دنیا میں موجود ہر انسان کے ساتھ کچھ دن ایسے وابستہ ہوتے ہیں کہ وہ عمر کے جس حصے میں بھی چلا جائے‘ ا س کی یاد‘ دکھ اور خوشی کے احساسات اسے یاد رہتے ہیں ۔لوگوں کو اپنی اولاد‘ماں باپ کی اچانک رحلت یا کسی بڑے ذاتی حادثے کی گھڑیاں بھلائے نہیں بھولتیں تو کچھ لوگوں کو عالمی اور ملکی سیا سی تاریخ سے وابستہ کچھ دن نہیں بھولتے۔ اسی طرح مجھے بھی کچھ دن‘ کچھ لوگ یاد رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں‘ اپنی جوانیاں‘ اپنے بچوں کی خوشیاں‘ اپنے ماں باپ کی چاہتیں و شفقتیں ‘وطن کی خاطر قربان کر دی ہیں‘ ایسے لوگوں کو کیسے بھولا جا سکتا ہے‘ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن ِمجید فرقان ِحمید میں ہم سب کو خبردار کر دیا کہ دیکھو‘ وہ جو میری راہ میں مارے گئے ہیں ‘ان کو مردہ مت کہو‘ وہ زندہ ہیں اور ہم انہیں رزق دے رہے ہیں‘ لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔
آج جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے شہید کیپٹن کرنل شیر خان کا ہنستا‘ مسکراتا چہرہ ہے۔ پاکستان کے شیر جوانوں اور بہادروں کی دھرتی ضلع صوابی کے گائوں نواں کلی کا وہ پشتون جوان جو معرکہ کارگل میں اپنی جان وطن کی خاطر اس طرح قربان کر گیا کہ اس کی شجاعت کا اعتراف دشمن کے جرنیلوں نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ اگر یہ نوجوان ایک دن مزید ہمارے سامنے ڈٹا رہتاتو شاید ہم کارگل واپس لینے کی سب امیدیں کھو بیٹھتے‘ وہ تو شکر ہے کہ اس کا ایمو نیشن ختم ہونے لگا تو اس نے زندہ گرفتار ہونے کی بجائے چوٹی سے نیچے اتر کر بھارت کی سکیورٹی فورسز کی پوسٹوں کو اس لئے نشانہ بنانا شروع کر دیا کہ قید ہونے کی بجائے شہادت کا رتبہ حاصل کر سکے۔
پانچ جولائی کو کارگل میں اپنی جان وطن پر قربان کرنے والے کیپٹن کرنل شیر خان نواں کلی کے چھوٹے سے گائوں میں1970ء میں پیدا ہوئے۔ کرنل شیر خان کا نام ‘ان کے دادانے جو1948 ء میں جہادِ کشمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں شامل تھے‘ انڈیا کے ساتھ اس جنگ میں پاکستانی فوج کے ایک کرنل شیر خان کے نام پر رکھا تھا‘ جن کی بہادری اور شجاعت کے وہ چشم دید گواہ تھے۔جس طرح جہادِ کشمیر میں کرنل شیر خان کے دادا نے اس افسر کو دشمنوں سے لڑتے دیکھا‘ وہ ان کے دل میں گھر کر گیا تھا اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا یہ بیٹا اُس کرنل شیر خان کی طرح اپنے وطن اور کشمیری بھائیوں کی مدد کرتے ہوئے دشمن کا مقابلہ کرے اور پھر باپ اور دادا کی طرف سے اپنا نام کیپٹن کرنل شیر خان آف نواں کلی‘ کرنل شیر خان کے نام کی لاج رکھتے ہوئے ٹھیک29 سال کی عمر میں پانچ جولائی 1999ء کو کارگل کے معرکہ میں یہ بہادر افسر‘ جس کا تعلق12 ناردرن لائٹ انفینٹری سے تھا ‘شہادت کے بلند مرتبہ پر فائز ہو کر نشان ِحیدر کا اعزاز پا گیا‘ جس پر پاکستان‘-12 NLI اورنواں کلی کے لوگ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فخر کرتے رہیں گے۔
انڈین آرمی کے192 پہاڑی بریگیڈ کے بریگیڈیئر ایم پی ایس باجوہ جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں‘ وہ اپنی یادداشتوں کی ایک ڈائری میں لکھتے ہیں کہ اس ایک افسر(کیپٹن کرنل شیر خان ) نے ہماری چھ کمپنیوں کو اس طرح بھگایا کہ لگتا تھا کہ وہ پورے ایک بریگیڈ کے ساتھ ہمارے مقابلے پر ہے‘ لیکن ہم یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اس کے پاس کل نفری20 جوانوں پر مشتمل تھی اور اسلحہ بھی نہ ہونے کے برا بر تھا‘ کیونکہ وہ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے انڈین آرمی کی دو دو کمپنیوں کا اکیلا مقابلہ کر رہا تھا۔
بھارت نے سرکاری طو رپر تسلیم کیا ہے کہ اس کے527 افسرا ور جوان معرکہ کارگل میں ہلاک ہوئے تھے ۔ کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کی گواہی کوئی او رنہیں ‘بلکہ کرنل شیر خان سے ٹائیگر ہل واپس لینے کی کمانڈ کرنے والے 192 مائونٹین بریگیڈ کے بریگیڈئر ایم پی ایس باجوہ تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں حکم ملا کے اگلے چوبیس گھنٹوں میں ٹائیگر ہل پاکستان سے واپس لو‘ جس پر انہوں نےGrenadiers-18کوا س کا ٹاسک سونپا‘ جو اس سے چند روز پہلے تولو لانگ کی چوٹی واپس لینے کے معرکے میں حصہ لینے کے بعد اپنے60 جوانوں کی نفری سے محروم ہو چکی تھی اور اس کی مدد کرنے کیلئے8th سکھ رجمنٹ پہلے سے ہی ٹائیگر ہل پر بیٹھے دشمن کا مقابلہ کر رہی تھی اورا س سکھ رجمنٹ کے بھی25 جوان مارے جا چکے تھے‘ جس کی وجہ سے کیپٹن کرنل شیر خان انڈین آرمی کیلئے دردِ سر بن چکا تھا۔
بریگیڈیئر باجوہ لکھتے ہیں کہ گرینڈیئرز 18کے ساتھGhatak Platoon اور تین دوسری کمپنیوں کو ٹائیگرز ہل کے جنوب مغرب کی طرف سے اور ایک کمپنی کو مشرق کی جانب سے حملے کیلئے بھیجا ساتھ ہی آٹھ سکھ رجمنٹ کے کمانڈنگ افسر کو جس کے پاس50 افسروں اور جوانوں پر مشتمل نفری تھی‘ سختی سے حکم دیا گیا کہ اس چوٹی کے جنوب مغربی حصوں کی طرف سے ٹائیگر ہل پر بیٹھے ہوئے دشمن کی مدد کیلئے کسی بھی قسم کی کمک جس میں اسلحہ اور نفری شامل ہے ‘ کو اوپر آنے سے روکیں ۔ چار جولائی کو کیپٹن بلوان سنگھ کی سربراہی میں انڈین فوج ٹائیگر ہل کے ایک حصے پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو ئی تو ہمیں یہ جان کر حیرانی ہوئی کہ بھارت کے پورے ایک بریگیڈ کا مقابلہ کرنے کیلئے ٹائیگر ہل پر پاکستانی فوج کے صرف 20 کے قریب افسرا ور جوان ہیں ‘جو ہمارے لئے اس وقت بھی نا قابل ِیقین تھا ‘جب مجھے یہ اطلاع ملی ‘کیونکہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا ‘اس لیے کہ اس چوٹی پر بھارت اپنی ایئر فورس کی مد د سے بھی بمباری جاری رکھے ہوئے تھا۔ کیپٹن بلوان سنگھ نے جب ایک ڈھلان پر قبضہ کیا تو کوئی ایک گھنٹے بعداچانک ٹائیگر ہل کے جنوب مغرب کی جانب سے اس پر زبردست حملہ ہوا جس پر ایک وقت ایسا آیا کہ سب کو یک دم پیچھے کی جانب ہٹنا پڑا۔ بریگیڈئر ایم پی ایس باجوہ لکھتے ہیں کہ صورت ِحال کا دوبارہ جائزہ لینے کے بعد میں نے سکھ رجمنٹ8 کی52 جوانوں کی نفری‘ جس کے ساتھ دو میجر اور چار جے سی اوز تھے‘ کو حکم دیا کہ تم آگے بڑھ کر انڈیا گیٹ اور ہلمٹ چوٹیوں پر قبضہ کرو۔ 20 فوجیوں پر مشتمل یہ کمزور سی نفری ہماری دو کمپنیوں کا کس طرح دیر تک مقابلہ کر سکتی تھی؟ جیسے ہی ہمارے جوان آگے بڑھے‘ اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ دو پاکستانی افسروں کی جانب سے اس شدت کا حملہ ہوا کہ لگا کہ ہم پر کوئی قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور پہلے ہی حملے میں ہمارے تین صوبیدار ہلاک ہو گئے اور ہماری آرمی کی ان د وکمپنیوں کو اپنی جانیں بچانے کیلئے واپس جانا پڑا۔ اس حملے کے نتیجے میں تین بھارتی صوبیدار‘ دو افسر اورپندرہ جوان ہلاک‘ جبکہ18 سپاہی سخت زخمی ہو گئے۔ ان زخمیوں میں انڈین آرمی کا سپاہی ستپال سنگھ بھی شامل تھاجس نے اطلاع دی کہ ایک پاکستانی افسر ہم سب پر فائرنگ کر رہا ہے اور اپنے ساتھ چند افراد کی نفری سے حملے کررہا ہے‘ جس پر میں نے فیصلہ کیا کہ اس افسر کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جائے‘ جس پر تین اطراف سے پچاس پچاس انڈین فوجیوں نے کیپٹن خان کی لوکیشن کو نشانہ بنانے کیلئے پھر سے چڑھائی شروع کر دی‘ جس سے فرنٹ پر لڑنے والے ان کے تین سپاہی مار دیئے گئے۔ ہمارے فوجیوں کو نشانہ بنانے کیلئے جیسے ہی کیپٹن خان آگے بڑھا ‘اسے نشانے پر لے لیا اور اس طرح پاکستان کے اس افسر ( کیپٹن کرنل شیر خان)کی لاش ا ور ہل ٹاپ بھارت کے قبضے میں آگئے۔ کارگل جنگ کے دوران بھارت کے وائس چیف آف آرمی سٹاف جنرل پدمنا باہن کی ایک رپورٹ کے مطابق سچ تو یہ ہے کہ ہم دشمن کے زیر قبضہ آنے والی کارگل کی تمام چوٹیاں واپس لینے میں نا کام رہے‘‘۔جنرل پدمنا باہن جو بعد میں بھارت کے آرمی چیف مقرر ہوئے‘ ان کا ڈیفنس کیبنٹ کمیٹی کو دیا جانے والا مذکورہ تحریری جواب کارگل میں کیپٹن کرنل شیر خان کی بہادری کا واضح ثبوت ہے‘ نیز اسرائیل کے بھارت میں سفیر مارک سوفر کا وہ مشہور انٹرویو بھی ذہن نشین رہے کہ ہم نے دوستی کا حق ادا کر کے کارگل بھارت کے حوالے کرنے میں جو کردار ادا کیا‘ وہ راز ہی رہے گا ۔