تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     07-07-2020

کشمیری بچے کے آنسو اور ہماری مرثیہ گوئی

اللہ نے مجھے بڑا رقیق القلب بنایا ہے۔ گھر کے اندر یا گھر سے باہر روتا ہوا بچہ دیکھ لوں تو میں بے چین ہو جاتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ بچے کی پریشانی معلوم کروں اور اس کا مداوا کروں۔ یا بچے کا مطالبہ سنوں اور اسے پورا کروں مگر میری قسمت میں ایک ایسی تصویر دیکھنا بھی لکھا تھا کہ جس میں کشمیری بچہ اپنے نانا کی تازہ بہتے ہوئے خون سے تربتر لاش کے اوپر بیٹھا ہوا آنسو بہا رہا ہے۔ بعض تحریریں اور تصویریں ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر آپ کو چپ لگ جاتی ہے‘ آپ کی سوچ مقفل ہو جاتی ہے‘ آپ کے جذبات کسی فوری ردّعمل کے اظہار سے محروم ہو جاتے ہیں اور آپ غم کی گہری‘ اندھیری وادی میں کہیں دور اُتر جاتے ہیں۔ دو تین روز تک میری یہی کیفیت رہی۔ اس دوران میں ذہن سے اس تصویر کو جھٹکنے کی جتنی کوشش کرتا یہ تصویر مجھے اتنا ہی ہانٹ کرتی رہی۔ کبھی میں اس بے بسی کے بارے میں سوچتا جس کا سامنا بشیر احمد کو مقبوضہ کشمیر کی بستی سوپور میں کرنا پڑا کہ جہاں ٹھیکیدار بشیر اپنے نواسے عیاد کو گھر سے اپنے ساتھ اپنا زیر تعمیر پراجیکٹ دکھانے اور اسے سیر کرانے لے کر نکلا تھا۔ بچہ بڑا ایکسائیٹڈ اور خوش تھا۔ مگر راستے میں بھارتی پولیس نے بچے کے نانا کو گاڑی سے اتار کر گولی مار دی اور پھر اپنی شیطانی جبلّت کی تسکین کے لیے نانا کی لاش پر بیٹھے روتے ہوئے بچے کی تصاویر بھی بناتے رہے۔ یہ تصاویر میڈیا پر وائرل ہوئیں تو دنیا میں کہرام بپا ہو گیا۔
دروغ گوئی اور کذب بیانی کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے والی مودی سرکار نے اس ظلم کو پولیس مقابلہ قرار دیا اور یہ کہا کہ پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں راہگیر بشیر احمد مارا گیا جبکہ اس کا نواسا محفوظ رہا۔ سب سے پہلے تو تین سالہ عیاد نے بھارتی حکومت کے جھوٹ کا پردہ چاک کیا اور میڈیا والوں اور تفتیشی پولیس کو بتایا کہ اس کے نانا کو گاڑی سے اتار کر ٹھاہ ٹھاہ کر کے مارا گیا۔ گزشتہ روز ایک ویڈیو کلپ میں شہید بشیر احمد کے بھائی نذیر احمد نے اپنے گھر آئے ہوئے پولیس افسران کے سامنے بڑی وضاحت سے بتایا کہ دوطرفہ فائرنگ سو دو سو میٹر دور سے کی جاتی ہے مگر بشیر احمد کے سینے سے آر پار ہونے والی گولی کا زخم اتنا گہرا ہے کہ صاف پتا چلتا ہے کہ گولی زیادہ سے زیادہ دو میٹر کی دوری سے ماری گئی ہے۔ اس پر افسران نے کہا آپ ''کشمیری‘‘ پولیس سے کیا چاہتے ہیں؟ نذیر احمد نے جواب دیا کہ ہم صرف اور صرف انصاف چاہتے ہیں۔ مگر سارا کشمیر ہی نہیں سارا عالم جانتا ہے کہ بھارتی حکومت کے پاس کشمیریوں کے لیے انصاف ناپید ہے۔ نذیر احمد نے اس ظلم صریح کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف جانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ 
دنیا میں کبھی کبھی بعض ایسی تصاویر منظرعام پر آ جاتی ہیں جو نہ صرف ٹاپ ٹرینڈ بن جاتی ہیں بلکہ ضمیر عالم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ اپنے نانا کی لاش پر روتے ہوئے تین سالہ کشمیری بچے کی تصویر اس وقت ساری دنیا میں ٹاپ ٹرینڈ بن چکی ہے۔ دنیا کو نام نہاد ''سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کا مکروہ چہرہ دکھانے اور میدانِ صحافت میں بہادری و جرأت مندی کی نئی داستانیں رقم کرنے میں ممبئی میں مقیم 36 سالہ بھارتی شہری رعنا ایوب ان دنوں پیش پیش ہیں۔ رعنا ایوب واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز اور گارڈین وغیرہ میں لکھتی ہیں۔ نڈر رعنا ایوب بڑے جرأت مندانہ تحقیقی ٹویٹس کے ذریعے دنیا کو کشمیری بچے کے بیانات اور کشمیر میں ہونے والے ظلم کے واقعات سے باخبر کر رہی ہیں۔ انہیں انتہا پسند ہندوئوں نے جان سے مارنے اور جنسی زیادتی کرنے اور سبق سکھانے کی دھمکیاں دی ہیں مگر رعنا ایوب چٹان بن کر کھڑی ہیں۔ اس وقت ساری دنیا میں عام شہریوں کے علاوہ یو این او کے سیکرٹری جنرل اور انسانی حقوق کی بہت سی تنظیموں نے بھارت کے اس غیرانسانی اور شیطانی فعل کی بھرپور مذمت کی ہے۔
ایک ایسی ہی تصویر 1993ء میں منظرعام پر آئی تھی۔ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے فوٹوگرافر کیون کارٹر 1993ء میں صحافی کیمرہ مینوں کی ''بینگ بینگ کلب‘‘ کے کئی ساتھیوں کے ساتھ قحط زدہ سوڈان کی تصویریں لینے ہوائی جہاز سے وہاں پہنچا۔ ایک روز وہ شدید قحط کی زد میں آئے ہوئے ایک گائوں کے مفلوک الحال لوگوں کی تصاویر بناتا رہا۔ شام کے قریب کیون تھکن سے چور گائوں سے باہر نکلا تو اس نے جھاڑیوں کے قریب ایک تین چار سالہ ننگ دھڑنگ بچے کو دیکھا جو بھوک کی شدت سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ یہ ڈھانچہ گرتا پڑتا کھانے کی تلاش میں سرگرداں تھا کہ وہ نڈھال ہو کر گر پڑا۔ جونہی اس نے بچے کی تصویر لی تو ایک گدھ مرتے ہوئے بچے کے سامنے آکر اس امید پر بیٹھ گیا کہ بچہ دم توڑے گا تو وہ اس ڈھانچے پر ٹوٹ پڑے گا اور اپنی بھوک مٹائے گا۔ فوٹوگرافر نے گدھ سمیت اس منظر کی بھی کئی تصاویر اتاریں۔ فوٹوگرافر کو بتایا گیا تھا کہ بچے کو ہاتھ نہیں لگانا کیونکہ اس سے بیماری لگ جانے کا خدشہ تھا۔ فوٹوگرافر کے اندر ایک زبردست کشمکش شروع ہو گئی کہ اگر وہ بچے کو گدھ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو یہ غیرانسانی فعل ہو گا۔ اس نے گدھ کو اڑانے کی بہت کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ اس نے 20 منٹوں تک انتظار کیا مگر بے سود۔ کیون نے سگریٹ سلگایا‘ خدا سے آہ و زاری کی اور روتا رہا۔ بالآخر وہ بچے کو چھوڑ کر واپس آ گیا۔ بعدازاں جب یہ تصویر نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی تو اسے پلٹزر پرائز کا حقدار گردانا گیا جو فوٹوگرافروں کے لیے بہت بڑا اعزاز شمار ہوتا ہے۔ تاہم ساری دنیا میں کیون پر شدید تنقید ہوئی کہ اس نے ایک مرتے ہوئے بچے کی مدد کیوں نہ کی۔ جولائی 1994ء میں باضمیر اور صاحبِ احساس فوٹوگرافر کیون کارٹر نے خودکشی کر لی کہ اس نے ایک انسان کی زندگی بچانے کی کوشش کیوں نہ کی۔ کیا گجرات کے قصاب اور کشمیریوں کے قاتل نریندر مودی سے آپ ایسی توقع کر سکتے ہیں کہ وہ دنیا کی لعنت ملامت کا اثر قبول کرتے ہوئے اظہارِ ندامت کریں گے ؟مودی تو خیر کیا کریں گے کیا نہیں کریں گے یہ ہمارا مسئلہ نہیں‘ ہمارا مسئلہ تو ہمارے حکمران ہیں کہ جو کشمیریوں کو ایک بند گلی میں دھکیل کر اور نریندر مودی کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اور انہیں بھول کر خوش بیٹھے ہیں اور اپنے روزمرہ کے کھیل تماشے میں مشغول ہیں۔
مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے ہمارے سابق حکمرانوں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کئی اقدام کیے۔ ایوب خان نے 1965ء کی جنگ لڑی‘ جنرل ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو دھمکی بھی دی اور کرکٹ ڈپلومیسی سے بھی کام لیا۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے سیاسی و سفارتی ہنر آزمایا اور پہلے اٹل بہاری واجپائی کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ واجپائی گرم جوشی سے آئے۔ دوطرفہ امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ میاں نواز شریف کے تیسرے دورِ حکومت میں نریندر مودی لاہور آئے اور مل جل کر رہنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ ہمارے موجودہ حکمران نہ جنگ کی بات کرتے ہیں‘ نہ کشمیریوں کی عملی مدد کا اعلان کرتے ہیں‘ نہ سفارتی و سیاسی آپشن استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ نہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا کوئی چینل استعمال کرتے ہیں‘ نہ دنیا کو بھارتی مظالم کے خلاف متحرک کرتے ہیں۔ کشمیر سے عمران خان صاحب کے لاتعلق ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ انہوں نے شہریار آفریدی کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا دیا ہے۔ 
میرے پاکستانیو! اور میرے آزاد کشمیری بھائیو! یاد رکھو محض رونے دھونے اور مرثیہ گوئی سے کشمیر آزاد ہو گا اور نہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved