تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     06-07-2020

کھچڑی اور اسحاق وردگ کی شاعری

بعض وزرا اپوزیشن کا کام کر رہے ہیں: شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''بعض وزرا اپوزیشن کا کام کر رہے ہیں‘‘ لیکن اپوزیشن کی نالائقی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ پھر بھی ابھی تک حکومت کا بال تک بیکا نہیں کر سکی اور شاید اس انتظار میں ہے کہ سارے وزرا ہی اپوزیشن کا کردار کرنے لگیں تو پھر کچھ ہاتھ پائوں ہلائیں‘ جبکہ ابھی جو اس کے ہاتھ پائوں ہل رہے ہیں تو رعشے کی وجہ سے ہیں اور اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ اس قدر نا اہل اپوزیشن سے ہمارا واسطہ پڑے گا تو شاید ہم اقتدار میں نہ ہی آتے۔ اس لیے اپوزیشن کو قدرے ہمت اور حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس تھکاوٹ اور سست الوجودی کو ترک کرنا ہوگا۔ پیشتر اس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں‘
غائب ہو جاتی ہے: سینٹرسراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم جس چیز کا نوٹس لیتے ہیں‘ غائب ہو جاتی ہے‘‘ اور میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ حکومت نے آج تک میرا نوٹس نہیں لیا‘ ورنہ میں بھی اب تک بساطِ سیاست سے غائب ہو چکا ہوتا‘ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ حکومت سوائے بیان بازی کے کچھ بھی نہیں کر رہی‘ زیادہ سے زیادہ کچھ وزرا کو تبدیل کر دیتی ہے ‘جن کا کوئی خاص قصور بھی نہیں ہوتا؛ اگرچہ میں بھی بالکل بے قصور ہوں‘ کیونکہ بلا ناغہ تقریر کرنا کوئی اتنا بڑا جرم نہیں ۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وہ تینوں
ایک بہت موٹا شخص بالکونی میں بیٹھا بازار کی رونق دیکھنے میں مصروف تھا کہ توازن بگڑنے پر نیچے آ گرا۔ تین دن کے بعد ہسپتال میں اسے ہوش آیا تو وہ بولا: کیا میں زندہ ہوں؟ جس پر نرس نے جواب دیا : تم تو زندہ ہو‘ لیکن وہ تین آدمی اسی وقت اللہ کو پیارے ہو گئے تھے‘ جن پر تم گرے تھے۔
زلزلہ
سیٹھ اور اس کی موٹی بیوی سوئے ہوئے تھے کہ زلزلہ آیا اور بیوی پلنگ سے نیچے گر پڑی۔ بیگم تم زلزلے کی وجہ سے گری ہو یا زلزلہ تمہارے گرنے کی وجہ سے آیا ہے۔ سیٹھ نے کہا۔
واپسی
ڈاکوئوں نے ایک گھر پر واردات کی ‘لیکن انہیں کچھ نہ ملا؛ حالانکہ وہ ایک سیٹھ کا گھر تھا؛ چنانچہ انہوں نے اس کی بیوی کو اپنی گاڑی پر لادا اور سیٹھ سے بولے: اگر تم نے کل تک دو لاکھ روپے فلاں ایڈریس پر نہ پہنچائے تو ہم اسے چھوڑ دیں گے!
زہر دینا
برطانوی پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن کی وزیراعظم چرچل کے ساتھ نہیں بنتی تھی اور وہ اکثر اس پر تنقید کے تندو تیز تیروں کی بوچھاڑ کرتی۔ ایک بار اس نے کہا: مسٹر چرچل‘ اگر میں تمہاری بیوی ہوتی تو تمہیں زہر دے دیتی! بی بی‘ اگر میں آپ کا خاوند ہوتا تو خود ہی زہر کھا لیتا! چرچل نے جواب دیا۔
عمر قید
ایک شخص کے ہاتھوں قتل ہو گیا تو وہ ایک وکیل کے پاس گیا اور اسے منہ مانگی فیس ادا کرنے کے بعد کہا کہ مجھے پھانسی سے بچا لیں اور بیشک عمر قید کرا دیں۔ مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو وہ ہر پیشی پر وکیل کو عمر قید والی بات یاد دلاتا۔ آخر مقدمے کا فیصلہ ہوا اور اسے عمر قید ہو گئی تو اس شخص نے وکیل کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا‘ جس پر وکیل بولا: میں نے بڑی مشکل سے تمہیں عمر قید کروائی ہے‘ ورنہ جج صاحب تو تمہیں ویسے ہی بری کر رہے تھے!
ناقابلِ اعتبار
ایک چور ایک صاحب کے گھر میں واردات کی غرض سے داخل ہوا تو اتفاق سے وہ جاگ رہے تھے۔ صحت مند آدمی تھے‘ انہوں نے چور کو دبوچا اور اسے کہا کہ چلو میں تمہیں تھانے میں پولیس کے سپرد کرتا ہوں۔ راستے ہی میں تھے کہ چور بولا: صاحب! آپ کے گھر میرے جوتے رہ گئے ہیں‘ اگر اجازت دیں تو جا کر لے آئوں! اس پر ان صاحب نے کہا کہ جائو لے آئو‘ لیکن جلدی آنا۔ کچھ دنوں کے بعد وہی چور رات کے وقت انہی صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ اس وقت پھر جاگ رہے تھے‘ جنہوں نے چور کو پہچان لیا اور اسے لے کر تھانے کی طرف روانہ ہوئے۔ ابھی راستے ہی میں تھے کہ چور بولا: جناب! آپ کے کمرے میں میری جرابیں رہ گئی ہیں‘ اگر اجازت دیں تو لے آئوں؟ جس پر وہ صاحب بولے: تم ایک پرلے درجے کے جھوٹے شخص ہو‘ پچھلی بار بھی تم واپس نہیں آئے تھے‘ اس لیے تم یہیں ٹھہرو‘ میں جا کر لے آتا ہوں! وہ صاحب یہ کہہ کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
دوسری بلّی
ایک چور واردات کی غرض سے ایک بار اپنے شاگرد لڑکے کو بھی ساتھ لے گیا ‘تا کہ اس ہنر میں وہ بھی طاق ہو سکے۔جب وہ اس کمرے میں داخل ہوئے‘ جس میں مالک مکان خود سو رہا تھا۔ اندھیرے میں چور کا پائوں کسی چیز سے ٹکرایا تو مالک مکان کی آنکھ کھل گئی۔ کون ہے؟ وہ بولا: جس پر چور نے بلی کی آواز نکالی‘ جسے سن کر وہ دوبارہ سو گیا۔ کچھ دیر کے بعد لڑکے کے پائوں سے کوئی چیز ٹکرائی تو وہ مالک مکان بولا: کون ہے؟ تو لڑکا بولا: ''دوسری بلی‘‘۔
اور‘ اب پشاور سے اسحاق وردگ کی شاعری:
رئگانی کا عارضہ ہے مجھے
زندگی ایک حادثہ ہے مجھے
اس خرابے سے کب گلہ ہے مجھے
اپنا ہونا ہی مسئلہ ہے مجھے
ضمنی کردار ہوں کہانی کا
اپنی تقدیر کا پتا ہے مجھے
مجھ کو اندر کی کچھ خبر ہی نہیں
اور باہر کا سب پتا ہے مجھے
میری ہی آنکھ کے وسیلے سے 
خواب اندر سے دیکھتا ہے مجھے
کتنے چہرے اٹھا کے پھرتا ہوں
آئینہ پھر بھی جانتا ہے مجھے
اک خوشی سُود پر ملی تھی کہیں
اس کا قرضہ اتارنا ہے مجھے
یونہی خاموش میں نہیں بیٹھا
شور اندر کا ٹوکتا ہے مجھے
آج کا مطلع
لگی اچھی بھی ہمیں کارگزاری اپنی
تنگ پُلیا سے جہاں کار گزاری اپنی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved