تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     06-07-2020

قالین اٹھا کر دیکھیے نیچے کیا ہے

ابھی تک آسمان سے پتھر نہیں برسے۔ ابھی تک بادلوں نے آگ نہیں برسائی۔ ابھی تک وہ چاردیواریاں جہاں بیٹیاں محفوظ نہیں‘ زمین کے اوپر موجود ہیں‘ زمین کے پیٹ میں نہیں گئیں!
متعلقہ وزیر نے درست کہا کہ ''یہ میرے بچے ہیں! میں ان کی حفاظت کروں گا‘‘۔ یہ اور بات کہ ابھی تک معاملہ جہاں تھا‘ وہیں پڑا ہے!
وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ کمیٹی بنا دی گئی! کمیٹی نے رپورٹ دی کہ سکول انتظامیہ نے کمیٹی کے ساتھ تعاون ہی نہیں کیا۔ طالبات سے ملاقات کرائی نہ ڈیٹا فراہم کیا۔ کمیٹی کے بقول سکول انتظامیہ کا مؤقف یہ ہے کہ وہ طالبات کی ذاتی معلومات شیئر نہیں کر سکتے۔ کون سی ذاتی معلومات ؟ سب کچھ تو طالبات نے سوشل میڈیا پر پوری دنیا سے شیئر کر دیا ہے۔ افراد کے نام‘ ان کی تصویریں ان کے پیغامات‘ سب کچھ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ یہ ''تعلیم‘‘ ایک عرصہ سے دی جا رہی تھی۔ ان افراد کے نام بھی مبینہ طور پر دیئے گئے ہیں جن سے طالبات فریاد کرتی رہیں مگر وہ کوڑے کرکٹ کو قالین کے نیچے سرکاتے رہے۔
حکومت ایکشن لینا چاہتی تو کمیٹیوں اور رپورٹوں کے سرخ فیتے میں پڑنے کے بجائے ڈائریکٹ ایکشن لے سکتی تھی!
ایک رائے یہ بھی ظاہر ہوئی ہے کہ کچھ قصور طالبات کا بھی ہوگا! یہ رائے ہمارے معاشرے کی مجموعی رویے سے مناسبت رکھتی ہے! قصور آخر میں لڑکی یا عورت ہی کا نکلتا ہے! یہاں تو بڑے بڑے جغادریوں کے وڈیو کلپ موجود ہیں جن میں ان کا ''فلسفہ‘‘ یہ ہے کہ عورت کے ساتھ زیادتی ہو تو اسے خاموش رہنا چاہیے۔ جس معاشرے میں عورت کو‘ آج بھی‘ کم و بیش‘ فرنیچر کا پیس سمجھا جاتا ہے‘ جہاں لڑکے والے آ کر لڑکی کو ''دیکھتے‘‘ ہیں‘ پھر اسے منظور یا رد کرتے ہیں‘ جہاں عورت کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ جہاں جا رہی ہو وہاں سے جنازہ ہی نکلنا چاہیے‘ جہاں پانچ پانچ برس کی بچیوں کو ساٹھ ساٹھ سال کے بڈھوں سے ''بیاہ‘‘ دیا جاتا ہے اس لیے کہ جرم بچیوں کے باپ یا بھائی نے کیا تھا‘ جہاں عورتوں کے چہرے تیزاب سے مسخ کیے جاتے ہیں اور مجرم پکڑے نہیں جاتے‘ جہاں بیٹی جنم دینے پر عورت کو مارا پیٹا جاتا ہے اور طلاق دے کر گھر سے باہر نکال دیا جاتا ہے‘ جہاں بچہ پیدا نہ کرنے کا نقص ہمیشہ عورت ہی میں دریافت کیا جاتا ہے‘ وہاں ایسی رائے کا اظہار اچنبھے کی بات نہیں! بے شک درجنوں طالبات الزام لگا رہی ہوں‘ موجودہ بھی‘ سابق طالبات بھی‘ پھر بھی قصور کا کچھ حصہ لڑکیوں پر ضرور تھوپنا چاہیے! اس لیے کہ یہاں حرفِ آخر مرد ہی کا چلے گا۔ اسی کے منہ سے نکلا ہوا حرف قانون بنے گا!
ایک تعلیم یافتہ معمر خاتون بتا رہی تھیں کہ انہیں کہیں جانے کے لیے شوہر کے علاوہ بیٹے سے بھی اجازت لینا پڑتی ہے! ماں کے قدموں میں جنت ہو گی تو ہو گی‘ ابھی تو ماں پر حکومت بھی بیٹا کرتا ہے اور اس لیے کہ وہ مرد ہے!!
اس ملک کا بچہ بچہ اسلام کے لیے جذباتی ہے! مگر سنتِ رسولؐ پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں! جہانوں کے سردارﷺ اپنا کرتہ دھو رہے تھے۔ دیکھنے والے نے پوچھا کہ آپ پیغمبر ہو کر کپڑے دھو رہے ہیں۔ فرمایا: اس سے پیغمبری کو کیا فرق پڑتا ہے (مفہوم)۔ جوتے گانٹھتے تھے۔ گھر کا کام کرتے تھے۔ ایک عورت آتی ہے۔ کہتی ہے: یا رسول اللہؐ! میں اپنے میاں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ پوچھا کیوں؟ کہتی ہے: مجھے وہ پسند نہیں! آپ مزید کچھ نہیں پوچھتے کہ کیوں پسند نہیں! یہاں عورت سے کوئی پوچھتا ہی نہیں کہ فلاں مرد سے شادی کرنا منظور ہے یا نہیں؟ ذمہ داریاں بھی اس پر ہیں‘ قصور بھی اسی کے سر ہیں۔ ملازمت کرے تب بھی گھر کی ذمہ داریاں نبھائے۔ جیسا بھی ماحول ہو‘ گزر بسر کرے۔ مانا کہ سو فیصد گھروں میں ایسا نہیں۔ خواتین بھی افراط و تفریط کی مرتکب ہوتی ہیں۔ ا یسی ایسی ''بہادر‘‘ خواتین بھی ہیں کہ آتے ہی مرد کو اور اس کے ماں باپ کو ''سیدھا‘‘ کر دیتی ہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر خوش ہونے والے خاندان بھی ہیں۔ بہو کو بیٹی سمجھنے والے سسرال بھی یقینا موجود ہیں‘ مگر اوپر جو کچھ عورت کی حالتِ زار پر کہا گیا ہے وہ اکثریت کو سامنے رکھ کر کہا گیا ہے!
تعلیمی ادارے میں پردے کے پیچھے سے جو کچھ ظاہر ہوا‘ اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ اس پہلو کی تفہیم کے لیے ذرا اس پوسٹ پر نظر دوڑائیے جو کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر وائرس ہو رہی ہے۔
تاریخی ڈرامہ ارطغرل دیکھنا چھوڑئیے اپنے ڈرامے دیکھیے! اپنا کلچر دیکھیے:
ایک چینل لگایا۔ ڈرامے میں رنگ رلیاں منائی جا رہی تھیں۔
دوسرا ڈرامہ لگایا: اس میں بھی ایسا کچھ ہی ہو رہا تھا!
ایک اور چینل لگایا: باس اپنے ملازم کی عزت میں نقب لگا رہا ہے۔
ایک اور چینل لگایا: سسر بیٹے کی حرمت کے پیچھے پڑا تھا۔
ایک اور ڈرامے میں ایک لڑکی کے پیچھے پانچ بھیڑئیے لگے ہیں۔
کیا یہ ہمارا کلچر ہے؟ یا پھر یہ مصنفوں‘ پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے گھروں کا کلچر ہے؟ پاکستان میں رہنے والا عزت دار انسان یہ ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔سوشل میڈیا پر چینلوں اور ڈراموں کے نام بھی درج ہیں؛ تاہم پرنٹ میڈیا کی اپنی حدود و قیود ہیں اس لیے یہ (اصل) نام حذف کر دئیے گئے ہیں۔ یہ کثافت چھوٹی سکرین پر ایک عرصہ سے پھیلائی جا رہی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان ناقابلِ دید ڈراموں میں کام کرنے والے اداکاروں میں ہی سے کچھ ایسے بھی ہیں جو مبینہ طور پر ان گراں بہا طاقت ور تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے مقدس کام پر مامور ہیں! کہاں یہ تصور کہ استاد باپ ہوتا ہے اور اخلاق سکھاتا ہے اور کہاں یہ قیامت کہ ڈراموں میں نا مناسب کردار ادا کرنے والے ایکٹر تعلیمی اداروں میں بھی سرنگیں لگا چکے ہیں!
چلیے‘ اسے استثنائی معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ یقینا ایک آدھ مثال ہی ایسی ہوگی! مگر اصل سوال یہ ہے کہ جب ہر روز چینلوں پر ایسے کھیل دکھائے جائیں گے جن میں محرم اور غیر محرم کی تمیز نہیں ہوگی‘ گھروں کے اندر حرمتیں پامال ہوتی دکھائی دیں گی۔ مقدس رشتوں کی حدود پامال کرنے کے مظاہرے ہوں گے‘ تو نژادِ نو پر کیا اثر پڑے گا؟ ہم کون سی فصل تیار کر رہے ہیں؟ کس نوعیت کے بیج بو رہے ہیں؟ کیا ہم خاندانی نظام کو انتشار کی نذر کرنا چاہتے ہیں؟
کچھ ذمہ داری والدین کی بھی ہے۔ بچوں کو اتنا رسمی اور خوف زدہ نہ کیجیے کہ کسی ایسی قباحت کی شکایت کرتے ہوئے ڈریں اور کئی بار سوچیں۔ ان کے معاملات اور مسائل میں دلچسپی لیجیے۔ بات بات پر ٹوک کر ان کی خود اعتمادی کو مجروح نہ کیجیے۔ دن بھر کی روداد ان سے سنیے اور دلچسپی لے کر سنیے۔ تبھی وہ آپ سے اپنی ہر بات شیئر کریں گے۔
ایک انگریزی معاصر میں ایک خاتون نے ایک اور آپشن بھی بتایا ہے۔ اس کی بیٹی اسی ادارے میں زیر تعلیم تھی۔ اس نے گارڈ کی مشکوک نظروں کی شکایت کی۔ خاتون نے اسے عبابا پہنا کر بھیجنا شروع کر دیا۔ یہاں مذہب کو درمیان میں نہ لائیے۔ اسے حفاظتی ہتھیار کے طور پر دیکھیے۔ کورونا سے بچنے کے لیے ماسک بھی تو پہن رہی ہیں‘ ہوس ناک نظروں سے محفوظ رہنے کے لیے یہ بھی کر دیکھیے۔ اگرچہ یہاں بچائو کی گارنٹی پھر بھی نہیں!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved