تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     08-07-2020

کیا چین بھارت جنگ ناگزیر ہے؟

کیا شمالی لداخ میں چین اور بھارت کی سرحدی فوجوں کے درمیان جھڑپ کے بعد دونوں ملکوں کے مابین ایک اور سرحدی جنگ ہونے والی ہے؟ بھارتی میڈیا پہ جائیں تو معلوم ہو گا کہ یہ جنگ بس چھڑنے ہی والی ہے۔ اپنے اس موقف میں بھارتی میڈیا جو شواہد پیش کر رہا ہے‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ چین نے مشرقی لداخ میں ایل اے سی (لائن آف ایکچوول کنٹرول) کے ساتھ بکتربند گاڑیوں کے ہمراہ اپنی تیس ہزار فوج کو تیار رہنے کا حکم دے دیا ہے۔ دوسرے پاکستان نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ اپنی بیس ہزار فوج تعینات کر دی ہے۔ اس کی بنیاد پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ بھارت کو چین اور پاکستان کے مشترکہ حملے کا خطرہ ہے۔ اس سے قبل بھارتی ذرائع یہ دعویٰ بھی کر چکے ہیں کہ پاکستان نے سکردو کا ہوائی اڈا چین کے حوالے کر دیا ہے اور چینی ملٹری ٹرانسپورٹ ہوائی جہاز اس اڈے کو استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ان دونوں دعووں کی سختی سے تردید کی ہے۔ پاکستان کی طرف سے یہ تردید جاری نہ ہوتی تب بھی کوئی ہوش مند شخص بھارت کے اس پروپیگنڈے پر یقین نہیں کر سکتا‘ کیونکہ اول‘ اگر چین کو بھارت کے ساتھ کسی طور نمٹنا پڑ جائے تو اسے پاکستان کی مدد کی ضرورت نہیں۔ عسکری لحاظ سے چین‘ بھارت کے مقابلے میں بہت طاقتور ہے اور جہاں تک لداخ یا تقریباً چارہزار کلومیٹر طویل چین بھارت ہمالیائی سرحد کا تعلق تو چین نے اپنی طرف سے سڑکوں کا ایک وسیع سلسلہ تعمیر کر رکھا ہے‘ جسے استعمال میں لاکر وہ بڑی آسانی سے اور تیزی کے ساتھ ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کے ساتھ فوجوں کو سرحد پر ڈپلائے کرسکتا ہے۔ بھارتی فوج کو یہ سہولتیں ابھی میسر نہیں۔ نریندرمودی کی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے گزشتہ چند برسوں میں نہ صرف لداخ بلکہ شمال مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ بھی سڑکیں اور پُل تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے‘ مگر ابھی بھارت کی افواج آسانی کے ساتھ سرحد پر ڈپلائے نہیں ہو سکتیں۔
1962 کی جنگ میں بھی پہل بھارت کی طرف سے ہوئی تھی اور بھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو نے مذاکرات کیلئے چین کی پیشکش کو نظرانداز کرکے چینی فوجی دستوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حملے میں تقریباً سو چینی فوجی مارے گئے تھے۔ چین نے جب دیکھاکہ بھارت سرحدی تنازعہ کو بات چیت کے ذریعے پُرامن طریقے سے حل کرنے پر آمادہ نہیں‘ بلکہ فوجی قوت استعمال کرکے یک طرفہ طور پر سرحدی تنازعہ حل کرنا چاہتا ہے تو اس نے ان بھارتی فوجی دستوں کے خلاف کارروائی کی‘ جو متنازعہ علاقے پر قبضہ جمائے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ 1962 میں اچانک حملے سے چینیوں کو بھاری جانی نقصان کے ساتھ پیچھے ہٹا پڑا تھا بھارت میں بڑی ڈینگیں ماری گئی تھیں کہ وہ فوج‘ جس نے 10سال قبل کوریا میں امریکہ کے دانت کھٹے کر دیئے تھے‘ بھارتی فوج کے ایک حملے کی تاب نہ لا سکیں‘ لیکن جب چین کی طرف سے جوابی کارروائی کی گئی تو بھارتی فوجی میدانِ جنگ میں اپنے ہتھیار اور سامان تک چھوڑ کر جان بچانے کی خاطر اتنی تیزی کے ساتھ بھاگے کہ عصرِ حاضر کی ملٹری ہسٹری میں ایسی پسپائی کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 
1962 کے مقابلے میں چین آج نہ صرف معاشی بلکہ عسکری لحاظ سے بھی بہت طاقتور ہوچکا ہے‘ اس کے باوجود ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کے رویے میں رعونت‘ تکبر اور جارحیت کا شائبہ تک نہیں۔ وجہ واضح ہے۔ چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود ابھی تک اپنے آپ کو ایک ترقی پذیر ملک سمجھتا ہے۔ چینی قیادت صاف اعتراف کرتی ہے کہ ان کا ملک ابھی مڈل انکم گروپ کے ممالک میں بھی شمار نہیں ہوتا‘ اور اس کی ڈیڑھ ارب آبادی کا ایک بڑا حصہ ابھی تک غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔ چین میں علاقائی سطح پربھی سنگین فرق یا امتیازات موجود ہیں۔ جدید چین کے سامنے سب سے اہم مقصد اس فرق کودور کرنا ہے اور اس کیلئے اسے ایک لمبے عرصے تک امن کی ضرورت ہے۔ جدید چین کے معمار ڈنگ شیائو پنگ نے اسی لئے چینیوں کو نصیحت کی تھی کہ ''دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش مت کرنا‘‘ کیونکہ اس سے چپقلش اور بالآخر تصادم جنم لیتا ہے۔ مغربی دنیا خصوصاً امریکہ ''ایشیا کی قیادت‘‘ کیلئے چین اور بھارت کو ایک دوسرے کے مدِمقابل کے طور پر بڑھ چڑھ کر پیش کرتے ہیں‘ لیکن چین نے بھارت کو کبھی بھی اپنا حریف نہیں سمجھا‘ بلکہ اقتصادی‘ سماجی ترقی اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کیلئے بھارت کو پارٹنر سمجھا ہے۔ اسی طرح گزشتہ 30 برسوں میں بھارت کے اردگرد جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ چین کے دوطرفہ تعلقات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ چین نے ان ممالک میں کبھی بھی بھارت کی جگہ لینے کی کوشش نہیں کی‘ بلکہ بھارت اور ان ممالک کے درمیان امن اور تعاون کی حمایت کی ہے۔ یہاں تک کہ چین پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور تعاون کا بہت بڑا حامی ہے۔ 2004 میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کا اہتمام کروانے میں جن ممالک نے پسِ پردہ کوششیں کی تھیں‘ ان میں امریکہ ‘ روس‘ برطانیہ‘ یورپی یونین کے علاوہ چین بھی شامل تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن اور مصالحت کیلئے چینی خواہش کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین دونوں ملکوں کے درمیان مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اپنی خدمات پیش کر چکاہے۔ پاکستان اور بھارت کو شنگھائی تعاون تنظیم کے مستقل ارکان بنانے میں بھی چین کا سب سے بڑا ہاتھ ہے‘ اور اس کا مقصد بھی یہ تھا کہ جنوبی ایشیا کے ان دو اہم ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہو گی اور تعاون کے لئے راہ ہموار ہو گی۔ اس لئے اس بات کے قرینِ قیاس ہونے کا کیا جواز ہے کہ پاکستان اور چین مل کر بھارت پر حملہ کریں گے؟ پاکستان اور چین کے مابین کوئی ایسا فوجی معاہدہ نہیں ہے۔ پاکستان میں نہ تو چین کے فوجی اڈے موجود ہیں اور نہ ہی اس کی فوجیں پاکستان میں مقیم ہیں۔ پھر بھارت اور خصوصاً اس کے عسکری حلقے پاک چین گٹھ جوڑ اور مشترکہ حملے کی کیوں بات کرتے ہیں؟ اس کی سوائے اس کے اور کوئی وجہ نہیں کہ بھارت‘ پاک چین گٹھ جوڑ کا ڈھونگ رچا کر اپنے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم پر پردہ ڈالنا اور عالمی رائے عامہ کی توجہ کو جنوبی ایشیا کے اصل مسائل سے ہٹانا چاہتا ہے۔ تین سال قبل ڈوکلام کے مقام پر بھی چین اور بھارت کے فوجی دستے ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھے۔ ڈوکلام اس جگہ ہے جس کے ساتھ بھارت کی براہ راست سرحد نہیں ملتی۔ نہ ہی بھارت نے اس جگہ پر کبھی اپنا تاریخی یا قانونی حق جتایا ہے۔ پھر بھی بھارت نے فوج بھیج کر اس مقام پر چینی مزدوروں اور انجینئرز کو کام کرنے سے روک دیا تھا۔ چین نے بھارت کی اس کارروائی کو سراسر غیر قانونی اور یک طرفہ قرار دیا۔ دونوں ملکوں کے فوجی دستے سخت کشیدگی کے ماحول میں 73 دنوں تک ایک دوسرے کے مدِ مقابل کھڑے رہے۔ لیکن دھکم پیل کے علاوہ کوئی بڑا تصادم نہ ہوا۔ بالآخر مذاکرات کے بعد فریقین نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسئلہ حل کر لیا۔ ڈوکلام کو چین بھارت کے پیچیدہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لئے ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ توقع تھی کہ بھارت اس ماڈل کو لداخ میں بھی استعمال کرے گا‘ مگر اس کے برعکس بھارت نے اپنی فوج کے ذریعے اسے یک طرفہ طور پر حل کرنے کی کوشش کی اور نقصان اٹھایا۔ چین کی طرف سے بھارت پر اب بھی مذاکرات کی راہ اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بھارت ماضی سے سبق سیکھے اور چین ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اپنے تنازعات کو پُر امن مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved