں گی‘ جس میں ان کے لئے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اراکین پارلیمان اور تمام سیاسی جماعتیں‘ دونوں اس نظام سے کیسے فیض یاب ہو رہے ہیں اور ان کے اس نظام کے ساتھ کیا سیاسی مفادات وابستہ ہیں‘ اس کے بارے میں آگے چل کر بات کروں گا۔
جنرل محمد ایوب خان نے جب اقتدار پر قبضہ کیا اور پارلیمانی آئین کو‘ جو دستور ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر بنایا تھا‘ ردی کی ٹوکری میں ڈالا‘ تو انہوں نے بھی وہی دلیل دی‘ جو آج صدارتی نظام کے حق میں مختلف حلقوں اور افراد کی جانب سے دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے سماجی حالات پارلیمانی نظام کے لئے سازگار نہیں‘ اور یہ کہ ہمیں صرف صدارتی نظام ہی سیاسی استحکام‘ ترقی اور خوشحالی بخش سکتا ہے۔ یہ بات تو خاصی حد تک درست نکلی اور کوئی مورخ اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ صدر ایوب خان کے دور میں سیاسی استحکام بھی ملا‘ ترقی بھی ہوئی‘ صنعتیں بھی لگیں اور ملک خوشحال بھی ہوا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو آئے۔ شواہد موجود ہیں کہ وہ صدارتی نظام کے خواہاں تھے‘ مگر اتفاق رائے پیدا کرنے کی غرض سے حزبِ اختلاف کے سامنے نرم پڑ گئے۔ عملی طور پر انہوں نے اختیارات کا جائز اور نا جائز استعمال اس طرح کیا کہ شاید ہی کسی جمہوریت میں ممکن ہو۔ ہر دل عزیز‘ کرشماتی اور گفتار کے غازی تو تھے ہی ریاستی طاقت بھی ان کے ہاتھ میں مرکوز تھی؛ تاہم حالات و واقعات پر ان کی گرفت اس وقت ڈھیلی پڑی جب وہ ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے۔ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی ایسی کی کہ بعد میں اس کے قریب اگر کوئی ووٹ گزرا ہو تو وہ ضیا اور مشرف کے ریفرنڈم ہیں۔ دونوں آمروں نے بھی آئین کو صدارتی نظام کی شکل دی؛ اگرچہ دونوں کے زمانے میں وزیر اعظم کابینہ اور پارلیمان موجود رہے اور انتخابی عمل اور سیاسی جماعتیں بھی میدان میں تھیں۔ نظام صدارتی نہیں تو نیم صدارتی ضرور کر دیا گیا تھا۔ طاقت کا سر چشمہ عوام نہیں‘ جمہوریت بھی نہیں‘ کچھ اور ذرائع تھے۔
نظام کا تعین کون کون کرتا ہے اور کیوں دنیا میں نظام ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟ ہم اس حوالے سے بڑی بڑی بحثوں میں پڑے رہتے ہیں۔ تاریخی‘ سماجی اور سیاسی تحریکوں کے حوالے دیتے ہوئے تھکتے نہیں کہ ان عوامل کا تعلق نظام کی تشکیل سے ہوتا ہے۔ لیکن پوری سچائی تو دور کی بات‘ یہ آدھی سچائی سے بھی کم ہے۔ ادھوری بات ہے۔ ہمارے ہاں تو ابھی تحقیق کے دروازے کھلنے باقی ہیں‘ مگر امریکہ اور برطانیہ میں آئین کے تسلسل اور تاریخی ارتقا کو جامعات میں تفصیل سے پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے۔ چارلس بیئرڈ امریکہ میں معیشت کے مؤرخ تھے۔ امریکی آئین کے بارے میں ان کا مؤقف میرے دل کو بھاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ ہمارے موجودہ نظام کی تشکیل اور اس کی بقا کیلئے پُر جوش اراکینِ اسمبلی اور سیاسی جماعتوں کے مفادات کی تشریح کرنے میں حقیقت پسندانہ معلوم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی اعلیٰ طبقات کا مفاد معاشی تھا اور تیرہ ریاستیں اگر مقتدر اور آزاد رہتیں تومفادات خطرے میں تھے۔ کچھ ریاستوں میں لوگ سود خوروں اور تاجروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے‘ ایک بڑی ریاست کا قیام‘ فوج‘ مقننہ اور صدارتی ادارہ مرکزی طاقت فراہم کر سکتے تھے۔
یہ بات درست ہے کہ انگریزوں نے ہمیں پارلیمانی نظام سے متعارف کرایا۔ انہوں نے1935 میں آئین بنایا اور وہی آئین آج بھی بھارتی اور ہمارے آئین کو بنیادی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ اس نظام میں اکثریت رکھنے والی جماعت یا فرد وزیر اعظم اور صوبوں میں وزیر اعلیٰ بنتا ہے‘ لیکن عملی سیاست نظری حوالوں سے ہمیشہ مختلف ہوتی ہے۔ حالات اور واقعات کے تابع عوامی روح بدلنے میں بھی کبھی سیاسی جماعت اور زیادہ تر اپنے اپنے حلقوں میں سیاسی گھرانوں کے حق میں ووٹ دینے کی روایت غیر شہری حلقوں میں بدستور مضبوط ہے۔ اراکینِ اسمبلی کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ کس کو وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ منتخب کرتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان موجودہ بھائی چارہ نہیں تھا تو دو دہائیوں تک وہ ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے کے لئے‘ ان اراکینِ اسمبلی کا تعاون حاصل کرنے کیلئے ریاستی وسائل پانی کی طرح بہاتے رہے۔ ان میں سے کسی کے گھر سے نہ کچھ گیا‘ نہ کہیں لگا‘ سب ریاست اور عوام کا خرچ ہوا۔ آپ کا اور ہمارا پیسہ سیاسی گھوڑوں کی منڈی میں لگا ‘ پھر سب نے دیکھا‘کیسے تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں۔
اب بھی وہی کھیل ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں اراکین کی خواہش یہ تھی کہ ضلعی انتظامیہ ان کی منشا کے مطابق چلے۔ اب بھی وہ نوکر شاہی اپنے تابع رکھنا چاہتے ہیں۔ دیہی سیاست میں تھانہ کچہری کے معاملات اور کس کا اثر زیادہ ہے‘ یہ عوامل ووٹ بینک قائم کرنے میں بنیادی کردار کے حامل ہیں۔ بھٹو صاحب نے بھی اراکینِ کو خوش رکھنے اور حزبِ اختلاف سے اپنی طرف مائل کرنے کے لئے کئی حربے استعمال کئے تھے۔ ان حربوں میں سیاسی رشوت بھی شامل تھی۔ لیکن میں شواہد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کے زمانے میں پاکستان ایئر لائن میں سیاسی بھرتیاں بڑی تعداد میں کی گئیں‘ پولیس اور ریونیو کے شعبوں میں بھی اور نوکر شاہی میں تو تھوک کے حساب سے۔ مقابلے کے امتحان ثانوی حیثیت اختیار کر گئے۔ براہ راست بھرتیوں کے دروازے کھول دئیے‘ لیکن صرف اپنی سیاسی جماعت اور طاقت ور گھرانوں کو نمائندگی دی گئی۔ قومیائے گئے کارخانوں کی تباہی ایسے ہی تو نہیں ہو گئی۔ جیالے ہزاروں کی تعداد میں بھرتی ہوئے۔ بعد کی حکومتوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔ محمد خان جونیجو بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ انہوں نے بھی اس روایت میں کچھ اضافہ ہی کیا‘ اراکین کو ترقیاتی فنڈز مہیا کئے۔ اور اب یہ مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔ کپتان اس وقت اپنی سیاسی جماعت اور اتحادی جماعتوں کے نرغے میں ہے۔ پاکستان میں گزشتہ پینتیس برسوں میں جو بھی حکومت بنی‘ اراکین کے تین مطالبات قائم رہے‘ ضلعی نوکر شاہی ان کی تابع دار ہو‘ نوکریاں اور تبادلے ان کے اشاروں پر ہوں اور ترقیاتی فنڈز ان کے حوالے کئے جائیں۔ پرویز مشرف تو بہت طاقت ور تھے‘ وہ بھی اس نظام کے سامنے ڈھیر ہو گئے‘ اور آخر میں تو گھٹنے ایسے ٹیکے جیسے جادوگر کی بکری اس کے اشارے پر زمین پر ٹکاتی ہے۔ مقامی حکومتیں بھی وہ نہیں بننے دیتے کیونکہ انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ ترقیاتی فنڈز نوکریاں اور نوکر شاہی ہی ہاتھ سے نکل گئی‘ تو پھر انتخاب کیسے جیتیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی پختہ پارلیمانی نظام میں یہ اختیارات اراکین کو نہیں دئیے گئے۔ اراکینِ پارلیمنٹ کا کام صرف اور صرف قانون بنانا ہے‘ ترقیاتی کام کرنا اور تقرریاں و تبادلے کرانا نہیں۔ عوام انہیں محض اسی کام کیلئے منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں۔ سوچیں ہم کہاں کھڑے ہیں‘ یہ نظام ہمیں کیا دے گا؟