تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     06-07-2020

فرسودہ نظامِ علاج …(1)

فرض کریں کہ آپ کے پاس کوئی بہت قیمتی ڈیوائس ہے ۔ آپ یورپ سے ایک بہت قیمتی گھڑی خرید کر لائے ہیں ‘ جو کہ آپ کی نبض پہ چلتی ہے یا اس میں ہیرے لگے ہوئے ہیں یا آپ کے پاس کروڑوں روپے مالیت کی ایک گاڑی ہے ‘ جو آپ نے خصوصی طو ر پر امریکہ سے درآمد کی ہے ‘ پاکستان میں جس کے مکینک بہت کم ہیں یا آپ کے پاس ایسی عینک ہے ‘جس میں ہیرے لگے ہوئے ہیں ‘ اگر ان چیزوں میں کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو آپ کیا گلی میں کھڑے ہوئے کسی ایرے غیرے کا مشورہ قبول کریں گے یا اپنی اس قیمتی چیز کو اس کے حوالے کریں گے کہ وہ جھاڑ پھونک کر کے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرے ۔ کبھی بھی نہیں۔ آپ یہ کہیں گے کہ اس کو کیا پتا میری اس قیمتی چیز کی مالیت کا۔ اسے تو صرف وہ شخص ٹھیک کر سکتاہے ‘ جس نے اس کام کی باقاعدہ تعلیم اور تربیت حاصل کی ہو ۔ کبھی آپ اپنی ہیرے لگی ہوئی گھڑی ایک لوکل گھڑی ساز کے حوالے کریں گے ؟ کبھی بھی نہیں ‘ لیکن آپ کا جسم دنیا کی وہ قیمتی ترین چیز ہے ‘ جس کی قیمت اربوں ڈالر میں بھی لگائی نہیں جا سکتی۔ جب آپ کے جسم میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو آپ گلی میں نکلتے ہیں‘ڈارون جیسی شکل والا جو بھی بابا آپ کو پھکی بیچتا ہوا نظر آتاہے ‘ آپ اپنا یہ قیمتی جسم اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ لوتجربے کرو‘ اس پہ ۔ 
ابھی مہینہ پہلے کا واقعہ ہے ۔ ایک قریبی عزیز جو پنجاب اسمبلی کے رکن ہیں ‘ انہیں دل کی تکلیف ہوئی ۔ ہسپتالوں کے چکر لگے ‘ طبیعت سنبھل نہ سکی ‘ ٹیسٹ ہوئے تو دو تین چیزیں تشویشناک تھیں ‘ جو ادویات سے بہتر نہیں ہو رہی تھیں ۔ لاہور میں اپنے والد اور ان کے کئی کزنز کے ساتھ ان سے ملاقات ہوئی ۔ بتانے لگے کہ فلاں جگہ ایک حکیم کے پاس گیا‘ اس نے دوا دی‘ میں اب بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ کسی نے پوچھا : دوا کون سی دی۔ میرے انکل سینیٹر طارق چوہدری بتانے لگے کہ اس طرح کے لوگ دوا کا نام نہیں بتاتے۔ طارق صاحب نے مزید بتایا کہ وہ شخص نبض پکڑ کر بیماریاں بتا رہا تھا۔ میرے بیمار انکل کہنے لگے کہ اب میں اپنے آپ کو صحت مند محسوس کر رہا ہوں ۔ ایک تایا کہنے لگے کہ نبض سے پتا چل جاتاہے ایسے لوگوں کو۔ میں سنتا رہا ۔ علم کے جو چند چھینٹے مجھ پر پڑے ہیں ‘ اس زمانے کے بہت بڑے استاد کے فضل سے‘ ان کی روشنی میں ‘ میرا علم یہ بتاتا ہے کہ نبض میں اس طرح کی کوئی انفارمیشن ہوتی ہی نہیں ۔ صرف دل کے بارے میں مختصر سی معلومات ۔ اگلے ہفتے چکر لگا تو ایک کزن نے بتایا کہ ان کودوبار دل کی تکلیف ہوئی ہے‘ بلکہ شاید دورہ پڑا ہے ۔ دو ہفتے مزید گزرے تو معلوم ہوا کہ انہیں دل کا آپریشن کروانا پڑا ۔ سینیٹرطارق چوہدری صاحب نے یہ مجھے بتایا ‘ جو کہ فیصل آباد سے ان کی عیادت کے لیے لاہور تشریف لا رہے تھے ۔ سرجری کون کرتاہے ‘ظاہر ہے کہ ایک کوالیفائیڈ سرجن ۔ 
صحت کی ایک سائنس ہے ‘ اسے وہ لوگ جانتے ہیں ‘ جنہوں نے تیس تیس سال تک اس کی تعلیم حاصل کی ۔ وہ سب بھی برابر نہیں ہوتے۔ ان میں سے کسی کو اللہ نے زیادہ علم دیا ہوتاہے ‘ کسی کو کم۔ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں ‘ جو غیر معمولی مشقت کی وجہ سے ڈگری تو حاصل کر لیتے ہیں‘ لیکن وہ اتنے اچھے ماہر نہیں ہوتے ‘ پھر بھی بنیادی چیزوں کا علم تو ان کے پاس ہوتا ہی ہے ‘ اس لیے وہ انسانی صحت کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ کبھی نہیں کرتے ۔ 
ہربل چیزیں اچھی ہیں۔ ان کی مناسب مقدار کو روزمرہ خوراک کا حصہ بنا لینا چاہیے‘ لیکن ہمارے ہر عضو کی ایک عمر ہوتی ہے ۔ دھڑکتے ہوئے زندہ خلیات کی شکل میں اللہ نے جو ہمارا جسم تخلیق کیا ہے ‘ یہ کوئی معمولی شے نہیں ‘ جسے انسان ان پڑھ لوگوں کے حوالے کر دے ۔ زندہ خلیہ تو ایسی ٹیکنالوجی ہے ‘ جس طرح کی ٹیکنالوجی بھی بن ہی نہیں سکتی ۔ باقی ‘اگر مریض کو اچھا محسوس کروانا ہی سب کچھ ہے تو پھر ماڈرن میڈیسن تو جاں بلب مریض کو ڈانس کرنے کی توانائی مہیا کر دے ۔ اس کا فائدہ کیا‘ اگر اگلے دن اس کا جنازہ اٹھانا پڑے ۔ اس دن میں خاموشی سے اپنے چچائوں اور تایائوں کی باتیں سنتا رہا۔ ان میں ایک سے ایک قادر الکلام شخصیت موجود ہے ۔ ایسا ایسا صاحب ِمطالعہ کہ شاید ہی کہیں اور موجود ہو۔ حکیموں پر یقین بچپن میں ہمارے ذہنوں میں اتار دیا گیا تھا اور بچپن کی تعلیمات سے باہر شاذ ہی کوئی نکلتاہے ۔ 
میرے پیٹ پر چار نشان موجود ہیں ۔ میری بیٹی جب بھی انہیں دیکھتی ہے تو کہتی ہے ؛بابا پیم۔ وہ painکو پیم کہتی ہے ۔ ستمبر2019ء میں ڈاکٹر عامر نثار دبئی سے لاہور تشریف لائے تھے ۔ میرے معدے اور خوراک کی نالی کے سنگم پر لگا ہوا ڈھکن LESتیرہ سال پہلے خراب ہو گیا تھا۔ تیرہ سال تک خوراک دن میں تیس چالیس دفعہ معدے سے واپس منہ میں آتی تھی ۔ تیزاب نے ٹانسلز خراب کر دئیے اور وہ نکلوانا پڑے ۔ ڈاکٹر عامر نثار صاحب نے معدے کا اوپر والا حصہ خوراک کی نالی پر لپیٹ کر اس میں ٹانکے لگا دئیے۔ تیرہ سال بعد میں اس قابل ہوا کہ اپنی مرضی سے سو سکوں اور اپنی مرضی سے اٹھ سکوں ۔بہت سے لوگ مجھے ملے‘ جن کے پاس دیسی خوراکوں کی شکل میں اس خرابی کو ٹھیک کرنے کے نادر نسخے موجود تھے۔ مسئلہ صرف ایک ہی تھا کہ وہ خوراک کی نالی‘ LESاور معدے کی شکل (Diagram)بنانے کے قابل بھی نہیں تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ اس کی شکل بھی نہیں بنا سکتے تو پھر اس کا علاج کیونکر کر پائیں گے ؟ 
ڈاکٹر عامر نثار نے میری جو سرجری کی‘ اس میں انہوں نے دو چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے کیمرے میرے جسم میں ڈالے اور دو سوراخوں سے اوزار ڈالے اور یہ پیچیدہ آپریشن کر ڈالا۔میں اس وقت مزے سے سو رہا تھا ۔ مجھے پتا اس وقت چلا‘ جب کئی گھنٹے بعد میری آنکھیں کھلیں ۔یہ ہے؛ میڈیکل سائنس کی معراج ! ڈاکٹر عامر نثار کے ہاتھ کی ایک غلط حرکت مجھے زندگی بھر کے نقصان سے دوچار کر سکتی تھی‘ لیکن اللہ نے انہیں اس کی مہارت دی ہے ۔ ان کی زندگی کے کئی عشرے اسے سیکھنے میں بسر ہوئے تھے ۔اس سرجری کے بعد میں خود میں ایسی ترنگ محسوس کرتا ہوں ‘ جیسی تیرہ سال پہلے مجھے میں ہوا کرتی تھی ۔ ایک دوست نے لکھا کہ اسے معدے کی شدید تیزابیت سے واسطہ رہا۔ کھانے کے بعد قے ہو جاتی تھی۔ ادویات سے آرام نہیں آسکا ‘ پھر ملٹھی ‘ سونف اور ہلدی کا آمیزہ استعمال کرنے سے صحت یابی ہوئی ۔ بہت اچھی چیزیں ہیں ‘ ضرور استعمال کریں‘ لیکن میرے ایک عزیز ہیں فیصل آباد میں میاں طارق صاحب ! فیس بک پر میری فرینڈ لسٹ میں موجود ہیں ۔ انہیں بھی بالکل یہی علامات (symptoms) تھیں۔ کھانے کے بعد درد اور قے‘ وغیرہ۔ 
مسئلہ صرف یہ تھا کہ یہ تیزابیت نہیں تھی‘ بلکہ بڑی آنت کا کینسر تھا۔ شوکت خانم میموریل ہسپتال میں ڈاکٹرز نے ان کی بڑی آنت کا کینسر زدہ حصہ نکال دیا ۔ بڑی آنت کا ایک ٹکڑا نکالے جانے کے بعد اس کی لمبائی کم ہو گئی ‘ لہٰذا اس کا روٹ دوبارہ سے سیٹ کیا گیا‘ اسے گول دائرے میں گھومنے کی بجائے کچھ سیدھا کر دیا گیا ۔ یہ ہوتا ہے ‘علاج !اگر وہ بھی ملٹھی‘ ہلدی اور سونف پر اکتفا کرتے تو آج شاید ہم میں موجود نہ ہوتے ۔ کہاں شوکت خانم ہسپتال کا ایک سرجن اور کہاں وہ بابا جی ‘ جنہوں نے ساری زندگی کبھی لیبارٹری میں قدم بھی نہیں رکھا۔ قرآن کہتاہے کہ جو شخص علم رکھتاہے اور جو شخص علم نہیں رکھتا‘ وہ دونوں کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ ایک بندے نے پڑھا ہے سب کچھ ۔اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ سرجریز کی ہیں ۔الغرض کہنے کا مطلب ہے کہ میڈیکل سائنس میں ہزار قسم کے ٹیسٹ ہیں ‘ جن کا رزلٹ پڑھنے سے مریض کا جسم معالج کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہوتاہے ۔ کہاں وہ معصوم لوگ ‘ جو سٹیرائیڈ ز کی بارش کر کے اپنے مریضوں پہ وقتی خوشیاں نازل کر رہے ہوتے ہیں ۔ وقت آگیا ہے ۔اس فرسودہ نظامِ علاج کو اب منہ کے بل ڈھے جانا ہے ۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved