چوہدری شجاعت حسین انتہائی زیرک، منجھے ہوئے اور صوفی ٹائپ سیاست دان ہیں۔ وہ معاملات کو خوش اسلوبی سے چلانے اور نبھانے کے قائل ہیں۔ اُن کی ''مٹی پاؤ‘‘ پالیسی انتہائی مقبول و معروف ہے۔ وضع داری اور دنیا داری کے تقاضوں کو بھی خوب سمجھتے اور نبھانا جانتے ہیں۔ جن دنوں شریف فیملی جدّہ میں مقیم تھی چوہدری شجاعت تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود لاہور میں موجود حمزہ شہباز کی مشکلات میں کمی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کبھی ظاہری تو کبھی پوشیدہ مددگار بنتے رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت نے انصاف سرکار اور میڈیا کے درمیان بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کے پیش نظر وزیراعظم کو ایک خط لکھ ڈالا ہے جس کا متن کچھ یوں ہے ''حکومت اور میڈیا کے درمیان قربت کے بجائے ایسے فاصلے پیدا کروائے جاتے ہیں جن میں دوریاں پیدا کرنے والوں کا کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ نقصان صرف اور صرف آپ کا ہو رہا ہے۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے اور ریاست کے استحکام کے لیے اس ستون کا مستحکم ہونا بھی ضروری ہے۔ میڈیا سے محاذ آرائی کسی صورت مناسب نہیں‘‘۔
چوہدری شجاعت حسین نے ہمیشہ حکومت کو انتشار اور محاذ آرائی سے بچنے کا ہی مشورہ دیا ہے۔ انصاف سرکار سے اختلافات اور تحفظات کے باوجود انہوں نے بروقت اور مناسب مشورہ دے کر حکومت کا خیرخواہ ہونے کا نہ صرف ثبوت دیا ہے بلکہ وزیراعظم کو خبردار بھی کیا ہے کہ خیال رکھیں وہ کون لوگ ہیں جو حکومت اور میڈیا کے مابین محاذ آرائی کا باعث بن رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت کو چاہیے کہ وہ احتیاطً ایک اور خط لکھ رکھیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وزیراعظم اس خط کا جواب کیا دیں گے۔ اس موقع پر مرزا غالب کی شہرہ آفاق غزل کا ایک شعر بے اختیار یاد آرہا ہے: ؎
قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
چوہدری شجاعت کا خط ایک طرح سے توجہ دلاؤ نوٹس سے کم نہیں، وہ وقتاً فوقتاً سرکار کو آنے والے خطرات سے آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں لیکن اپنے فیصلوں پر بضد سرکار اپنے طرزِ حکمرانی پر نظرِ ثانی پر آمادہ نہیں۔ اسی قسم کے مشورے وزیراعظم کو ان کے کئی مشیر اور وزیر بھی دے چکے ہیں لیکن وزیراعظم میڈیا کے معاملات پر اپنی رائے بدلنے کو تیار نہیں۔ میڈیا سے مذاکرات اور معاملہ فہمی کی روش اختیار کرنے کا مشورہ دینے والے کئی شریک اقتدار وزیر اور مشیر ٹاک شوز میں وزیراعظم کے مؤقف کا دفاع کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ چند ایک بات ذاتی طور پر مجھ سے شیئر کر چکے ہیں کہ انہوں نے منت سماجت کرکے بھی کوشش کی کہ میڈیا کے ساتھ بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات طے کیے جا ئیں سکتے ہیں اس کیلئے ہمیں مذاکرات کا دروازہ کھولنا ہوگا لیکن لگتا ہے کہ دروازے کی جگہ دیوار ہی اُٹھا دی گئی ہے۔ کمزور وکٹ پر کب تک کھڑا رہا جا سکتا ہے؟
اب کچھ احوال ان جے آئی ٹی کی رپورٹس کا ہو جائے جنہیں سنسنی خیز انکشافات سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ لرزہ خیز وارداتوں کے انکشافات بھی سنسنی خیز ہی ہوتے ہیں۔ عزیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ ٹاؤن کی تحقیقاتی رپورٹس سندھ حکومت کے محکمہ داخلہ کی ویب سائٹ پر ایسی اَپ لوڈ ہوئی کہ ویب سائٹ کا سرور ہی ڈاؤن ہوگیا۔ اس رپورٹ پر بغلیں بجانے والے ہوں یا منہ چھپانے والے، سبھی کا سبھی کو روزِ اوّل سے علم تھا، یہ رپورٹیں تو محض دستاویزات ہیں؛ دیکھنا یہ ہے کہ ان سانحات کے ذمے داران سے لے کر بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک جرم کب تک اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ سرکار کا مؤقف یہ ہے کہ ایم کیوایم کا جو دھڑا اُن کے ساتھ شریک اقتدار ہے اس کا سانحہ بلدیہ ٹاؤن سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ وہ لندن سے آنے والے فیصلوں کے آگے مجبور تھا۔ یہ عذر اپنی جگہ، درحقیقت یہ دھڑا سانحہ بلدیہ ٹاؤن سمیت نجانے کتنے سانحات کے وقت نہ صرف ایم کیو ایم میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا بلکہ اقتدار کے مزے لوٹ رہا تھا۔
کون نہیں جانتا کہ اپنے ''دیوتا سمّان‘‘ قائد کو پالنے کے لیے چندوں، بھتوں، لوٹ مار، داداگیری، قتل وغارت اور دیگر ذرائع سے سمیٹا ہوا حرام مال کون کون بھجواتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کے پچاس سے زائد سرکردہ رہنما اس ریڈار کی زد میں ہیں۔ کبھی وزیر تو کبھی وکیل دکھائی دینے والے صاحب کا نام بھی اسی ریڈار پر ہے اور وہ بھی اپنے قائد کی اطاعت گزاری میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن ہو یا سانحہ 12مئی یہ سبھی کیسے بری الذمہ اور دودھ کے دھلے ہو سکتے ہیں؟
حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے سبھی نے غریب عوام کو ایک برانڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ وزیراعظم کا ایک فخریہ بیان سامنے پڑے اخبارات کے ڈھیر میں انتہائی نمایاں نظر آرہا ہے جس میں غریب کو سستا آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ہر دور میں، ہر حکمران سارے انقلابی اقدامات ان غریبوں کے لیے ہی تو کرتا ہے، پھر بھی ان غریبوں کے دن نہیں پھرتے حالانکہ حکمران تو اپنی بہت کوشش کرتے ہیں کہ انکا کوئی اعلان، کوئی تقریر، کوئی بیانیہ، کوئی بھاشن غریبوں کے دِن بدل دے۔ نجانے ان غریبوں میں کوئی مسئلہ ہے یا ان کے نصیب ہی ایسے ہیں کہ حکمرانوں کی حتی المقدور کوشش کے باوجود ان کے دن پھرتے نظر نہیں آتے۔ وزیراعظم نے ابھی چوبیس گھنٹے پہلے ہی غریب کی زندگی آسان کرنے کے لیے سستا آٹا فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، اب غریب کو سستا آٹا نہ ملے تو اس میں ان کا کیا قصور ہے؟ وزیراعظم تو اپنا کر چکے گویا: ؎
جو میرا فرض تھا میں نے پورا کیا
اب خدا ہی نہ چاہے تو میں کیا کروں
اس غریب کو چاہیے کہ وہ صبح شام آٹے کی پھکیاں لگائے اور کچھ آٹا اپنے بالوں میں خاک سمجھ کر ڈال لے کیونکہ ایک آٹے کا گھاٹا ہی نہیں بلکہ ناگزیر ترین دیگر اشیائے ضروریہ بھی ان کی پہنچ سے کب کی دور جا چکی ہیں۔ یوٹیلٹی بلز کی دو دھاری تلوار چلنے کی دردناک داستان علیحدہ ہے۔ دودھ، دہی سے لے کر چینی، گھی، آٹا ہو اور لال ٹماٹرسمیت دیگر سبزیاں اور دالیں بھی خواب و خیال بنتی چلی جارہی ہیں۔ رہی بات پھلوں اور میوہ جات کی، یہ سب کھانے کے لیے تو اس غریب کو جنت میں ہی جانا پڑے گا جس کا وعدہ اُس کے رب نے کیا ہے‘ بے شک وہ اپنے وعدے کا پاس رکھتا ہے۔ رہے دنیاوی و زمینی وعدے تو ان کا حشر نشر تو صبح شام، جابجا ہر سو منہ چڑائے پھرتا ہے۔ انصاف سرکار اپنے بیشتر فیصلوں پر بضد اور اصرار پر قائم ہے جو جواب دہی اور سُبکی میں اضافے کا باعث ہیں۔ اپنے طرزِ حکمرانی پر نظرِ ثانی کرنے کی بجائے ہر ناکامی اور پسپائی کا ذمہ دار سابقہ حکمرانوں کو ٹھہرائے چلے جارہے ہیں۔ ویسے بھی وزیراعظم نے مائنس ون کی بات چھیڑ کر ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔ ان کے حلیف مائنس تین کی بات کرتے ہیں جبکہ اَپوزیشن مائنس آل کی بات کرتی ہے۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے مائنس ون اور مائنس تھری کی بات سن کر ایک باورچی کا قصہ بے اختیار یاد آرہا ہے وہ آپ سے شیئر کرتا چلوں: ''چاولوں کی دیگ میں پانی زیادہ ڈل گیا تو باورچی نے میزبان سے کہا کہ بارات والوں نے پٹاخے چلائے تو کھانا خراب ہو سکتا ہے۔ بارات آئی تو لوگ پٹاخے روکنے کے لیے بھاگے مگر پٹاخے چلانے والوں پٹاخے چلا دئیے۔ باورچی نے پٹاخوں کی آواز سنتے ہی صافہ کندھے پر ڈالا اور یہ کہتے ہوئے چل پڑا کہ: جڑ گئے جے سارے چول۔ ہن تسی جانوں تے جنج جانے۔ میں چلیا جے‘‘۔