ہیرو چاہے کتنا ہی ہینڈسم ،خوش پوش اور پُر کشش کیوں نہ ہو، اُس کی عمر کا ڈھلتا سورج زوال کی وادی میں اتر جاتا ہے۔ نواز شریف صاحب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس جال سے بچیں جس کا شکار اُن سے پہلے دوسرے حکمران ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی وزارت ِعظمیٰ کے پہلے دور میں بھی ایک نااہل شخص کو نیب کا چیئرمین لگانے کی غلطی کی تھی۔ہمارے ہاں چیئر مین نیب کے اخلاقی ترازو کا جھکائو ہمیشہ وزیر ِ اعظم کی طرف ہوتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں ہر شہر ی کو معلومات تک رسائی کی آزادی حاصل ہے، لیکن عملی طور پر عوام اہم معلومات حاصل نہیں کر سکتے؛ چنانچہ یہ ایک سربستہ راز ہی رہتا ہے کہ ریاست کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد کا چیئرمین نیب کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ کسی جلاد کو چیئر مین کے دفتر میں بھیجے جو وہاں موجود اُن خون آشام بلائوں کا سرقلم کر سکے جنھوںنے وہاں مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ صاف شفاف احتساب کے لیے نئے قوانین وضع کیے جائیں‘ دیانت دار اور بااصول افراد کو غیر سیاسی بنیادوں پر عہدے دیئے جائیں۔ اگر ایسا نہیں کیا جاسکتا تو پھر بہتر ہے کہ احتساب کے نام پر کی جانے والی ڈرامہ بازی کو بند کر تے ہوئے ٹیکس دہندگان کی رقوم ضائع ہونے سے بچالی جائیں۔ چیئر مین نیب کے عہدے پر‘ جو سترہ سال پہلے تخلیق کیا گیا تھا، عام طور پر وہ افراد فائز رہے ہیں جنھوںنے قسم کھائی ہوئی تھی کہ وہ آئین و قانون کی ہر ممکن طریقے سے پامالی کریں گے۔ کیا اس عہدے کے لیے واحد اہلیت خوشامدی ہونا ہے؟ ماضی میں اس عہدے کے لیے جن افراد کا چنائو کیا گیا وہ اقربا پروری، ذاتی پسند اور قریبی رفقا کونوازنے کی پالیسی کے سوا اور کیا تھا؟ ان میں کوئی بھی اس عہدے کا مستحق نہ تھا۔ ا ن میںسے ایک ، جنرل شاہد عزیز ، جن کی تقرری پرویز مشرف نے کی تھی، اپنی برطرفی پر اتنے سیخ پاہوئے کہ اپنے قریبی عزیز اور سابق آرمی چیف پرخوب برسے۔ چیئر مین نیب کے عہدے پر آخری تقرری ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری کی اُس وقت ہوئی تھی جب ملک میں بدعنوانی کی گنگا بہہ رہی تھی‘ لیکن بیس ماہ میں بخاری صاحب کے کانٹے پر کوئی مچھلی نہ لگی؛ البتہ اس دوران انہوں نے عدالتی احکامات اورعوامی تنقید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مبینہ بدعنوان حکمران پارٹی کے خلا ف کوئی کارروائی نہ کی۔ تقرری سے پہلے وہ ایک وضع دار شریف انسان کے طور پر مشہور تھے‘ لیکن اس عہدے نے ایک مختلف انسان کو سامنے لا کھڑا کیا۔ انہوں نے صدر زرداری کے خاص رفیق راجا پرویز اشرف کو عدالت سے بچایا اور فرضی چوروں کا تعاقب کرتے رہے۔ انہوں نے ڈاکٹر عاصم اور اوگرا کے توقیر صادق کے پروں پر بھی پانی نہ پڑنے دیا۔ یہ کارگزاری اس ادارے کا ایک سیاہ باب ہے۔ سابق ایڈمرل نے عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کو اس طرح نظر انداز کیا کہ آخر فاضل عدالت کو ان کے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔ ایک اور ادارہ جس کا سایہ نیب پر موجود رہا وہ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان ( ٹی آئی پی) ہے ۔ اس کے چیئرمین عادل گیلانی ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں عادل گیلانی کے ساتھ فصیح بخاری کے معاملے پر گزشتہ سرما میں کی جانے والی اپنی ای میلز کی روشنی میں آپ کو کچھ بتائوں، ایک بات مانی جاتی ہے کہ عادل گیلانی کو بھی سوالات کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جب بھی وہ کسی ادارے یا افراد پر الزامات لگاتے ہیں، اُنہیں اُن کا ماضی یاد دلایا جاتا ہے۔ جب انہوں نے رحمان ملک پر بدعنوانی کا الزام لگایا تو انہوں نے جوابی حملے میں اُن کو بھی بدعنوان قرار دیا۔ حال ہی میں جہانگیر صدیقی بنک نے ٹی آئی پی کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مسٹر گیلانی کے اپنے کاروباری حریف کے ساتھ کچھ منفی روابط رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے بھی ٹی آئی پی کو جہانگیر صدیقی بنک کے خلاف کوئی مواد منظرِ عام پر لانے سے روک دیا ہے۔ جب میںنے سید عادل گیلانی سے ان الزامات کے حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے گول مول جواب دیتے ہوئے مجھے ٹالنے کی کوشش کی۔ جب میںنے اُن سے پوچھا کہ فصیح بخاری الزامات کی زد میں کیوں ہیں تو انہوں نے مختلف میلز میں جو مختصر جوابات دیے ، اُن کا خلاصہ یوں ہے: ’’مسٹر بخاری کی تقرری کو چوہدری نثار نے چیلنج کیا تھا۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں زیر ِ التوا ہے ( گزشتہ ہفتے عدالت نے اس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔) ان پر توہین ِ عدالت کے تین الزامات ہیں جن پر انہوں نے عدالت سے معافی مانگی ہے۔ ان پر رینٹل پاور کیس میں عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرنے کا الزام ہے۔ جب سے وہ اس عہدے پر فائزہوئے ہیں، انہوں نے بدعنوانی کے کسی بڑے کیس کا ریفرنس دائر نہیں کیا‘‘۔ جب میںنے پوچھا کہ کیا سابق چیئر مینوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے اس ادارے کو ختم کر دیا جائے؟ تو مسٹر عادل نے جواب دیا کہ نہیں، کچھ مخصوص شقوں، جو ملزمان کے ساتھ ’’لین دین ‘‘ کرنے کی سفارش کرتی ہیں کے علاوہ اس کے قوانین بہت اچھے ہیں۔ مسٹر عادل کی رائے ہے کہ اس عہدے پر کام کرنے والوں میں جنرل عزیز اور جنرل امجد ایماندار ترین افسر تھے۔ جنرل شاہد عزیز کا دعویٰ ہے کہ 2007ء میں پرویز مشرف نے اُن کو اس لیے نکالا تھا کہ انہوں نے کئی بڑے لیڈروں کے بارے میں کچھ خفیہ معلومات حاصل کی تھیں۔ مشرف چاہتے تھے کہ وہ معلومات اُن کے حوالے کی جائیں تاکہ وہ ان سیاست دانوں کو بلیک میل کر سکیں۔ اس عہدے پر ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر نوید احسان بھی فائز کیے گئے۔ ان کے پاس دو سول وزرائے اعظم کے خلاف بہت سے ثبوت تھے لیکن انہوں نے اپنا منہ بند رکھا؛ تاہم نیب کے نائب چیئرمین حسن وسیم افضل نے 2006ء میں اسلام آباد میںکی جانے والی پریس کانفرنس کے دوران بہت سے انکشافات کردیے۔ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو، رحمان ملک اور حسن علی جعفری کے خلاف کی جانے والی تحقیقا ت کی نقول پریس کے سامنے پیش کر دیں۔ اگلے دن اخبارات نے سب کچھ شائع کر دیا۔ میڈیا کئی مرتبہ سول اور دفاعی افسروں کی بدعنوانی کے واقعات کو منظر ِ عام پر لایا ہے لیکن میڈیا کے پاس کوئی مستند گواہی نہیںہوتی۔ اگر ہمارے ملک میں معلومات حاصل کرنے کے قوانین کو بہتر بنایا جائے تو شاید میڈیا کا کردار مزید فعال ہو سکے۔ ایسا نہیںہے کہ کسی کے پاس بھی ثبو ت نہیں ہیں۔ نیب کے دفتر میں بنڈلوںکے بنڈل ثبوت موجود ہیں، لیکن وہ میڈیا کے لیے شجر ِ ممنوعہ ہیں۔ میڈیا نے ان کی صرف کچھ بُو سونگھی ہے، لیکن حکمران ان کو تبدیل کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ تبدیلی ان کے اختیار میںہوتی ہیں۔ اس کے باوجود دل چھوٹا نہ کریں، جب میں نوید احسان سے انٹرویو کرنے گئی تو ان کے ایک جملے نے دل خوش کردیا۔ جب میںنے پوچھا کہ یہ تمام معلومات تو موم کا ڈھیر ہے، تبدیل ہو سکتی ہیں تو جہاندیدہ بیوروکریٹ نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا: ’’پریشان نہ ہوں، ان کی ایک ہارڈ کاپی ایک ایسی ’’جگہ ‘‘ محفوظ رہتی ہے جہاں ان سیاست دانوں کی رسائی نہیں ہے۔‘‘ میںنے پوچھا:’’کیا آپ کا اشارا اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے؟‘‘ مسٹر احسان کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی لیکن انہوں نے میرے سوال کا جواب نفی یا اثبات میں نہیں دیا۔ اب اگر نواز شریف نیب کے ایماندارسربراہ کی تقرری چاہتے ہیں تو اُن کو شاید بھوسے کے ڈھیر سے سوئی تلاش کرنی پڑے۔ اگر انہوں نے سیف الرحمان کی کوئی نقل تلاش کر لی تو پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved