تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     05-07-2020

مائنس ون یا مائنس پی ٹی آئی ؟

انسان کی تمام معنوی محسوسات کی طرح اس کی صلاحیتوں کی نمود بھی مختلف ہوتی ہے اور ہمیشہ نشوونما کی محتاج رہتی ہے ‘جس طرح ہر انسا ن کا ذہن و ادراک یکساں درجہ کا نہیں ہوتا ‘ اسی طرح صلاحیتوں کا جوش بھی ہر دیگ میں ایک ہی طرح کا نہیں اُبلتا ۔اکثرکی صلاحتیں بولتی ہیں ‘مگر دھیمے سروں میں اور بعضوں کی صلاحیت اتنی پر جوش ہوتی ہے کہ جب بھی بولتی ہے ‘ سارا گردوپیش گونج اٹھتا ہے ۔مدارج کا یہی فرق ہے ‘جو ہر سیاستدان اور پارٹی کوایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے ۔ پی ٹی آئی کی صلاحیت مسلم لیگ (ن)سے جد اہو سکتی ہے اور مسلم لیگ (ن) کی پیپلز پارٹی سے ‘ نیز یہ تمام سیاسی پارٹیاں حکومت میں آکر اپنے اپنے ہنر کو اوج ِکمال بخشتی ہیں ۔ 
پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کو اختیارات اور وسائل دیئے‘ جس کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ پیپلزپارٹی آئین کا حلیہ درست کرنے کا کریڈٹ لیتی ہے تو مسلم لیگ (ن) دہشت گردی اور توانائی کے بحران کا قلع قمع کرنے پر داد وصول کرتی ہے ۔ اب‘ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں صلاحیت کتنی ہے ؟ وہ کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں ؟ یہ بات طے ہے کہ معیشت ‘ بے روزگاری ‘ مہنگائی ‘ پچاس لاکھ گھر ‘ ایک کروڑنوکریاں اور صحت کے نظام میں بہتری جیسے پہاڑ سر کرناموجودہ حکومت کے بس کی بات نہیں لگتی‘ اگرایسا ہو سکتا تو آج مائنس ون کی سرگوشیاں ‘ شور و غوغا کا روپ نہ دھارتیں۔ کہیں چنگاری ہوتی ہے تو دھواں اٹھتا ہے‘ ورنہ دنیا جانتی ہے کہ سیاست کے کھیل میں راکھ کریدنے والے کوئی لاحاصل مشق نہیں کرتے‘ بجٹ سیشن کے دوران جو دہائیاں سننے کوملیں ‘اس سے صاف لگ رہا ہے کہ وفاقی حکومت کے لیے حبس کا موسم شروع ہوچکا۔اب‘ سیاست کی غلام گردشوں میں وہی ہوگا ‘جو اس جان لیوا موسم کا خاصا ہے؛ کہیں بارش برسے گی اور کہیں پسینہ بدبو پھیلائے گا ۔ کبھی آندھی اٹھے گی توکبھی طوفان آئے گا ۔ حکومت نے منہ جھلساتی لو میں کسی نہ کسی طرح بجٹ تو پاس کروا لیا‘مگر حبس کی شدت اسے کہاں لے جائے گی ؟یہ طے ہونا ابھی باقی ہے ۔ 
سوال وہیں کا وہیں ہے کہ وفاقی حکومت کیا کرے کہ اس کے دامن پرلگے ناکامیوں کے دھبے تھوڑے مدہم ہوسکیں ؟ حکومت ایسا کیا کر ے کہ اس کا تذکرہ داستانوں میں رہے ؟ضروری نہیں کہ حکومت اگر معیشت اور گورننس کے میدان میں ناکام ٹھہری ہے تو ہرمنزل اس سے دور ہوتی جائے گی ۔ عوام کے درجنوں ارمان اور حسرتیں ہیں‘ جن کو یہ حکومت پورا کر سکتی ہے ۔ بہت سے لاوارث وعدے ہیں‘ جنہیں حکومت نبھاجائے تو کبھی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ نہیں بنے گی ۔ اس حوالے سے چند گزارشات پیش خدمت ہیں:۔ 
(1) حکومت نے جنوبی پنجاب صوبے کا جو خواب وہاں کے عوام کو دکھایا تھا‘ اسے پورا کرکے کروڑو ں لوگوں کے دل جیت سکتی ہے ۔ یہ کا م پیپلزپارٹی کر سکی‘ نہ مسلم لیگ( ن) ۔ سیاستدانوں کے ہجوم میں واحد وزیراعظم عمران خان ہیں‘جو یہ بھاری پتھر اٹھا سکتے ہیں ۔ سیاسی مفادات او ر نعرے ایک طرف ‘ عوام کے دکھ درد دوسری طرف ‘ نئے یونٹ بنا نا وقت کی ضرورت ہے ‘کیونکہ لاہور اب بارہ کروڑ کے صوبے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا ؛ اس کی سکت دم توڑ چکی ہے ۔ باغات کے دامن میں مہکتے لاہور کی آبادی ایٹم بم کی طرح خطرناک ہوچکی ہے ۔خدارا ‘نیا صوبہ بنا کر لوگو ں کو ملتان کی حدودمیں روکا جائے ۔پی ٹی آئی یہ کام آسانی سے کرسکتی ہے ‘ اگر اس نے لیت ولعل سے کام لیا تو جنوبی پنجاب صوبہ ہمیشہ سراب ہی رہے گا ۔ یہی نہیں ‘حکومت ‘اگر ہزارہ صوبہ بھی بنا جائے تو عوا م کی تکلیفیں کم ہو جائیں گی ۔ بھارت کے سابق وزیراعظم نہرو کا ماننا تھا کہ صوبے جتنے زیادہ ہوں گے‘ ا تنے انتظامات بہتر اور عوام خوشحال ہو ں گے ۔ ہمارا پڑوسی یہ کام بہت پہلے کرچکا ‘ہمیں بھی اب دیر نہیں کرنی چاہیے ۔ 
(2) ملک کو اس وقت کورونا وائرس اور معیشت کی زبوں حالی سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرہ ہے ‘اگر آج ہم نے اپنے ماحول کو درست نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں آخری سانسوں تک کوستی رہیں گی ۔ صنعتیں ہوں گی‘ نہ کاروبار ‘ ہر سو بیماریوں کا راج ہوگا اور کروڑوں انسانوں کی جانیں خطرے میں۔ اب ‘زیادہ سے زیادہ درخت لگانے میں ہی ہماری بقا ہے ۔ حکومت اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے اور ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کر دے ۔ اس وقت پاکستان کا چار فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے۔حکومت جان لے کہ اسے کم از کم پندرہ فیصد کرنا زندگی کی علامت ہے‘ ورنہ کورونا وائرس جیسی بیماریاں ہمارے ملک میں گھر کرتی رہیں گی ۔ یہ وزیراعظم عمران خان ہیں‘ جو ماحولیات کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگا سکتے ہیں‘ورنہ دور دور تک اندھیرا ہے ‘ گھپ اندھیرا۔
(3)پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے‘ جہاں سیاحت کے امکانات بہت زیادہ ہیں ۔ ہمارے شمالی علاقہ جات کو ایشیا کا سوئٹزرلینڈکہا جاتاہے‘ مگرافسوس! ہم اتنی بڑی نعمت سے فائدہ نہیں اٹھا سکے ‘ اگر وزیراعظم عمران خان اپنے دنیا بھر میں پھیلے دوستوں کو پاکستا ن بلا کر یہ علاقے دکھا دیں ‘تو حیرت انگیز نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ دنیا کے آدھے ممالک ایسے ہیں‘ جن کی معیشت کا دارومدار ٹورازم پر ہے۔میکسکوکے جی ڈی پی کا 15.5 فیصد سیاحت سے حاصل ہوتا ہے ۔سپین کا 14.3فیصد‘ اٹلی کا 13 فیصد اور ترکی کا 11.3 فیصد جی ڈی پی سیاحت کے مرہون منت ہے ۔ یہی نہیں ‘ آسٹریلیاہر سال 158 ارب ڈالر‘ تھائی لینڈ 115 اور ہانگ کانگ 65 ارب ڈالر ٹورازم انڈسڑی سے حاصل کرتے ہیں ۔ پاکستان‘ اگر بہتر پبلسٹی کر سکے تو صرف سیاحت کے فروغ سے ہمارے معاشی حالات ناقابل یقین حد تک بہتر ہوسکتے ہیں ۔ اب‘ بھی وقت ہے لہٰذا وزیراعظم عمران خان اس مشن پر نکل کھڑے ہوں ! 
(4) حکومت الفاظ کی جادو گری سے باہر نکلے تو پولیس اصلاحات باآسانی ہوسکتی ہیں ۔ زیادہ نہیں تو وسائل کا رخ تھانوں کی طرف موڑدیں تو پاکستان کا آدھا چہرہ صاف ہو سکتا ہے ۔ جب تک تھانوں میں حکومتی وسائل نہیں ہوں گے‘ اختیارات کا بے جا استعمال ہوتا رہے گا ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے یہ توقع ہی بے سود ہے‘ مگر پاکستان تحریک انصاف تھانہ کلچر کو بدل سکتی ہے ۔پنجاب پولیس کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے 8.60 ارب روپے کی ضرورت ہوتی ہے‘ مگر حکومت سے صرف 4.6 ارب ہی ملتے ہیں۔ اس وقت پولیس کا سب سے بڑا مسئلہ اختیارات اور وسائل میں توازن پیدا کرنا ہے ‘تاکہ مظلوم کو بروقت انصاف مل سکے ‘ یہی پی ٹی آئی کا نعرہ بھی ہے ۔ 
(5 )تعلیمی تفریق پاکستان میں تمام مسائل کی موجد ہے ۔ پی ٹی آئی اپنے منشور کو عزت دے اور جتنا جلدی ممکن ہو‘یکساں نصاب کو ملک بھر میں رائج کردے ‘ آنے والی نسلیں جھولی پھیلا کر انہیں دعا دیں گی ۔ سرکاری سکول ہوں یا پرائیویٹ ‘ مدرسہ ہو یا ٹیوشن سنٹر‘ ہرجگہ ایک کتاب پڑھائی جائے ‘تاکہ سماج کے سارے بچے تعلیم کی دوڑ میں برابر بھاگ سکیں ۔ 
(6) وزیراعظم عمران خان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ بہت ہی اعلیٰ پائے کے مقرر ہیں‘ دنیا بھر میں لوگ ان کی بات کو دھیان سے سنتے ہیں ۔ وہ ‘اگر کشمیر کاز کا بیڑا اٹھا لیں تو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ایک سال سے پورا کشمیر عقوبت خانے میں بدلا ہوا ہے ‘ وزیراعظم عمران خان ‘عالمی میڈیا کو استعمال کرکے کشمیریوں کی آواز بن جائیں تو بھارت کو دنیا بھر میں منہ کی کھانی پڑ سکتی ہے ۔ 
الغرض ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ کبھی کبھی ایسی شخصیتیں بھی سیاست کے سٹیج پر نمودار ہو جاتی ہیں‘ جن میں انانیت کی مقدارتھوڑی اضافی ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کو اگر عوام کی فلاح سے غرض ہے تو اپنی انا کو فنا کے راستے پر لگادے ۔ 
وزیراعظم عمران خان‘ اگرمذکورہ بالا گزارشات کو کر گزرے تو یقین مانیں ‘پھر مائنس ون ہو یا مائنس پی ٹی آئی کوئی فرق نہیں پڑے گا ؛ وطن ِعزیز کی کم از کم آدھی آبادی ان کے سحر سے باہر نہیں نکل پائے گی !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved