غریبوں کو سستا آٹا فراہم کریں گے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''غریبوں کو سستا آٹا فراہم کریں گے‘‘ کیونکہ کورونا سے جس طرح اموات میں اضافہ ہو رہا ہے، امید ہے کہ غریبوں کی تعداد ویسے بھی بہت کم رہ جائے گی جنہیں سستا آٹا فراہم کرنا ممکن ہو سکے گا، بشرطیکہ آٹا مافیا نے پھر کوئی گڑ بڑ نہ کر دی کیونکہ ان کا دبائو اتنا ہے کہ برداشت نہیں ہوتا۔ مزہ تو جب ہے کہ وہ حکومت پر دبائو ڈالے بغیر بلیک میل کر کے دکھائیں جبکہ ہمارا دبائو سارے کا سارا اپوزیشن کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے‘ اگرچہ اس کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ بھی کافی نا اہل واقع ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز ارکان اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے۔
دیگر جماعتوں کی کرپشن ثابت
ہوئی، پیپلز پارٹی کی نہیں: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''دیگر جماعتوں کی کرپشن ثابت ہوئی، پیپلز پارٹی کی نہیں‘‘ کیونکہ ایک تو ہمارا سارا کام پوری ہنر مندی سے کیا جاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یا تو مقدمے کا ریکارڈ گم ہو جاتا ہے یا جل کر خاک ہو جاتا ہے جبکہ گواہ بھی آرام سے بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ دیر کھڑے نہیں رہ سکتے، اس کے علاوہ جو وعدہ معاف گواہ بنتے ہیں وہ بھی زیادہ تر اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتے ہیں کیونکہ ان کی عمریں بھی کم ہی ہوتی ہیں اور یا تو وہ کسی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں یا کسی خاندانی دشمنی کی بنا پر قتل ہو جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب حسبِ وعدہ جریدہ ''نقاط‘‘ میں سے منتخب اشعار
خبطِ عظمت میں گرفتار نہیں بھی ہوتے
لوگ کچھ باعثِ آزار نہیں بھی ہوتے
پسِ بازار بھی بک جاتے ہیں بکنے والے
کتنے سودے سرِ بازار نہیں بھی ہوتے
پارسائی بھی کہیں ڈھونگ ہوا کرتی ہے
کچھ گنہگار گنہگار نہیں بھی ہوتے (ضیا الدین نعیمؔ)
اس کی مرضی کے مطابق ہی بنا تھا، لیکن
ایک دن دیکھ کے کچھ توڑ دیا ہے اُس نے
کہیں کہیں سے بہت مختلف تھا سو میں نے
تراش کر ترے جیسا بنا لیا خود کو
(شاہد اشرف)
اک چشمِ خوش گمان چراغوں میں بُجھ گئی
اور داغِ انتظار قبا پر نہیں رہا
میں میسر تھا اسے اور میسر کے لیے
اس زمانے میں کوئی خاص جگہ ہے بھی نہیں
(حماد اظہر)
اس کو دینا ہے، ترو تازہ نہیں لگ رہا ہے
پھول کی عُمر کا اندازہ نہیں لگ رہا ہے
باہر آندھی ہے کہ آنکھیں نہیں کھلنے دیتی
اور اندر سے یہ دروازہ نہیں لگ رہا ہے
خواب میں دیکھتا ہو کوئی کسی کو مرتے
اور اس وقت حقیقت میں کوئی مر جائے
جڑوں سے کاٹتے پھرتے تھے ایک دوسرے کو
اور ایک دوسرے کی چھائوں میں چلے آئے
اک ہجر، اک وصال بڑی دیر تک رہا
غزلوں پہ یہ وبال بڑی دیر تک رہا
میں اب خدا کو بہت ٹھیک سے سمجھتا ہوں
اب اس جہان پہ حیرت مجھے نہیں ہوتی
(احمد سلیم رِفی)
تری نظر سے اگر خود کو دیکھنا چاہے
یہ خواب دل میں کئی سال سے سنبھالا ہوا
آتے آتے ہی ترے نام تک آئے گا کلام
جاتے جاتے ہی مرا نقصِ بیاں جائے گا
مٹا گئی ہے اُداسی کی اوّلیں بارش
کہیں کہیں سے تجھے، اور کہاں کہاں سے مجھے
رہتی ہے میرے تعاقب میں ہوا بھی فیاضؔ
آگ بھی میرا پتا پوچھتی ہے پانی سے
میرا پتا کسی نا آشنائے شہر سے پوچھ
مجھے مکان کسی اور کا ملا ہوا ہے
ترا کرم کہ ترے خیر کے خزانوں سے
ترے فقیر کو دستِ دعا ملا ہوا ہے
اب مری بستہ لبی سے بنے گی کوئی بات
یاد تھے جتنے کام پکارے سارے
(منیر فیاض)
نظر برہنہ ہو گئی ہے دیکھ دیکھ کر جسے
وہ خواب میری آنکھ کا لباس کر دیا گیا
(ارشد عزیز)
وہ تو پردہ ہے کسی تصویر پر ڈالا ہوا
اور یہ دنیا سمجھتی ہے وہی تصویر ہے
ایک بھی منظر نہیں جس کا نمایاں ہو رہا
زندگی وہ دُور سے کھینچی ہوئی تصویر ہے
اپنی یکتائی کا تُو دعویٰ نہ کر ارشد عزیز
تو کسی تصویر کی تصویر کی تصویر ہے
(ارشد عزیز)
سُنو یہ عیب کسی رنگ سے نہیں چھپتے
بس ایک حل تھا ہمیں توڑ کر بنانا تھا
نہ تم نے پوچھا کبھی اور نہ ہم نے بتلایا
وگرنہ گھر کا یہی راستا شروع سے ہے
سب حقیقت پسند ہو گئے ہیں
لوگ اب خواب دیکھتے ہی نہیں
وہ جس بات پہ جینا مشکل ہو جائے
اب اُس بات پہ مرنا تھوڑی ہوتا ہے
دیکھ، دریا اُسی کو کہتے ہیں
جو کناروں میں رہ کے بہتا ہے
(بابر علی اسدؔ)
باقی باقی...
آج کا مقطع
ظفر، آرام سے سو ہی رہو اَب
اگر اختر شماری ہو چکی ہے