تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     05-07-2020

لگایا جی بہت پر جی لگا نہیں!

آپ کے ساتھ بھی ہوا ہو گا جب آنکھ کھلنے پر ایک دم یاد نہ آئے کہ میں کہاں ہوں۔ رات کے وقت الارم بجا تو ایک لمحے کے لیے سمجھ نہیں آیاکہ یہ کون سی جگہ ہے جو مسلسل ہل رہی ہے‘ لیکن اگلے ہی لمحے ذہن کے سارے قمقمے جلنے بجھنے لگے۔ میں دہلی سے ممبئی جارہا ہوں، یہ راجدھانی ٹرین ہے، مجھے فوراً الارم بند کرنا چاہیے تاکہ باقی مسافروں کی نیند خراب نہ ہو، سحری کے لیے ٹرین کے باورچی خانے میں جانا ہے۔ صرف ایک بات یاد نہیں رہی کہ یہ تیس دسمبر کی سردیوں کی رات ہے لیکن کمپارٹمنٹ سے باہر نکلتے ہی یخ ہوا نے یہ بھی یاد دلادیا۔ واپس آیا، جیکٹ پہنی۔ آصف اور ندیم بھی تیار تھے۔ ہم تینوں کچن پہنچے۔ ہماری سحری چائے سمیت تیار تھی اور حیرت انگیز طور پر آملیٹ پودینہ اور ہری مرچیں ڈال کر بنانے کی ہدایت کا خیال رکھا گیا تھا۔ سحری کے بعد سگریٹ کا کوٹا پورا کرنا بھی لازمی تھاکہ سارا دن اس کے بغیر گزارنا صبرآزما کام تھا۔ واپس برتھ پر آکر لیٹا تو فوراً ہی نیند نے چادر اوڑھا دی۔
آنکھ تب کھلی جب باقی مسافروں کے لیے ناشتہ پیش کیا جارہا تھا۔ کملا کے علم میں تھاکہ میں روزے سے ہوں۔ ناشتے کے بعد ہم اکٹھے باہر نکلے تاکہ یہ اجنبی علاقہ دن کی روشنی میں دیکھ لیا جائے۔ ریل کی کھڑکیاں چھوٹی چھوٹی سکرینوں کی طرح روشن ہوچکی تھیں۔ سرخی مائل خاکستری زمین، کیلوں کے لاتعداد گھنے جھنڈ، بارش کا تازہ چھینٹا، شادابی اور ہریالی کے مختلف شیڈز، کہیں کہیں ساڑھی پہنے دیہاتی عورتیں، گہرے رنگ کے مرد، آسمان پربادل، ہرکچھ فاصلے پر پانی کے تالاب اوردور کسی دریاکی جھلملاہٹ۔ شاید ہم گجرات اور مہاراشٹر کے علاقے میں تھے۔ یاد نہیں کتنی دیر تک یہ حسن ہم آنکھوں سے دل میں اتارتے رہے۔ کتنی دیر تاریخ، جغرافیے کے واقعات دہراتے رہے۔ اتنا یاد ہے کہ ہم کھڑے کھڑے اتنا تھک گئے تھے کہ واپس کمپارٹمنٹ میں جانا ہی پڑا‘ لیکن آج بھی آنکھیں بند کروں تو کھڑکی سے باہر کے وہ بھیگے منظر جگمگا اٹھتے ہیں۔
ٹرین ممبئی پہنچی تو خلقت کاایک ہجوم دیکھ کر میں حیران ہوگیا۔ ہمارا تو خیر کون تھا وہاں جولینے آتا، لیکن پتہ چلاکہ یہ ہجوم ٹرینوں پر روز کا معمول ہے۔ کملا پاریکھ کو باندرہ کے علاقے میں کسی رشتے دارکے ہاں ٹھہرنا تھا‘جس کا فون نمبراس نے دیا اور کچھ جگہیں اکٹھے دیکھنے کی تجویز دی۔ میں بھی متفق تھا۔ میں، ندیم اور آصف اکٹھے کسی ہوٹل میں ٹھہرنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ سوکملا کو الوداع کہہ کر سٹیشن سے باہر نکلے اورٹیکسی کو گیٹ وے آف انڈیا جانے کی ہدایت کی۔ کسی نے ایک ہوٹل کا پتہ بتایا تھا اور ہم فی الحال اسی کا تجربہ کرنے کاارادہ رکھتے تھے۔ اندازہ نہیں تھاکہ وہ علاقہ خاصا دور ہے لیکن اس بہانے ممبئی کی سڑکوں اور بازاروں کو دیکھنے کا موقع مل گیا۔ ممبئی ایک لمبوتراسا کٹا پھٹا قطعۂ زمین ہے؛ چنانچہ ہرکچھ دیر کے بعد دائیں یا بائیں طرف سمندر کی جھلک دکھائی دینے لگتی تھی۔ زمین کی کمیابی الگ اورہجوم الگ۔ خلقت ہے کہ ایک دوسر ے پر ٹوٹی پڑتی ہے۔ اس وقت 2020 میں اس کی آبادی ڈھائی کروڑ ہے۔ میں نے زندگی بھرکسی شہر میں ٹرینوں پر ممبئی جیسا ہجوم نہیں دیکھا۔ ہاں ایک باردہلی میں کسی ہندو تہوارکے موقع پر جوہجوم دیکھا اور اس کے ساتھ ٹرین میں سفرکیا تھا، وہ پہلے نمبر پر رہے گا۔
گیٹ وے آف انڈیا اپالو بندر کے پاس تھا جس کے قریب ہی وہ اچھااور صاف ستھرا ہوٹل تھا۔ سامان کمروں میں رکھا۔ اب سب سے پہلا مرحلہ پولیس رپورٹ کا تھا جس سے ہم جلد فارغ ہونا چاہتے تھے۔ ڈیڑھ دو گھنٹے میں یہ مرحلہ سرہوا تو اطمینان کا سانس لے کر ہوٹل واپس آئے۔ اب خیال تھاکہ پہلے کہیں افطار کیا جائے اور پھر آرام۔ میں کمرے میں پہنچا ہی تھاکہ ندیم کی سخت پریشانی والی آواز سنائی دی ''سعود بھائی۔ ہماری چیزیں الٹ پلٹ ہیں۔ ہمارا سامان کسی نے کھولا ہے‘‘۔ میں نے اپنا سامان دیکھا، سب ٹھیک تھا لیکن ندیم اور آصف کے سامان میں سے امپورٹڈ سگریٹ کے کارٹن، پرفیوم اور چاکلیٹ غائب تھے۔ استقبالیہ سے پوچھا تو کندھے اچکا کر کہا گیا: ہم پابند ہیں کہ پاکستانی آئیں تومتعلقہ ایجنسی کو اطلاع کریں‘ وہی چیکنگ کے لیے آئے تھے لیکن سامان کا ہمیں نہیں پتہ، نہ ہم کچھ کرسکتے ہیں۔ ہم تو سناٹے میں آگئے۔ یہ واضح تھاکہ نہ کسی کے خلاف شکایت کی جاسکتی ہے نہ کسی سے منصفی کی توقع ہے۔ شہرمیں پہلے چند گھنٹے ہی ہمیں پہلی چپت رسید کرگئے تھے۔
ایک قریبی ہوٹل میں افطار کیا لیکن دل بجھ ساگیا تھا۔ واپسی پرہوٹل آتے ہوئے کچھ مکروہ چہرے ہمارے پیچھے لگ گئے۔ پتہ چلاکہ یہ جسم فروشوں کے دلّال ہیں اور یہ علاقہ ان کا گڑھ ہے۔ اب یہ طے ہوگیا کہ اس ہوٹل میں نہیں رہا جاسکتا۔ یہاں سحری کابھی کوئی بندوبست نہیں ہوسکتا تھا۔ صبح ناشتے کے بعد میں نے ندا فاضلی صاحب کو فون کیا، پاکستان کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ میں گیٹ وے آف انڈیا کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہوں اورکسی مناسب علاقے میں ہوٹل کی تلاش میں ہوں۔ انہوں نے بڑی مہربانی کی کہ نہ صرف ماہیم کا علاقہ تجویز کیا بلکہ ایک ہوٹل کا نمبربھی دیا اور اس کے مالک سے کہہ کرمناسب پیسے بھی طے کروادئیے۔ ہم اس دوپہر کونئے ہوٹل میں منتقل ہوگئے۔
لیکن سچ بات یہ کہ ممبئی میں دل لگ نہیں رہا تھا۔ نہ شہرپسند آرہا تھا،نہ لوگ۔ پھر شہر میں گندگی اورغربت اس پر مستزاد۔ ندیم اور آصف تواپنے ملنے ملانے والوں کے پاس نکل گئے اورمیں شہر بھر میں گھومتا پھرتا رہا۔ لوکل ٹرینیں بہت مددگار تھیں اور شہرکا نقشہ میرے پاس تھا۔ اندھیری، باندرہ، ماہیم، دادر، چرچ گیٹ۔ شہر کے کافی علاقوں کے خدوخال پرانے کراچی سے ملتے تھے۔ چرچ گیٹ مجھے اچھا لگا۔ وہاں بڑے ہوٹلز بھی ہیں اورنسبتا صاف ستھرابھی۔ بھنڈی بازار مسلم علاقہ تھا‘ سووہاں کافی وقت گزارا۔ ممبئی کا خاص ڈوسا کھایا جو واقعی وہاں کی سوغات تھی‘ لیکن ممبئی کے کھانے کچھ خاص پسند نہ آئے۔ یہ بھی اندازہ ہواکہ جنوبی ہندوستان کے لوگ شمال سے ذرا الگ مزاج کے ہیں۔ مراٹھی کو ہندی پر ترجیح دی جاتی ہے اور لوگوں کے پاس زندگی کی دوڑ میں فرصت بہت کم ہے۔
ممبئی میں زمین کی تنگی کی وجہ سے بڑے گھروں کا تصور بہت مشکل ہے۔ بہت ہی مالدار لوگ یہاں بڑے گھر رکھ سکتے ہیں۔ عام اور متوسط طبقے کے لیے اپنی چھت ہونا ہی بہت بڑی بات ہے‘ خواہ وہ فلیٹ کی شکل میں ہو یا کھولی کی صورت میں۔ اس کے باوجود لوگوں کی اچھی بڑی تعداد فٹ پاتھوں کو اپنا گھر بنانے پر مجبور ہیں۔ بچے یہیں پیدا ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں، اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں اور مر جاتے ہیں۔ کسی کی قسمت اچھی ہو تو اسے پختہ سائبان بھی مل جاتا ہے۔
ممبئی کی ادبی برادری سے ملنے کی خواہش تھی لیکن وقت اتنا تھا ہی نہیں۔ باکمال شاعر گلزار کے نام جناب احمد ندیم قاسمی نے ایک خط لکھ کر دیا تھا لیکن بد قسمتی سے گلزار صاحب فلم کی شوٹنگ کے لیے ممبئی سے باہر تھے اس لیے ملاقات نہ ہو سکی۔ عبدالاحد ساز اور افتخار امام صدیقی مدیر شاعر میرے ہوٹل مجھے ملنے آگئے۔ جناب کیفی اعظمی کو فون کر کے ان کے گھر ملنے گیا۔ فالج کے بعد سے انہیں بولنے اور چلنے میں دقت تھی لیکن تپاک سے پیش آئے۔ کچھ دیر کی ملاقات ہوئی اور اپنی کتاب پیش کی۔ ندا فاضلی سے ان کے فلیٹ پر کئی گھنٹوں کی بھرپور ملاقات رہی؛ اگرچہ وہ الگ مزاج کے آدمی تھے اور نہایت خود پسند بھی۔ ان کی شاعری کا ذائقہ مجھے تو اس وقت اور بعد میں کبھی پسند نہ آ سکا اور یہی نتیجہ دہلی میں ذہن جدید کے مدیر زبیر رضوی سے ان کے اپارٹمنٹ پر ملاقات کے بعد تھا۔ کراچی کے دوست انیق احمد بھی ندا فاضلی کے گھر آئے ہوئے تھے۔ بس یہ ملاقاتیں تھیں اور یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved