تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     06-06-2013

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا

خیال و فکر کی وادیوں میں ہزار نشیب و فراز ہیں ۔ کب کوئی کہاں بھٹک جاتاہے ۔ کب کوئی کہاں کھیت رہتاہے ، کون جانے ، کون جانے؟ وصل و ہجراں سی جو دو منزل ہیں راہِ عشق کی دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا محترمہ فوزیہ قصوری نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سر پہ رکھا اور یہ کہا: اپنی بہن کے لیے آپ دعا نہیں کرتے ۔ یہ قصہ میں ابھی آپ کو سناتا ہوں لیکن فکر کا رہوار ایک اور دنیا میں مسافر کو لے گیا۔ اوّل اوّل آدمی جب اس کرّہ خاک پہ اترا ہوگا تو اس کے محسوسات کی دنیا کیسی تھی ؟ علم الانسان (Anthropology)کے ماہرین میں اس پر اتفاق نہیں پایا جاتا کہ انسان اور زمین کی رفاقت کتنی صدیوں پر محیط ہے۔ بیس سے چالیس ہزار برس کا عرصہ ہے ۔ مٹی کی تہوں پر برف کی بلندی بہت تھی ۔ ول ڈیوراں کہتے ہیں کہ نومیل۔ پھر وہ گھلتی گئی اور سبزہ و گل نمودار ہوئے۔ جانوروں سے بھرے جنگل، آبشاریں اور ندیاں، جن کے ساتھ آدمی کو حیات کرنی تھی ۔ حدِّ نگاہ تک پھیلے ہوئے ویرانے اور کالی راتیں ، جن میں پراسرار آوازیں سنائی دیتیں ۔ افریقہ کے ان جنگلوں میں ، جہاں آدم زاد کے قدموں کی چاپ خال ہی سنائی دیتی ہے ، اب کیمرے نصب ہیں کہ حیوانی تیوروں اور زبانوں کا ابتدائی خاکہ مرتب کرکے انہیں سمجھا جائے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: قیامت قائم نہ ہو گی ، جب تک درندوں سے تم بات نہ کر لو گے ۔ خیر یہ تو بعد کی بات ہے ۔ اوّل اوّل آدمی جانوروں سے بہت ڈرا۔ پھر انہیں سدھانے میں جالگا اور اپنے اندر کے حیوان کو بھول ہی گیا۔ آدم کی اولاد خود اپنے آپ کو کب سمجھ پائے گی ؟ کبھی نہیں، پوری طرح شاید کبھی نہیں ۔ انسانی دماغ کے دو ارب خلیات ہیں ، مصروفِ عمل مگر چند ہزار ہی ہوتے ہیں ۔ ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا آدمی اکیلا ہے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو میں نے دیکھا تو شدّت سے احساس ہوا کہ آدمی کس قدر اکیلا ہے ۔ اسی تجسّس نے مجھے ان سے بات کرنے پر آمادہ کیا تھااور سچ تو یہ ہے کہ اکثر سے اسی نے ۔ آدمی کا خیال یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے خود صادر کرتا ہے اور گمان یہ بھی ہے کہ وہ خو دسے سوچتا ہے ۔ آزادی درکار ہے ۔ فکر کی اس رفعت کے لیے کہ اپنے آپ سے اوپر اٹھ کر ، اس خاک داں سے نجات پا کر بلندیوں سے خود کو اور زندگی کو وہ دیکھ سکے۔ آدمی اپنا اسیر ہے اور شب و روز وہ اپنے لیے زنجیریں ڈھالتا ہے ۔ انسانوں کی پہلی خوف زدہ نسل جو 3500سی سی دماغ کے ساتھ بروئے کار آئی‘ اتنی سی بات ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں رفاقت کی آرزو تڑپ کر جاگی اور مستقل ہو گئی ۔جنیدؒ و بایزیدؒ الگ، خوف بنیادی انسانی جبلت ہے اور مکمل طور پر تحلیل نہیں ہو سکتی۔ اپنے وجود اور اثبات کی گواہی کے لیے ، آدمی کو دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہیں سے الجھنوں کا آغاز ہوتاہے ۔ ہر رفاقت میں آدمی تمنا پالتا ہے اور ہر رشتے کا ایک مطالبہ ہوا کرتا ہے۔ اب ہم بیسویں صدی کے فلسفی لارڈ برٹرینڈرسل کی خدمت میں حاضر ہوتے اور ان سے پوچھتے ہیں کہ اس باب میں وہ کیا سوچتے ہیں۔ بوڑھے آدمی نے ، جس کی جوانی لرزا دینے والے ہیجان سے دوچار رہی اور جس نے بالآخر فلسفے میں پناہ پائی ، یہ کہا: بوریت گناہ کی طرف لے جاتی ہے ؛لہٰذا آدمی کو تنہائی سے گریز کرنا چاہیے۔ تنہائی سے گریز؟ بارہ سو برس ہوتے ہیں ، بغداد کے صوفی نے تو برعکس کہا تھا ۔ پوچھا گیا کہ عافیت کس چیز میں ہوتی ہے ، فرمایا: عافیت گمنامی میں ہوتی ہے ‘ گمنامی نہ ہو تو تنہائی میں ‘ تنہائی نہ ہو تو خاموشی میں‘ اور خاموشی نہ ہو تو صحبتِ سعید میں۔ مشکل یہ ہے کہ آدمی اکیلا رہ نہیں سکتا او رشناسائی کے اپنے عذاب ہیں ۔ دیارِ شب کی مسافت نے کیا دیا ہم کو ہوائے شام ہمیں اب گھروں میں رہنے دے کوئی حل نہیں ، قطعاً کوئی نہیں ۔ اس کے سوا کہ آدمی خود سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرے ۔ اپنے آپ سے بات کرے ۔ خود سے ملاقات کرے ۔ عمریں گزر جاتی ہیں اور اپنے آپ سے آدمی ہم کلام نہیں ہوتا۔ اپنا حال نہیں پوچھتا۔ اب جو خود اپنا وفادار نہ ہو ، وہ دوسروں کا کیسے ہو اور جو اپنے آپ سے حسنِ سلوک نہ کر سکا، کسی اور کے لیے وہ کیا کرے گا؟ فرار، سب راہِ فرار۔ اپنے آپ سے بھاگا ہوا آدمی: سب کا تو مداوا کر ڈالا، اپناہی مداوا کر نہ سکے سب کے تو گریباں سی ڈالے، اپنا ہی گریباں بھول گئے نہیں ، خود سے رعایت نہیں کی جا تی ، اپنی ادنیٰ آرزوئوں کی پرورش نہیں بلکہ خود احتسابی۔ فرمایا: نفس کو ہم نے پیدا کیا تو اپنا سب سے بڑا حریف پید اکیا۔ خود کو سدھانا ہوتا ہے ، جنگلی جانور کی طرح ۔ کیوں کر اسے ہموار کیا جاتاہے؟ کیسی کھری پنجابی زبان وہ بولتے تھے ۔ممتاز مفتی کبھی خودکلامی سی کیا کرتے ۔ کہا: میں بیل کا بیل تھااور عمر بھر ایسا ہی رہا۔ بچپن میں ایک درویش نے میری ماں سے کہا تھا : آخر عمر میں ایک فقیر کو یہ پائے گا ۔پھر تاسف سے بولے: بات اب میری سمجھ میں آسکی ، خود تراشی! ان عشروں میں قدرت اللہ شہاب کو وہ تصوف کا مہتاب بنا چکے تھے ۔ زمین پر تو قرار تھا نہیں ، جناب شہاب نے بھی عافیت اسی میں پائی کہ آسمان پر آسودہ رہیں ۔ خیالات کی ایک دنیا آبادکی اور اس میں بس گئے ۔ آخرِ عمر کبھی یہ خیال انہیں پریشان کرتا کہ انہوںنے کیا کیا؟ کرّہ ارض پر واپس آنے کے بار ے میں کبھی وہ سوچتے بھی لیکن پھر حل انہوںنے ڈھونڈ نکالا۔ ایسا حل کہ ان ایسا ایک عظیم ادیب ہی تلاش کر سکتا۔ ’’شہاب نامہ‘‘ انہوںنے لکھنا شروع کیا۔ افسانوی ادب کا ایک خیرہ کن نمونہ ! زندگی آدمی سے نباہ نہیں کرتی ، آدمی کو زندگی سے نباہ کرنا ہوتاہے ۔ وہ سوا ل کرتی ہے اور جواب چاہتی ہے ۔ اگر آمادہ نہ پائے تو آدم زاد کو اس کی خیالی جنّت کے سپرد کر کے ،خود اپنی راہ لیتی ہے ۔ موسیقی ، کتاب ، ٹیلی ویژن یا مجلس آرائی، افسانہ نگاری ، شاعری اور خود فریبی کی سیاست ’’ہم تمہاری تقدیر بدل ڈالیں گے‘‘ ارے کینچوے ، خود تو دلدل سے باہر نکل! بے شمار دوسروں کی طرح ،سادہ دل اور نیک خو فوزیہ قصوری پر ہمیشہ جذبات کا غلبہ ہی رہا ۔ پھر ایک سیاسی جماعت اور لیڈر سے اپنی تمام امیدیں انہوںنے وابستہ کر لیں ، المیہ یہ کہ تمام امیدیں ! اوّلین ملاقات میں پرس سے کاغذ نکا ل کر انہوںنے مجھ سے کہا: اپنی بہن کے لیے اس پر دعا لکھو او ردستخط کر و۔ کہنایہ چا ہیے تھا کہ کامل وابستگی اور مکمل وفاداری صرف اس ذاتِ بے ہمتاکے لیے ہوتی ہے ، جو آسمان پر کہکشائیں اور زمین پر آلوچے کے شگوفے کھلاتا ہے ۔ ا س وقت تو مگر میں بھی اپنی دھن میں تھا۔ پوری طرح مجھے بھی یاد نہ تھا کہ ابدیت سفر کو ہوتی ہے ، مسافر کو نہیں ۔ مکمل محبت صرف ایک اعلیٰ مقصد سے کی جاتی ہے ، کسی پیکرِ خاکی سے نہیں ۔ تین برس ہوتے ہیں ان کے اصرار پہ ’’آٹو گراف‘‘ دینے کی جو جسارت میں نے کی تھی ، آج میں اس پر شرمندہ ہوں ۔ ایک غلطی انہوںنے کر ڈالی ، نہیں ، تحریکِ انصاف سے وابستگی نہیں بلکہ تمام تر توقعات اس میں سر سبز و سیراب کرنے کی۔ اب وہ ایسی ہی دوسری غلطی کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ شریف خاندان ؟ ارے شریف خاندان؟ کس سے پیمانِ وفا باندھ رہی ہے بلبل کل نہ پہچان سکے گی گلِ تر کی صورت بندے سے جو کام پروردگار لینا چاہے ، اس کے لیے وہ سہل کر دیتاہے ۔ کارِ سیاست اس سادہ اطوار کو سازگار ہی نہیں ۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ میدانِ عمل کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرتے نہیں ۔ پھر مقدرات حکومت کرتے ہیں ، مقدرات!خیال و فکر کی وادیوں میں ہزار نشیب و فراز ہیں ۔ کب کوئی کہاں بھٹک جاتاہے ۔ کب کوئی کہاں کھیت رہتاہے ، کون جانے ، کون جانے؟ وصل و ہجراںسی جو دو منزل ہیں راہِ عشق کی دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved