تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     07-07-2020

کاک ٹیل!

جنوبی پنجاب کے لوگوں کو انصاف
اُن کی دہلیز پر ملے گا:شاہ محمود قریشی
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''جنوبی پنجاب کے لوگوں کو انصاف اُن کی دہلیز پر ملے گا‘‘ اور جن لوگوں کی دہلیزیں نہیں ‘ وہ ہماری ہاؤسنگ سکیم کا انتظار کریں ‘جہاں پچاس لاکھ گھروں کے ساتھ پچاس لاکھ دہلیزیں بھی ہوں گی؛ اگرچہ پہلے یہی اعلان کئی حکومتوں کی طرف سے ہو چکا‘ لیکن کسی کی دہلیز پر انصاف نہیں پہنچایا جا سکا‘ وہ بھی شاید اس لئے کہ لوگوں کے گھر تو تھے‘ لیکن ان میں دہلیزیں نہیں تھیں‘ جبکہ کچھ کی صرف دہلیزیں تھیں اوران کے پاس گھر نہیں تھے‘ اس لئے ان تک انصاف پہنچانے کا کوئی مقصد نہ تھا‘ کیونکہ انصاف پہنچانے کے لیے گھر اور دہلیز دونوں کا ہونا ضروری ہے‘ جبکہ کچھ گھروں میں صرف دیوار ہوتی ہیں‘ جن پر اُن کا نوشتۂ دیوار لکھا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت غیر فعال‘ صرف مافیا کی حکمرانی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت غیر فعال ہو چکی‘ جبکہ حکمرانی صرف مافیا کی ہے‘‘ ایسے میں مجھے اپنی حکومت آنے اور اس کے غیر فعال ہونے کی فکر لاحق ہے اور جب تک ہماری حکومت قائم نہیں ہو جاتی‘ تب تک میں روزانہ دو تقریریں بلا ناغہ کرتا رہوں گا اور یہ میں بروقت خبردار کر رہا ہوں‘ پھر نہ کوئی کہے کہ پہلے بتایا کیوں نہیں ۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سینئرصحافیوں کے سوالات کے جوابات دے رہے تھے۔
اُردو غزل: چند زاویے
یہ عابد سیال کی تصنیف ہے ‘جسے عکس پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ انتساب ڈاکٹر ضیا الحسن کے نام ہے۔پس سرورق ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی رائے درج ہے‘ جس کے مطابق ''عابد سیال کے یہ مقالات جدید اردو غزل کو سمجھنے کی ایک عمدہ سعی ہے‘ اس نے بالعموم ایسے موضوعات پر لکھا ہے کہ جن پر اس سے پہلے بہت ہی کم لکھا گیا تھایا اس جیسی سنجیدگی اور گہرائی سے کام لے کر نہیں لکھا گیا تھا۔ وہ قارئین جو جدید اردو غزل سے دلچسپی رکھتے ہیں ‘ان کے لیے 'اردو غزل: چند زاویے‘ شعر فہمی کا ایک عمدہ معیار پیش کرتی ہے‘‘۔کتاب کا فاضلانہ دیباچہ ممتاز نظم گو اور نقاد ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے قلم سے ہے۔ کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ‘یعنی تاثرات (معاصر اردو غزل کی نارسائیاں ) اسلوبیات اور مطالعات۔ اس کتاب میں ثقیل تنقیدی زبان استعمال کرنے کی بجائے زود فہم اور سلیس رواں اُردو سے کام لیا گیا ہے‘ جس سے اس کتاب کی افادیت میں اضافہ ہوا ہے۔
غلطیاں
ایک قبائلی اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ گھوڑی پر سوار جا رہا تھا۔ راستہ پتھریلا اور ناہموار تھا۔ گھوڑی نے چلتے ہوئے ٹھوکر کھائی تو وہ بولا ''پہلی غلطی‘‘۔ تھوڑی دور جاکر گھوڑی نے ایک اور ٹھوکر کھائی تو وہ بولا ''دوسری غلطی‘‘۔ کچھ دیر کے بعد جب اس نے پھر ٹھوکر کھائی تو وہ گھوڑی سے اُترا اور پستول سے اس کا کام تمام کر دیا‘ جس پر دلہن بولی ''تم کس قدر ظالم آدمی ہو‘‘ تو وہ بولا ''پہلی غلطی‘‘۔
صوفی قبائلی
کچھ دوستوں کو معلوم ہوا کہ فلاں پہاڑی پر مقیم ایک قبائلی صوفی ہو گیا ہے۔ وہ اسے دیکھنے کے لیے گئے ‘جب وہ اس کے گھر کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ قبائلی اپنے نوکر پر ناراض ہو کر ہوائی فائرنگ کر رہا تھا‘ جس پر ایک دوست بولا ''ایک قبائلی‘ آخر کتنا صوفی ہو سکتا ہے!‘‘
ایک اور دانت
ایک شخص کا دانت خراب تھا‘ جسے نکلوانے کیلئے وہ ایک دندان کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ وہ ایک دانت نکالنے کے کتنے پیسے لے گا؟ تو اس نے کہا کہ پانچ روپے فی دانت۔ جب دانت نکل چکا تو اس نے دس کا نوٹ نکال کر اسے دیا۔ ڈاکٹر نے میز کے دراز میں ہاتھ مارا جو خالی تھا۔ تو وہ بولا''باقی پیسے تو نہیں ہیں‘ ایک اور دانت ہی نکلوا لیں!‘‘۔
مسوڑھے
ایک شخص دانتوں میں تکلیف کے باعث ایک ڈینٹسٹ کے پاس گیا ‘جس نے اس کے دانتوں کا معائنہ کرنے کے بعد کہا ''آپ کے دانت تو بالکل ٹھیک ہیں‘ صرف مسوڑھے تبدیل کرنے والے ہیں!‘‘ 
باہر کھڑے ہو کر
ایک خاتون خراب دانت نکلوانے کے لیے ڈینٹسٹ کے پاس گئی ‘جس نے اسے کہا کہ منہ کھولیے۔ خاتون نے بہت سارا منہ کھول دیا‘ جس پر ڈاکٹر صاحب بولے ''بی بی! اتنا منہ کھولنے کی ضرورت نہیں ہے‘ میں نے باہر کھڑے ہو کر ہی آپ کے دانت نکالنے ہیں‘‘۔
اور‘ اب آخر میں امجد بابرؔ کی یہ نظم:
حفاظتی ہیلمٹ
لوگوں نے
خوف کی چادر بچھا
خود کو
تحفظ کے تہہ خانے میں چھپا لیا ہے
بے یقینی نے
گفتگو سے تاثیر چھین لی
لمس کی لذت کا جواز
قربت کے تصور کا سارا نشہ اتر گیا
فاصلوں کی ضرورت کا رواج فروغ پا گیا
یہ عشق کی بے رحم کہانی کا کلائمیکس ہے
جسے انجام کے اسٹیشن تک پہنچنا ہے
وبا کی ڈائری روزانہ کی بنیاد پر
انسانوں کے جسموں پر سرخ دستخط کر رہی ہے
وہ اپنے لیپ ٹاپ میں ایک لمبی فہرست رکھتی ہے
ہمیں گمان کی ترغیب سے بچتے ہوئے
گھروں کے محفوظ حصار میں
جینے کا خوبصورت تجربہ کرنا ہے
اور باہر کی خرافات سے
بچتے ہوئے چلنا ہے
آج کا مطلع
ہمارا دل ابھی تک بے خبر ویسے کا ویسا ہے
بہت اجڑا بھی ہے یہ گھر مگر ویسے کا ویسا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved