میں نے بہت پہلے لکھا تھا :''جنابِ سہیل وڑائچ منفرد طرز کی استعاراتی کالم نگاری کے مُوجِد ہیں‘‘۔ ایسے انداز اُن ادوار میں اختیار کیے جاتے ہیں جب مافی الضمیر کا صراحت کے ساتھ اظہار مشکل ہو‘ یہ ایسا ہی ہے کہ گویاواردات بھی کرو اور کھوجیوں کے لیے نشان بھی کوئی نہ چھوڑو ‘یعنی پکڑائی نہ دو۔ کھوجی کو انگریزی میں ''Investigator‘‘یا ''Tracer‘‘اور عربی میں ''خِرِّیْت‘‘کہتے ہیں۔ مجھے وہ تحریر اچھی لگتی ہے جس کو سمجھنے کے لیے ذہانت کو استعمال کرنا پڑے‘ سہیل وڑائچ صاحب تاریخی اور ادبی استعارے بھی استعمال کرتے ہیں ‘ اُن سے ملتا جلتا انداز جنابِ عبداللہ طارق سہیل کا بھی ہے ۔
کنایہ سے مراد ایسا لفظ جس سے اس کا لازمی معنی مراد لیا جائے ‘ جبکہ اُس کا معنیٰ موضوع لہٗ (یعنی اصل کے اعتبار سے جس معنی کے لیے اُسے وضع کیا گیا ہے )مراد لینا بھی درست ہو۔فقہ میں طلاق کی اقسام میں سے ایک ''طلاقِ بائن ‘‘ہے ‘اس کو طلاق بالکنایہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ''طلاقِ صریح ‘‘ ہے‘ یعنی ایسا لفظ جس کی دلالت اپنے معنی پر واضح ہے اور اپنے معنی پر دلالت کرنے کے لیے کسی قرینے یا نیت کا محتاج نہیں ہے ۔ عربی کا محاورہ ہے: ''اَلْکِنَایَۃُ اَبْلَغُ مِنَ التَّصْرِیْح‘‘یعنی کنایہ میں معنی کا ابلاغ صراحت سے زیادہ ہوتا ہے ۔جب سے ہمارے نظامِ امتحان میں ''Objective System‘‘کا رواج ہوا ہے ‘ حافظے کا استعمال زیادہ ہوگیا ہے اور ذہانت کا استعمال کم ہوگیا ہے اور کبھی کبھی اس میں ''تُکّا‘‘بھی لگ جاتا ہے‘ یہ قسمت پر موقوف ہے‘ یعنی بے سوچے سمجھے کچھ لکھ دیا اور اللہ کی تقدیر سے وہ صحیح نکلا‘اسے عربی محاورے میں ''رَمْیَۃٌ مِنْ غَیْرِ رَامٍ‘‘یعنی کسی اناڑی شخص نے تیر پھینکا اورحُسنِ اتفاق سے وہ نشانے پر جالگایا گولی چلائی اور وہ ہدف پرجا لگی ۔ علمِ معانی میں ایک اصطلاح ''تلمیح‘‘ ہے‘ اس سے مراد یہ ہے کہ متکلم اپنے کلام میں کسی آیت یا حدیث یامشہور شعر یا مشہور کہاوت یا قصے کا حوالہ دے ‘ مولانا ظفر علی خاں نے کہا:
فضائے بدر پیدا کر‘ فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گَردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اس شعر میں''فضائے بدر‘‘کی تلمیح استعمال کر کے بتادیا گیا کہ اہلِ ایمان اللہ کی غیبی نصرت کے حق دار کب بنتے ہیں ۔
امام احمد رضا قادری معراج النبی ﷺ اور طور کا تقابل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تبارک اللہ شان تیری‘ تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوش'' لَنْ تَرَانِیْ‘‘ کہیں تقاضے وصال کے تھے
یعنی ہر ایک کی رفعت کا اپنا اپنا مقام ہے ‘ موسیٰ علیہ السلام نے تجلیاتِ باری تعالیٰ کے دیدار کی التجا کی ‘ تو جواب ملا''لَنْ تَرَانِی‘‘ (تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے ) اور اس کے برعکس تاجدارِ ختم ِنبوت کو خود اپنی بارگاہ میں بلاکر شرفِ دیدار سے سرفراز فرمایا۔ ''لَنْ تَرَانِی‘‘کی تلمیح سے پورا واقعہ ذہن میں آجاتا ہے۔
استعارہ کے معنی ہیں: ''کوئی چیز عاریۃً یعنی مانگ کر لینا‘گویالفظ کو اپنے اصلی معنی سے ہٹاکر مجازی معنی میں استعمال کرنا‘ اگر حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کا تعلق پایا جائے تو اُسے استعارہ کہاجاتا ہے‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(یہ )کتاب ہے ‘ اسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ اس کے ذریعے آپ لوگوں کو ظلمتوں سے نور کی طرف نکالیں‘ (ابراہیم:1)‘‘۔یہاں ظلمت کو گمراہی کے معنی میں اور نور کو ہدایت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے‘ جو ان کے حقیقی معنی نہیں ہیں‘ جس طرح تاریکی میں کچھ نظر نہیں آتا اور انسان ٹامک ٹوئیاں ماررہا ہوتا ہے‘ اسی طرح گمراہی میں حق کا راستہ نظر نہیں آتا۔
تشبیہ میں ایک مُشَبَّہ (جسے کسی دوسری چیز سے تشبیہ دی جائے) ہوتا ہے اور ایک مُشَبّہ بِہٖ (جس کے ساتھ تشبیہ دی جائے) ہوتا ہے اور ایک وَجْہِ شِبہ(یعنی جو دونوں کے درمیان مشابہت کا سبب ہے یا دونوں کے درمیان قدرِ مشترک ہے)ہوتی ہے‘ جیسے زید شیر ہے ‘اس میں زید مشبّہ‘ شیر مشبّہ بہٖ اور بہادری وجہِ تشبیہ ہے۔تشبیہ مفردات میں ہوتی ہے اور استعارہ مرکبات میں بھی ہوتا ہے‘ یعنی ایک مرکب کلام سے اخذ کردہ مفہوم کو دوسرے کلام پر منطبق کرنا‘ مثلاً: ''قرآنِ کریم منافق کے حال کو اُس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جس نے آگ جلائی اور جب اُس آگ نے اس کاارد گردروشن کردیا اور اُس کیلئے امید کی کرن نمودار ہوگئی اور قبل اس کے کہ وہ منزل کی طرف چل پڑتا ‘ اچانک اللہ نے اس کے نور کو سلب کرلیااور اُسے گھپ اندھیروں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیا‘ (البقرہ:17)‘‘۔ چونکہ ایمان منافق کے دل میں جگہ نہیں پاتا ‘ اس لیے اُس کے لیے ایمان کا نور عارضی چمک ثابت ہوتا ہے جیسے گھنے بادلوں میں بجلی کا کڑکنااور عارضی روشنی کا نمودار ہونا۔
حال ہی میں سہیل وڑائچ صاحب نے اپنے کالم میں ''کِلَّہ‘‘ استعمال کیا‘ لیکن جس چیز نے انہیں حیرت زدہ کردیا کہ کِلَّہ کے وہ معنی جو ہر چلتے پھرتے آدمی کی سمجھ میں آجاتا ہے ‘فارسی ‘اردواور پنجابی کی لغت میں نہیں ہے۔ محاورہ ہے :''فلاں کا کِلّہ بڑا مضبوط ہے‘‘ یعنی اُس کا جو پشت پناہ ہے ‘وہ بہت طاقتور ہے‘ اس لیے اُسے کسی کی فکر نہیں ہے۔ حضرت سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ تعالیٰ کو مرزا غلام احمد نے مناظرے کا چیلنج دیا ‘ حضرت نے قبول فرمالیا ‘ مرزا نے کہا: ''مناظرہ تحریری ہوگا اور عربی زبان میں ہوگا‘‘۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب نے کہا: ''تمہاری سب شرطیں منظور ہیں ‘ مگر ایک شرط ہماری بھی ہے ‘ وہ یہ کہ خود نہیں لکھیں گے‘ قلم کو اشارہ کریں گے تو قلم لکھے گا‘‘۔ یہ مناظرہ لاہور میں طے تھا‘ مرزا نے اس کیلئے بڑی اشتہار بازی کی تھی ‘ لیکن آخر میں مرزا بھاگ گیا اور میدان میں نہ آیا۔پھر کسی نے قبلہ پیر صاحب سے پوچھا: ''آپ نے اتنا بڑا دعویٰ کیسے کردیا‘ اگروہ چیلنج قبول کرلیتا ‘ توپھر کیا ہوتا‘‘ انہوں نے پنجابی زبان میں جواب دیا: ''کٹّا کلّے دے زور تے کُد دَا اے‘‘ یعنی کِلّہ مضبوط ہو تو کٹّا اچھل کود کرتا ہے ‘ کٹّا بھینس کے نر بچے کو کہتے ہیں ‘ یعنی میرا کِلَّہ ‘ میرے پشتیبان اور میرا سہارا تاجدارِ کائنات سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے ‘ الحمد للہ !یہ سہارابہت مضبوط ہے ‘ اگر ایسا مرحلہ آجاتا اور میں قلم کو اشارہ کرتا تومجھے پختہ یقین ہے کہ قلم لکھنے لگتا۔
بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں ہمارے علاقے میں جو پگڑی پہنی جاتی تھی‘ اُسے کُلَّا کہتے تھے ‘ اسی کو فارسی میں'' کُلاہ ‘‘کہتے ہیں ‘ کُلاہ کے معنی ہیں: ''ٹوپی ‘تاج ‘‘اور اسی سے فارسی لفظ ''کج کُلاہ‘‘ ہے‘ اس کے معنی ہیں:''بانکا‘ البیلا‘ بادشاہ ‘‘ کج کُلاہی کے معنی ہیں: ''بانکپن ‘ البیلا پن ‘ بادشاہی‘‘۔ ہمارے علاقے میں جو اپنے آپ کو ذرا ممتاز سمجھتا ‘وہ اپنی ٹوپی کوجنابِ سراج الحق کی طرح تھوڑی سی ٹیڑھی کر کے رکھتا‘ کجی کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں۔
ایک روزخواجہ نظام الدین محبوب الٰہی لب ِدریا ایک کوٹھے پربیٹھ کر ہندوؤں کی عبادت اور اشنان کا تماشا دیکھ رہے تھے‘ امیر خسرو بھی حاضر تھے‘ محبوب الٰہی نے فرمایا:''ہر قوم راست را ہے‘ دینے و قبلہ گا ہے‘‘یعنی ہر قوم کا کوئی دین اور کوئی قبلہ ہوتاہے‘اس وقت محبوب الٰہی کی ٹوپی اتفاقاًذرا ٹیڑھی تھی‘ امیر خسرونے اس کی طرف اشارہ کر کے برجستہ کہا:''من قبلہ راست کردم بر سمتِ کج کُلا ہے‘‘یعنی میں نے اپنا قبلۂ عقیدت کج کُلاہ (یعنی خواجہ نظام الدین محبوبِ الٰہی )کو بنالیا ہے ‘‘چنانچہ یہ شعر بن گیا:
ہر قوم راست راہے دینے و قبلہ گاہے
من قبلہ راست کردم بر سمت کج کُلاہے
محمد علی ظہوری نے رسول اللہ ﷺ کی آمد مبارک کی بابت ایک نعت کہی‘ اس کا مطلع یہ ہے :
فلک کے نظارو!زمیں کی بہارو! سب عیدیں مناؤ! حضور آ گئے ہیں
اٹھو غم کے مارو !چلو بے سہارو! خبر یہ سناؤ! حضور آ گئے ہیں
اسی نعت میں یہ شعر ہے:
انوکھا نرالا وہ ذیشان آیا‘ وہ سارے رسولوں کا سلطان آیا
ارے کج کُلاہو! ارے بادشاہو!نگاہیں جھکاؤ!حضور آ گئے ہیں
اب یہ مصرعہ ہماری سیاستِ دوراں کا استعارہ بن گیا ہے کہ ہماری سیاست نظریے سے عاری ہے ‘ بس ایک ہی نظریہ ہے : ''من قبلہ راست کردم برسمتِ کج کلاہے‘‘ یعنی میں نے تخت نشینِ اقتدار کو اپنا قبلۂ عقیدت بنالیا ہے ‘ ہمیں کسی شخصِ معیّن سے کوئی عقیدت نہیں ہے ‘ بس جو عہدِ رواں میں مسندِ اقتدار پر فائز ہے ‘ اس کے آگے جھکنا اور اس کی خوشامد ہمارا نظریۂ سیاست ہے‘ اچھے برے سے ہمیں کیا غرض‘ صابر ظفر نے کہاتھا:
نہ تیرا خدا کوئی اور نہ میرا خدا کوئی اور ہے
یہ جو راستے ہیں جدا جدا‘ یہ معاملہ کوئی اور ہے
یہ شعر ہمارے لبرل قوالوں نے جاکر بھارت میں پڑھا‘ ایک مرتبہ ہمارے کچھ علماء اسے دہرا رہے تھے ‘ میں نے اُن سے پوچھا: ''یہ کونسا استعارہ استعمال ہورہا ہے ‘ آپ لوگوں نے اس کا مطلب سمجھا‘ وہ خاموش ہوگئے ‘‘۔میں نے کہا: یہ بھارت میں ہندوئوں کے سامنے پڑھا گیا تھا اور اس سے ''وحدتِ اَدیان‘‘ کے نظریے کو فروغ دینا مقصود تھا‘ یعنی مسلمانوں کا اللہ اور ہندوئوں کا رام ایک ہی ہیں ‘ یہ صرف مذہبی لوگوں کے مفاداتی جھگڑے ہیں ‘ اس کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ۔ اسی طرح ایک سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی نے کہا:
عشق ہو جائے کسی سے‘ کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں
ایک جگہ ہمارے معروف مقرر بڑی لَے اور ترنّم کے ساتھ یہ شعر پڑھ رہے تھے ‘ میں نے اُن سے کہا: ''آپ یہ کیا پیغام دے رہے ہیں‘ اس سے تو یہ پیغام جاتا ہے کہ خاتم النبیّٖن سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پرایمان لائے بغیر بھی کوئی آپ کا عاشقِ صادق بن سکتا ہے ‘‘ سو جب ہم نے کنایہ‘ استعارہ اور تلمیح کو سمجھنا چھوڑ دیا تو دوسروں کے لیے ہمیں راہِ راست سے بھٹکانا آسان ہوگیا‘ ہم اس پر نعرے لگاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں ‘ ایک مشہور فلمی گانے کا یہ شعر ایک عرصے تک گونجتا رہا:
آج میری تقدیر کا مالک سوتا ہے
قسمت کا دستور نرالا ہوتا ہے
لوگ معنی پر غور کیے بغیر اسے پڑھتے ‘ اس کے ترنّم اور نغمگی سے محظوظ ہوتے ‘ حالانکہ یہ کفریہ معنی پر مشتمل ہے ‘ مومن کی تقدیر کا مالک تو اللہ تبارک وتعالیٰ ہے اور اُس کی شان یہ ہے :''اُسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند‘ (البقرہ:255)‘‘۔ یہ کلمات ''آیت الکرسی‘‘ کا جزو ہیں ‘اس کی احادیثِ مبارکہ میں بڑی برکات آئی ہیں۔