تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-07-2020

فکرِ معاش ‘یعنی غم ِ زیست …!

زندگی کے تماشے بھی عجیب ہیں یا پھر یوں کہیے کہ ہم نے ہر معاملے کو تماشے میں تبدیل کرلیا ہے۔ جب انسان ہر معاملے سے محظوظ ہونے کی عادت کو پروان چڑھا چکا ہو تو معاملات ایسی ہی منازل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ اب ‘یہی دیکھیے کہ بالکل سامنے کے اور سادہ معاملات کو بھی ہم نے خاصی محنت سے یوں الجھادیا ہے کہ ع 
ڈور کو سلجھا رہا ہوں اور سِرا ملتا نہیں 
والی کیفیت دامن گیر ہوچکی ہے۔ ہمیں بخشی جانے والی زندگی کورے کاغذ کی طرح ہوتی ہے۔ اس پر وہی کچھ پڑھا جاسکتا ہے‘ جو ہم نے لکھا ہو اور وہی نقش دیکھا جاسکتا ہے ‘جو ہم نے بنایا ہو۔ آسانی یہ ہے کہ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ہم عمومی سطح پر‘ اپنے اختیار کے تحت‘ ایسا بہت کچھ کر گزرتے ہیں‘ جو ہمارے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتا ہے۔ زندگی بسر کرنے کے نام پر جو کچھ ہم کرتے ہیں ‘اُس کے بڑے حصے کا ہماری زندگی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ اور بعض معاملات میں تو سِرے سے کوئی تعلق ہوتا ہی نہیں۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ ہم اپنے مفادات کو شناخت کرنے کے معاملے میں دھوکا کیوں کھا جاتے ہیں‘ لاپروائی کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ جذباتیت کی سطح پر ہوتا ہے‘ اگر ذہن کی تربیت ڈھنگ سے نہ کی گئی ہو تو ہم بہت سے معاملات میں خالص جذباتیت کی نذر ہوکر اپنا ہی نقصان کر بیٹھتے ہیں۔ 
عمومی سطح پر زندگی ایسا پیچیدہ معاملہ نہیں کہ ہم اُس کے لیے صرف ہوکر رہ جائیں۔ جو سانسیں بخشی گئی ہیں اُن کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ ہر مخلوق اپنے لیے اتارے گئے رزق تک رسائی کے لیے محنت کے مرحلے سے گزرتی ہے۔ انسان کو محنت سے پہلے ذہانت کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف اس لیے خلق کیے گئے ہیں کہ گزارے کی سطح پر زندہ رہیں‘ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی تگ و دَو ہی میں صرف ہوکر رہ جائیں؟ کیا ہمارے خالق کی یہی مرضی ہے کہ ہم صبح کو شام کریں اور شام کو صبح؟ غالبؔ نے کہا تھا :ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جُوئے شیر کا 
مرزاغالبؔ کا یہ مصرع آج کے انسان پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ کہانی سادہ سی ہے‘ یہ کہ انسان دن کو رات اور رات کو دن کرنے ہی میں کھپ رہا ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہمیں جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ہم اُن کے اہتمام کی چوکھٹ پر قربان ہوچکے ہیں۔ ایک تو ہوتی ہے گزارے کی سطح اور دوسری ہوتی ہے مجموعی زندگی۔ ہمیں زندہ رہنے کے لیے پانی اور خوراک کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ اہتمام لازم ہے۔ درست‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے دو وقت کی روٹی کے اہتمام ہی کو زندگی کا درجہ دے دیا ہے۔ زندگی بہت آگے کا معاملہ ہے‘ مگر ہم اِسی منزل میں اٹک کر زندگی کو محدود رکھنے پر تُل گئے ہیں۔ گزارے کی سطح سے بلند ہوکر ہمیں بہت کچھ سوچنا اور کرنا ہے۔ ہر دور اور ہر معاشرے کا ایک بنیادی مسئلہ یہی رہا ہے کہ گزارے کی سطح سے کیونکر بلند ہوا جائے اور ایسا کیا کِیا جائے ‘جس سے زندگی کا حق ادا ہو‘ روئے ارض پر گزارے جانے والے دن یادگار بھی ہوں اور آخرت میں کارآمد بھی۔ 
آج ایسا بہت کچھ ہے ‘جو معیاری زندگی یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔ اور حق تو یہ ہے کہ اب ہر چیز ہی ناگزیر دکھائی دینے لگی ہے۔ ہمارے یومیہ معمولات میں ایسا بہت کچھ ہے ‘جو ہمیں کھارہا ہے۔ ہم ایسی بہت سی چیزوں کے عادی ہوکر رہ گئے ہیں ‘جو ہمارے وجود کی معنویت کو بڑھانے کی بجائے گھٹارہی ہیں۔ 
ایسا بہت کچھ ہے‘ جو ہمیں زندگی کے نام پر سوچنا اور کرنا ہے۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے سامان کا اہتمام کرنے کی منزل سے گزر کر ہی ہم اُس مقام تک پہنچتے ہیں جہاں سے زندگی حقیقی معنوں میں شروع ہوتی ہے۔ گزارے کی سطح پر جینا کوئی کمال نہیں‘ کیونکہ ہر جاندار اتنا تو کر ہی لیتا ہے۔ اپنے ماحول میں پائے جانے والے حیوانات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جس طور یہ حیوانات محض گزارے کی سطح پر جی رہے ہیں‘ بالکل اُسی طور بیشتر انسان بھی صرف گزارے کی سطح پر جینے ہی کو زندگی سمجھ بیٹھے ہیں‘ یعنی: ؎ 
صبح ہوتی ہے‘ شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے 
کیا یہ زندگی ہے؟ یقینا نہیں۔ حیوانی سطح پر جینے کو زندگی کہنا اس عظیم نعمت کا تمسخر اڑانا ہے۔ ہر انسان کے لیے فکرِ معاش لازم ہے۔ فکرِ معاش ‘یعنی جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی خاطر تگ و دَو کرنا۔ ہر انسان کو پیٹ بھر کھانا چاہیے اور تن ڈھانپنے کے لیے لباس کے ساتھ ساتھ سر پر چھت بھی چاہیے۔ ہم میں سے بہت سوں کی زندگی ان بنیادی اشیاء و خدمات کا حصول یقینی بنانے ہی میں کھپ جاتی ہے۔ زندگی کے سو تقاضے ہوتے ہیں ‘مگر ہم چند بنیادی تقاضوں کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہنے ہی کو زندگی سمجھ کر خوش ہو رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں گزاری جانے والی زندگی کو ننگِ زندگی کہیے تو بجا ہی ہو گا۔ 
ہر دور کے انسان کو فکرِ معاش نے ستایا ہے۔ یہ معاملہ المناک ہے ‘نہ حیرت انگیز۔ اور ہر دور کے انسان نے پیٹ بھرنے کے اہتمام کی سطح سے بلند ہوکر زندگی کے لیے وقت نکالا‘ کچھ کرنے کی ٹھانی اور جو ٹھانی اُس سے مطابقت رکھنے والا عمل بھی یقینی بنایا۔ ہر دور میں سوچنے والوں نے مسائل کی نوعیت اور شدت محسوس کرتے ہوئے اپنے خیالات کے ذریعے دوسروں کی راہ نمائی کی ہے‘ اُنہیں کچھ ایسا کرنے کی تحریک دی ہے‘ جس سے زندگی کی معنویت میں اضافہ ہو۔ کوئی ایک دور بھی ایسا نہیں گزرا جو آلام و مصائب سے مکمل طور پر مبرّا و محفوظ کہا جاسکے‘ پھر بھی ہر دور کے اہلِ فکر نے دو وقت کی روٹی کے اہتمام کی سطح سے بلند ہوکر کچھ کرنے‘ بلکہ کر گزرنے کی تحریک دی۔ میر تقی میرؔ نے کہا تھا ؎ 
فکرِ معاش یعنی غمِ زیست تا بہ کَے 
مر جائیے کہیں کہ ٹُک آرام پائیے 
میرؔ ایک ایسے دور کو نصیب ہوئے ‘جس میں فکرِ معاش نے زندگی کے حقیقی غم کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ جب انسان دن رات گزارے کی سطح برقرار رکھنے کے بارے میں سوچتا ہو تو زندگی کا حق ادا کرنے کی سوچ دم توڑنے لگتی ہے۔ ایسے میں قنوطیت کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ ایسے جینے سے تو مر جانا ہی اچھا۔ شاعر کا بنیادی کام زندگی کی مشکلات کا تجزیہ کرکے زندہ رہنے کی بھرپور لگن پیدا کرنے کی راہ ہموار کرنا ہے۔ میرؔ اس شعر میں مرنے کا مشورہ طنزاً دے رہے ہیں۔ حقیقی مشورہ یہ ہے کہ فکرِ معاش کو زندگی کے بنیادی غم کا درجہ نہ دیجیے‘ کچھ ایسا کیجیے کہ زندگی کا حق ادا ہو۔ 
گزرے ہوئے بہت سے ادوار کے انسانوں کی طرح ہم بھی گزارے کی منزل میں اٹک کر رہ گئے ہیں۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ کرنا لازم ہے وہ تو کرنا ہے‘ مگر اُس سے کہیں زیادہ ہمیں زندگی کے بارے میں سوچنا اور اپنے آپ کو برتر نوع کی زندگی کے قابل بنانا ہے۔ یہ چند سانسیں اس لیے نہیں دی گئیں کہ ہم حیوانی سطح پر جئیں اور سانسوں کی گنتی پوری ہونے پر ہاتھ جھاڑ کر چل دیں۔ انسان کو ملنے والی سانسیں غور و فکر کے لیے بھی ہیں اور افکار کو عملی روپ دینے کے لیے بھی۔ انسان کو اپنے اور کائنات کے ربط کے بارے میں بھی سوچنا ہے اور اپنے مقصدِ تخلیق کی تفہیم کے ساتھ اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کرتے رہنا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے‘ جب ہم گزارے کی سطح سے بلند ہوں۔ ہم نے فکرِ معاش کی بنیاد خطرناک حد تک وسیع کردی ہے۔ بہت سی آسائشوں کو بھی زندگی کی بنیادی ضرورتوں کا درجہ دے کر ہم اُن کے اہتمام میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ تگ و دَو ہمیں فکر و نظر کے مرحلے سے دور رکھتی ہے۔ دانش کہتی ہے کہ فکرِ معاش کو غم ِ زیست بنانے سے گریز کیا جائے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved