تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     07-07-2020

دو مسلسل خواہشوں کے درمیان

گیٹ وے آف انڈیا ‘ممبئی وہ تاریخی یادگار ہے ‘جو شاہ جارج پنجم اور ملکہ میری کے پہلی بار ہندوستان میں قدم رنجہ فرمانے پر بنائی گئی تھی ۔ یہ پہلا برطانوی شاہی جوڑا تھا‘ جس نے دسمبر1911ء میں دہلی دربار کے لیے ہندوستان کا دورہ کیا ۔اس وقت توممبئی کے اس ساحل پر ایک عارضی سی محراب بنا لی گئی تھی‘ لیکن باقاعدہ نقشے کے ساتھ1913ء میں سنگ بنیاد رکھا گیا اور1924ء میں یہ عمارت مکمل ہوئی ۔اس کی ایک تاریخی اہمیت یہ بھی ہے کہ1948ء میں جب برطانوی راج برصغیر سے ختم ہوا تو آخری انگریز سپاہی اسی محراب تلے سلامی دیتے گزرے۔عمارت کے سامنے جارج پنجم کا مجسمہ ایک چبوترے پر نصب تھا‘لیکن1961ء میں اسے ہٹا کر شیواجی کا مجسمہ نصب کردیا گیا ۔گھوڑے پر سوار اور تلوار سونتے ہوئے ۔وہی شیوا جی جن سے مغل حکمرانوں کی مسلسل جنگ رہی ۔فریقین مرکھپ چکے ‘لیکن شیواجی کی چالاکی اور وعدہ خلافی کے واقعات اب بھی تاریخ میں زندہ ہیں ۔یہ مجسمہ دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کہ ہندوستان میں ایسی دو قومیں کب تک ساتھ ساتھ ایک جھنڈے تلے رہ سکتی تھیں ‘جن میں ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہو۔
ممبئی میں تیسرا اور آخری دن طلوع ہوا تو شیکسپیئر کا جملہ '' To be or not to be,that is the question‘‘ مجھے یاد آنے لگا۔مسئلہ یہ تھا کہ ٹرین کی ہم سفر کملا پاریکھ سے یہ طے کیا تھا کہ ممبئی کے کچھ علاقے ایک ساتھ دیکھیں گے‘لیکن ایک تو یہ کہ کسی سے ملاقات کا وقت طے کرکے نہ پہنچ پانا بڑی بد تمیزی تھی اور ادھر میرے صبح و شام کا کوئی پتہ نہیں تھا۔کب کہاں کا پروگرام بن جائے اور کتنی دیر لگ جائے ۔ دوسرے یہ کہ ہندوستان کے اس سفر میں مختلف شہروں میں پھرتے پھراتے قریب قریب ایک ماہ ہوچکا تھا‘ممبئی شہر میں دل نہیں لگ رہا تھا اور کوئی مشہورجگہ دیکھنے کی سیاحانہ خواہش کا دور دور نام و نشان نہیں تھا۔رمضان کبھی گھر سے باہر نہیں گزارا تھا؛چنانچہ دل چاہ رہا تھا کہ اڑ کر گھر پہنچ جاؤں۔یہ مسائل ظاہر ہے کملا کے ساتھ نہیں تھے۔ایسے میں سیاحت کی خواہش مند کسی لڑکی کو اپنی ہمنشینی سے نوازنا اس کا وقت برباد کرنے کے مترادف تھا۔دل نے آخر یہی فیصلہ کیا کہ اسے بہتر طریقے سے شہر دیکھنے کا موقعہ دینا ہی اس کے ساتھ بھلائی ہے''افسردہ دل افسردہ کند انجمنے را‘‘اگر اس ایک دن میں میری بیزاری اس پر طاری ہوئی تو شاید ساری زندگی مجھے برا بھلا کہتی رہے۔سو ‘پیاری کملا! میں تم سے رابطہ نہیں کر رہا ۔امید ہے کہ تم اس طرح ممبئی کا وقت زیادہ بہتر گزار سکوگی؟یہ فیصلہ کون کرے کہ کسی کی بھلائی کے لیے وعدہ خلافی کرنا اچھی بات ہے یا بری ؟That is the question۔ہزار سوالوں کا ایک سوال۔
لیکن بیزاری کے باوجود اور ممبئی سے بھاگ جانے کی خواہش کے باوجودیہ طے تھا کہ اگر میں '' جوہو‘‘ نہ گیا تو ساری عمر خود کو بر ابھلا کہتارہوں گا۔اس لیے کہ پھر کبھی ممبئی آنا شاید نہ ہو اور وہ گانا جو ریڈیو سے رات کی تاریکی میں روشنی کی طرح پھیلتا تھا۔'' جوہو کے کنارے آکے ملیں گے‘مل کے یہاں ہم دور چلیں گے‘‘ ‘مجھے احساس جرم میں گرفتار کرتا رہے گا۔یہ گانا بناکا گیت مالا‘ریڈیو سیلون کے سٹوڈیو سے اٹھتا تھا اور سمن آباد موڑ لاہور کے ایک گھر میں رکھے بڑے سائز کے جہازی ریڈیو سے نکلتا تھا۔ایک سریلی ‘میٹھی اور مدھر آواز ہم بچوں کے دل میں اتر جاتی تھی ۔ یہ بول صرف لفظ نہیں ایک جادو کی دنیا تھی ۔ایک خوب صورت ساحل کا منظر جہاں سامنے ڈوبتے سورج کی کرنیں پانی کو سونا بنا رہی ہیں ‘سفید ریت کو چھونے والی لہریں بھیگے پیروں کوبار بار بھگو رہی ہیں ۔ایک طرف ناریل کے لہلہاتے درختوں کی قطار ہے اور اس کے بعد سرمئی سڑک ۔ سڑک کے دوسری طرف وہ خوب صورت بنگلے اور گھر جہاں لوگ رہتے ہیں ۔ امیر لوگ اور فلمی اداکار۔جو اتنے خوش نصیب ہیں کہ جب چاہیں اپنے پاؤں بھگونے کے لیے لہروں کے پاس چلے جاتے ہیں ۔ہر بار یہ گانا بجتا تھا او رہر بار یہ منظر اس لڑکے کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے جاتا تھا۔کیا میں وہ منظر دیکھے بغیر واپس چلا جاؤں؟نہیں بھئی ‘ممبئی میں سب کچھ ہوسکتا ہے یہ نہیں ہوسکتا۔
حسن کا پورا نام یاد نہیں ۔بیس بائیس سال کے اس ہنس مکھ لڑکے سے سرراہ ملاقات ہوئی تھی ۔بھنڈی بازار کے مسلم علاقے میں کسی ہوٹل میں۔ اسے پتا چلا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں تو بہت گرم جوشی سے ملا اور ممبئی دکھانے کے لیے اپنی خدمات کی پیش کش کی ۔میں نے کہا''حسن! مجھے جوہو ‘لے جاسکو تو بہت مہربانی ۔'' ارے یہ تو کوئی بات ہی نہیں ۔شام کو چلتے ہیں‘‘ ۔ہم عصر کے قریب جوہو بیچ پر پہنچے۔سورج سمندر میں اترنے کی تیاری کرتا ہو تو کون ہے‘ جس کا دل بیک وقت خوش اور اداس نہ ہو !؎
شام ہوئی ہے غور سے دیکھو رنگ سمندر کا 
بالکل اندر جیسا ہے یہ منظر باہر کا 
میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی ۔ وہی ہلال کی شکل کا ساحل ۔سامنے افق پر عمارتیں جن میں چراغ جلنے شروع ہوگئے تھے۔سفید ریت ‘ ایک طرف کچھ ٹیلے سے۔سامنے سمندر‘سونے اور چاندی سے مل کر بناہوا‘لیکن مشابہتیں یہیں ختم ہوجاتی تھیں ۔'' اچھا یہ جوہو ہے ؟ لیکن وہ کہاں ہیں ؟ناریل کے لہلہاتے درخت ‘سرمئی سڑک ‘سڑک کے پار خوب صورت بنگلے ‘خوش باش لوگ؟وہ سب کہاں ہیں‘‘ ؟ سعود صاحب ! اب بڑے ہو بھی ہوجاؤ۔زندگی میں کون سی چیز تصور کے مطابق ہوتی ہے جو تمہیں جوہو میں ہو بہو مل جائے گی؟بہت کچھ ہے دیکھنے اور خوش ہونے کے لیے ۔ناریل کا تازہ پانی پیو۔بھیل پوری‘بھوج پوری کھاؤ اور موج کرو۔
سو میں نے اس نصیحت پر کان دھرے اور موج کی ۔جوہو! تم پیاری ہو اور اس بات کا شکریہ کیسے ادا کروں کہ تمہارے منظر میری زندگی میں ہمیشہ جگمگا تے رہے۔ آج شام وہ ہمیشہ کا منظر تو بجھ گیا‘ لیکن ایک اور منظر روشن ہوگیا۔ہمیشہ کے لیے۔اور یہ جو دل کا بوجھ بھی کچھ کم ہوگیا ‘اس کا شکریہ کیسے ادا کروں؟۔آج ممبئی میں میری آخری شام ہے اور یہ شام تم نے یادگار بنادی ۔جوہو! تم اپنے نام کی طرح پیاری ہو!!
اگلے دن میں دہلی کے لیے راجدھانی میں سوار تھا اور مہاراشٹرا کے آخری مناظر پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے ‘ٹرین گجرات کے صوبے میں داخل ہونے کو تھی ۔اور میں سورت شہر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دروازے پر کھڑا تھا۔راجدھانی کے راستے میں ‘رتلام ‘کوٹا‘بھارت پور وغیرہ سے مجھے زیادہ دل چسپی نہ تھی‘ لیکن متھرا اور سورت مجھے اپنی طرف کھینچتے تھے۔ایک بار آگرہ جاتے ہوئے متھرا میں رکنے کا موقعہ مل گیا تھا ‘لیکن سورت کی صورت صرف ٹرین سے دیکھنے کو ملی ۔ہندوستانی گجرات سرسبز اور خوب صورت سرزمین ہے اور تاریخی واقعات کی رازدار بھی ۔پرسوں میں دہلی سے لاہور کے لیے پرواز کرجاؤں گا اور یہ منظر ‘یہ سفر خواب و خیال ہوجائے گا۔بالکل زندگی کی طرح جس کے منظر اور سفر ایک دن خواب و خیال ہوجائے گا۔
دہلی میں ایک دن عزیزوں کے ہاں گزرا۔پرواز کے لیے اندرا گاندھی ایئرپورٹ پہنچا۔اس حادثے کے علاوہ سب ٹھیک رہا کہ وہاں کسی مرحلے پر کسی نے سامان سے میرا کیمرہ نکال لیا‘ جس میں ایک ریل بھی تھی ۔کیمرے اور ریل کی خیر ہے‘ لیکن وہ گزرے ہوئے پل اس فلم میں محفوظ تھے ‘جو نہ لوٹ کر آسکتے ہیں‘ نہ میں انہیں تصویری شکل میں اب کبھی دیکھ سکتا ہوں!
مسافر بھی عجیب خمیر سے بنا ہوتا ہے ۔ اپنے دیس میں رہ کر دوسرے دیسوں کے لیے آہیں بھرتا ‘انہیں یاد کرتا ہے ۔وہاں پہنچنے کی کوششیں کرتا ہے ۔ وہاں پہنچ جائے تو اپنی دیس کی خوشبو پیچھا کرتی دامن پکڑے ساتھ رہتی ہے ۔دونوں سلسلے زندگی بھر ساتھ چلتے ہیں ‘جب تک زندگی چلتی ہے ۔اس دن میں گھر کے راستے میں لاہور کی سڑکوں سے گزرا ‘تو اس یقین سے ایک با رپھر گزرا کہ یہ خوشبو‘میرے کپڑوں ‘میرے جسم سے پھوٹتی رہے گی‘ اس لیے کہ یہ کہیں باہر سے نہیں ‘اندر سے آتی ہے اوراندر کا زخم ہو یا اندر کی خوشبو‘یہ نہ مندمل ہوتے ہیں اور نہ مدھم۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved