تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-07-2020

فرسودہ نظامِ علاج…( 2)

زندگی کے ہر شعبے میں ماہرین (Experts)ہوتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں ‘ جو کہ اس پیشے کی نزاکتوں کوسمجھتے ہیں ۔ آج کل کورونا پھیلا ہوا ہے تو وائرالوجسٹ(Virologist) سب سے زیادہ اہم ہیں‘ جن کی زندگیاں وائرس پڑھنے میں صرف ہوئی ہیں ۔ ایک شخص نے پچاس سال کالم نویسی کی ہے ۔ وہ یہ نہیں کر سکتا کہ کسی کو آدھے گھنٹے میں کالم لکھنا سکھا دے ۔وہ سکھا سکتا ہی نہیں اور کبھی سکھائے گا بھی نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کالم کس موقعے پر لکھا جا رہا ہے ؟ بے نظیر قتل پہ یا 2018ء کے انتخابات پہ ؟کیا دونوں کالم ایک جیسے ہوں گے؟اسی طرح ایک بندہ ‘ جس نے انٹر کے بعد چھ سال اکائونٹ اور آڈٹ پڑھ کے سی اے کی ڈگری لی ہے ‘ وہ آپ کو آڈٹ نہیں سکھا سکتا ۔ آپ‘ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے ‘ یعنی جس کا کام ‘ اُسی کو ساجھے! 
ہر شعبے کی نزاکتیں اور پیچیدگیاں ہوتی ہیں ‘ جسے اس کے ماہرین کے سوا کوئی نہیں سمجھتا ۔ وہ اسے دوسروں کو سکھا نہیں سکتا اور نہ ہی سکھانے کا کوئی فائدہ ہے ۔ یہ اصول دوسرے سب شعبوں سے بڑھ کر صحت کے شعبے میں لاگو ہوتاہے۔ lifeکو sustain کرنے والی چیز کو سمجھنا اور ان میں پیدا ہونے والی خرابی کا علاج ڈھونڈنا ایک انتہائی پیچیدہ کام ہے ۔ جو ڈاکٹر ہسپتالوں میں یہ کام کرتے ہیں ‘ ان کی پشت پر پچاس ہزار سال کا وہ مستند انسانی علم ہے ‘ جو لیبارٹری میں ثابت کیاجا سکتاہے‘ جومیڈیکل کالجز اور یونیو رسٹیوں میں پڑھا یا جاتاہے ۔ 
انسانی جسم ان گنت پیچیدہ توازنوں پہ استوار ہوتاہے ۔ ان میں سے ایک چیز بھی خراب ہو جائے تو مریض سخت تکلیف محسوس کرتاہے ۔ فرض کریں آپ بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے یاجسم میں ہیمو گلوبن کم ہو گیا ہے یا گردن میں ایک رگ دب جانے سے دماغ کو خون کی سپلائی کم ہو گئی ہے اور آپ کو چکر آر ہے ہیں ۔ اسی طرح کی ہزاروں قسم کی مختلف صورتِ حال ہو سکتی ہے ۔آپ کی گردن کے پٹھے کھنچ گئے ہیں یا مائیگرین کا حملہ ہوا ہے ۔ اس مائیگرین کی وجہ سے متلی ہو رہی ہے یا متلی کی وجہ بد ہضمی ہے ۔ ایک عورت کو حاملہ ہونے کی وجہ سے متلی ہو رہی ہے تو و ہ ایک بالکل ہی الگ معاملہ ہے ۔ ڈاکٹر‘ جیسے ہی اس کا ٹیسٹ کرے گا‘ اسے پتا چل جائے گا کہ وہ حاملہ ہے ۔ 
ایک شخص کو مائیگرین کا درد ہو رہا ہے ۔ ایک بندے کو نظر کمزور ہو جانے کی وجہ سے سردرد ہورہا ہے ۔ ایک بندے کو بلڈ پریشر گرنے کی وجہ سے سردرد ہو رہا ہے ۔ ایک بندے کو ناک میں ریشہ جم جانے (sinus)کی وجہ سے سردرد ہو رہا ہے ۔ ایک بندے کو دماغ میں کیمیکلز اوپر نیچے ہونے سے سردرد ہورہا ہے ۔ایک بندے کو پریشانی کی وجہ سے سردرد ہورہا ہے۔سردرد کی اَن گنت وجوہات ہیں ۔ یہ ڈاکٹر کا کام ہے کہ وہ درد کی وجہ تک پہنچے ۔ یہ اس کا پیشہ ہے ۔ وہ اس کی نزاکتوں کو سمجھتا ہے ۔ اگر مجھے ایک دفعہ سردرد ہو ا اور ایک دوا سے مجھے آرام آگیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں باقی ساری زندگی وہ دوا پروموٹ کرتا پھروں۔ یہ کسی کی زندگی کا معاملہ ہے۔ یہ میڈیکل سائنس کے پیچیدہ معاملات ہیں ۔ 
کبھی آپ نے دیکھا کہ ایک انجینئر ہر ملنے والے کو پل تعمیر کرنے پہ لیکچر دے رہا ہو۔ آپ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ ایک کوالیفائیڈ ڈاکٹر ملنے والوں کو یہ بتانے کی کوشش کرر ہا ہو کہ اگر ایسا ہو تو یہ دوا کھا لینا ‘اگر ویسا ہو تو وہ کھا لینا‘اگر یہ اتنا ہی آسان کام ہو تو ایک کاغذ پر ہر تکلیف اور اس کے سامنے اس کی دوا کا نام لکھ کر لوگوں میں بانٹ دیا جائے ۔ میڈیکل کالج اور ہسپتال بند کر دیے جائیں ۔ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا ۔
لیکن ہر بل میڈیسن میں یہ کام پورے شد و مد سے جاری ہے ۔ ہر بندہ دوسرے کو تلقین کر رہا ہے کہ اگر ایسا ہوتو ڈاکٹر کے پاس مت جانا ‘ لونگ اور دار چینی کھا لینا ۔ایک مریض بیچارہ درد سے تڑپ رہا ہے ۔ آپ ‘اگر اسے ہسپتال پہنچا نہیں سکتے تو کم سے کم اس کا راستہ روکیں تو نہیں۔ خدا جانے اسے کیا تکلیف ہے ۔یہ بات ٹھیک ہے کہ آپ کو ایک بار دارچینی سے آرام آگیا تھا ‘لیکن آپ کے پیٹ میں گیس تھی ‘ اسے خدا جانے اپینڈکس کا درد ہے ۔آپ کے پاس طب کی ایسی کون سی ڈگری ہے ‘ جس کی وجہ سے آپ دوا تجویز کرنے لگے ؟ ایک شخص کی آنت میں کینسر تھا اور اسے اس کینسر کی وجہ سے قے اور پیٹ میں تکلیف رہتی تھی ۔ سرجن حضرات نے سرجری کر کے اس کی آنت میں سے کینسر زدہ حصہ نکال دیا۔ کیا اب آئندہ زندگی میں وہ جسے بھی پیٹ درد میں مبتلا دیکھے ‘ اسے بڑی آنت کے آپریشن کا مشورہ دے دیا کرے؟یعنی جہالت کی کوئی آخری حد ہوتی ہے ۔ 
کئی سال پہلے کی بات ہے؛ ایک شام میرے والد صاحب کو پیٹ میں شدید تکلیف ہونے لگی۔ سونف اور پودینہ استعمال کیا ‘ پیدل چلتے رہے ‘جاننے والے ڈاکٹرز کو جگایا۔ آرام نہیں آیا۔ صبح تفصیلی ٹیسٹ ہوئے تو پتا چلا کہ پتے میں پتھری ہے ۔ وہ اپنی جگہ سے ہلتی ہے تو شدید درد ہوتاہے ۔ ادویات دی گئیں اور سوجن ختم ہوئی تو ڈاکٹر مکرم صاحب نے آپریشن کر کے پتہ نکال دیا ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ میں جس شخص کو بھی پیٹ درد میں مبتلا دیکھوں ‘ اسے ہسپتال لے جا کر اس کا پتہ نکلوا دیا کروں ؟ 
یہ مریض کا کام ہے کہ ڈاکٹر کے پاس جائے ۔ ڈاکٹر اس کی علامات دیکھے گا ‘ ٹیسٹ کرے گا‘ اسے پتا چل جائے گا ۔ یہ کام اتنا پیچیدہ ہو سکتاہے کہ آپ کی سوچ سے بھی باہر ہے ۔ وجدان نام کا ایک لڑکا یاد آتاہے ۔ اس کے خون کے نمونے جرمنی گئے تھے اور معلوم ہوا تھا کہ اسے کیا بیماری ہے ۔ وہ بیماری‘جو لاکھوں میں سے ایک شخص کو ہوتی ہے اور پاکستان میں اس کی تشخیص کے لیے کوئی لیبارٹری تھی ہی نہیں ۔ 
ایک کہانی ہے ‘ جو میں بچپن سے سنتا آرہا ہوں اور مختلف سورسز سے آج بھی سنتا رہتا ہوں ۔پاکستان کے ہر گھر میں اس کہانی کا کم از کم ایک پرُجوش پروموٹر ضرورپایا جاتاہے ۔ اس کہانی میں بتایا جاتا ہے کہ ایک مریض تھا ‘ جسے سب ڈاکٹر جواب دے چکے تھے‘ بلکہ اس کی بیماری تمام ڈاکٹرز کی سمجھ سے ہی باہر تھی ۔ میڈیکل سائنس بے بس ہو چکی تھی ۔ آخری سانسیں چل رہی تھیں ‘ مگر ایک حکیم صاحب نے اپنی جیب سے ایک پڑیا نکالی اور اس میں سے ایک سفوف نکال کر مریض کے منہ میں ٹپکایا تو دیکھتے ہی دیکھتے مریض بھلا چنگا ہوگیا اور اگلے چالیس سال تک چھلانگیں لگا تا رہا۔ اس سفوف میں کیا تھا؟ دار چینی‘ لہسن کا عرق‘ لیموں کے قطرے اور اجوائن کے چند ذرات۔ یہ گنتی کے چند اجزا ہیں ‘ جو اس طرح کی ہر کہانی کا جزو لازم ہیں۔ یہ کہانی میں نے اتنی دفعہ مختلف ورژن میں سنی ہے کہ جب دار چینی وغیرہ کی مارکیٹنگ کرتا ہوا میرا کوئی بھائی اسے سنانا شروع کرتاہے تو اس کے کلائمیکس سمیت ہر چیز مجھے پہلے سے معلوم ہوتی ہے ۔ایک پرُاسرار حکیم ہے ‘ جو پورے پاکستان میں پھر رہا ہے اور لا علاج لوگوں کودارچینی وغیرہ کھلا کر ٹھیک کر رہا ہے ۔ یہاں یاد رہے کہ دار چینی یا لہسن کوئی بری نہیں‘ بلکہ مفید چیزیں ہیں۔ 
بارِ دگر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میڈیکل سائنس میں ہزار قسم کے ٹیسٹ ہیں ‘ جن کا رزلٹ پڑھنے سے مریض کا جسم معالج کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہوتاہے ‘ جبکہ نیم حکیم اور اتائی لوگ سٹیرائیڈ ز سے اپنے مریضوں کو وقتی طاقت دے کر علاج کر رہے ہوتے ہیں ۔ وقت آ چکا کہ اس فرسودہ نظامِ علاج کو اب ‘ در کر دیا جانا چاہیے ۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved