تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     08-07-2020

شرمندگی…

جب قانون کو موم کی ناک سمجھ لیا جائے تو سانحات کا تسلسل سے رونما ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوتی۔جب جواب دہی کا ڈر ختم ہوجائے تو پھر طاقتور کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ مظلوم کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے۔ کیا یہی وجہ نہیں کہ انفرادی چھوڑ‘ ہماری قومی تاریخ بھی سانحات سے بھری پڑی ہے۔ انفرادی سطح پر دیکھ لیں تو ہر روز ایسی ویڈیوز سامنے آتی رہتی ہیں جن میں کوئی نہ کوئی بااثراپنی ہی عدالت لگائے بیٹھا ہوتاہے۔ حالت یہ ہوچکی ہے کہ بے شمار مظلوم اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں کسی کے ساتھ زیادتی ہو تو وہ ایسا کرنے والے کو عدالت میں کھینچ لانے کی بات کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں حصولِ انصاف کی بات بھی روزِ قیامت پر ڈال دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کسی کو مشکل پیش آئے تو وہ پولیس کو بلانے کی بات کرتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اکثر یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ آپس میں ہی معاملہ طے کرلو ‘ پولیس آگئی تو مصیبت بہت بڑھ جائے گی۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کسی کو موجودہ سسٹم پر اعتماد ؟بس اہلِ وطن کو چھوڑ کر ہم نے دنیا بھر کے مظلوموں کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ جب یہ حالات ہوں تو پھر سانحہ بلدیہ ٹاؤن جیسے سانحات کو کیوں کر ٹالا جاسکتا ہے؟ بے شمار سانحات میں سے یہ ایک سانحہ‘ جس پر سامنے آنے والی جے آئی ٹی رپورٹ نے ہمارے ہاں کی صورتحال کو مزید ظاہر کر دیا ہے۔ 
12ستمبر 2012ء کو بھی دن عام دنوں کی طرح ہی طلوع ہوا تھا۔ کام کاج پر جانے والوں کی طرح بلدیہ ٹاؤن کراچی میں واقع فیکٹری کے ملازمین بھی ہنسی خوشی اپنے کام پر پہنچے تھے لیکن ان میں سے کم از کم 259افراد کو فیکٹری آنے کے بعد لوٹ کر گھر واپس نہیں جانا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ پیسوں کے لین دین پر اڑھائی سو سے زائد مردوخواتین آج زندہ جل جائیں گے‘ لیکن ایسا ہوا۔ کیا قیامت کا منظر رہا ہوگا جب فیکٹری میں موجود جیتے جاگتے انسان زندہ جل رہے گئے ہوں گے۔آگ سے بچنے کے لیے اُنہوں نے کیسے کیسے جتن نہیں کیے ہوں گے لیکن موت نے اُن کے چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا تھا۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا یہ سب لوگ اتنا تو سوچ رہے ہوں گے کہ معلوم نہیں کس کی غلطی سے یہ ہولناک آگ بھڑک اُٹھی ہے‘ لیکن یہ شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ بھتے کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ جنہوں نے آگ لگانے کا حکم دیا‘ اُن کے دل میں کوئی رحم آیا نہ آگ لگانے والوں نے لمحہ بھر کو سوچا کہ وہ کون سا ظلم کمانے جارہے ہیں۔بیس ‘ پچیس کروڑ کا بھتہ نہ ملنے پر لگائی جانے والی آگ کے بعد یہاں سے ملنے والی لاشوں سے کراچی کے مختلف مردہ خانے بے گناہوں کی لاشوں سے بھر گئے تھے۔ آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ تب کیسے کیسے ہولناک اور جذباتی مناظر دیکھنے کو ملے تھے۔ والدین اپنے بچوں اور بچے اپنے والدین کو ڈھونڈ رہے تھے ۔انہیں میں سے ایک سعیدہ بی بی بھی تھیں۔ یہ خاتون گھر پر فیکٹری میں موجود اپنے بچے کے لیے کھانا تیارکررہی تھی جب اُس کو علم ہوا کہ جس فیکٹری میں اُس کا بچہ کام کرتا ہے‘ وہاں آگ بھڑک اُٹھی ہے تو وہ دیوانہ وار فیکٹری میں پہنچ گئی۔ وہاں اپنے بچے کے لیے اُس کی تلاش 12گھنٹوں بعد ختم ہوئی جب ایک سوختہ میت اُس کے حوالے کی گئی۔ پھر اُس خاتون نے چھ سالوں تک اپنے گھر میں چولہا نہیں جلایا کیونکہ ایان جیسے ہی کام سے واپس آتا تو اپنی والدہ سے سب سے پہلا سوال یہی کرتا کہ اماں جان کھانا بن گیا ہے۔جب سعیدہ بی بی نے اس سانحے میں اپنی واحد اولاد کھودی تو پھر اُسے کسی چیز میں دلچسپی نہ رہی۔ یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں بلکہ کم از کم 259گھرانوں کی اپنی اپنی کہانیاں تھیں۔
یہ سب کچھ ہونا یقینا بہت اندوہناک تھالیکن اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہوا کہ پہلے پہل اتنے بڑے سانحے کو حادثے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ۔ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ وہ تو بعد میں مختلف اداروں کے اراکین پر مبنی ایک مشترکہ تحقیقات میں واضح ہواکہ یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔ اب تک اس سانحے کے حوالے سے جو حقائق چھپے رہ گئے تھے‘ جے آئی ٹی رپورٹ میں وہ بھی سامنے آگئے ہیں۔27صفحات پر مشتمل اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ فیکٹری میں آگ اُس جماعت کے رہنما کے کہنے پر لگائی گئی یھی جس جماعت کو کراچی میں سیاسی قوتوں کا زور توڑنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔رپورٹ میں ذمہ داروں کا تعین کرتے ہوئے ان تمام افراد کو بیرونِ ملک سے واپس لانے‘ پاسپورٹ منسوخ کرنے اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی سفارش کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں پولیس کے کردار پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے‘ جو اس ہائی پروفائل واقعے کی صحیح رخ پر تحقیقات کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ سامنے آنے سے پہلے 2019ء میں اس سانحے کے ایک کردار کا اعترافی بیان سامنے آیا تھا جس میں اُس نے واضح طور پر اُن افراد کے نام لیے جو اس سانحے کے ذمہ دار تھے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ فیکٹری مالکان کی جان چھڑانے کے لیے متعدد افراد نے اُن سے کروڑوں روپے ہتھیائے۔ گویا جس جس کو موقع ملا ‘ اُس نے سوختہ لاشوں پر سودے کیے اور بھاری رقوم بٹوریں ۔ اسی تناظر میں جے آئی ٹی کی سامنے آنے والی رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ بھتے کی رقم سے ایک ہزار گزکا بنگلہ خریدنے والوں سے یہ بنگلہ بھی واپس لیا جائے۔ 
یہ ہیں ہم اور یہ ہے ہمارے کردار کی ایک جھلک ۔سچی بات ہے کہ جس کیس کی بھی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آتی ہے تو شرمندگی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہم جیسا دہرا معیار شاید ہی کسی قوم کا ہو؟ ہم ہمیشہ دوسروں کے غم میں گھلتے رہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کیسے کیسے سانحات نے جنم نہیں لیا؟اس میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ بڑے بڑے سانحات کے ذمہ داروں کو یہ سب کچھ کرنے کی ہمت اسی لیے ہوئی کہ اُنہیں جوابدہی کا کوئی ڈر اور خوف نہیں تھا۔ پھر جن دنوں سانحہ بلدیہ ٹاؤن پیش آیا تب تو کراچی میں کسی کی جرأت ہی نہیں تھی کہ وہ ایک لسانی جماعت کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکے۔ کمزور نظام ہی ظالموں کو دوسروں کے جان و مال سے کھیلنے کے بھرپورمواقع فراہم کرتا ہے۔ اس کی مثال سانحہ بلدیہ ٹاؤن ہی نہیں بلکہ ہماری تاریخ میں درجنوں ایسی مثالیں موجود ہیں ۔ جن کے ہاتھ میں طاقت اور اختیار آتا ہے تو پھر اُن میں سے بیشتر خود کو قانون سے ماورا سمجھنے لگتے ہیں۔ اُنہیں کسی اصول ضابطے کا کوئی خیال رہتا ہے نہ قانون کا ڈر۔ بدقسمتی سے طاقتوروں کی طاقت کے مظاہر بھی ہماری تاریخ کا افسوسناک حصہ رہے ہیں۔ جو طاقت کے زور پر اقتدار میں آیا تو پھر اُس نے اپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے ہر جائز اور ناجائز حربہ آزمایا۔اپنے اقتدار کی خاطر علاقائی سطح پر مختلف طاقتوں کی حوصلہ افزائی کی اور اُنہیں کھل کھیلنے کے مواقع بھی فراہم کیے۔ ایسی طاقتوں کی طرف سے بے گناہوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی کو صاحبانِ اقتدار ‘ عوام کی طاقت قرار دیتے رہے۔
جان رکھئے کہ روزِ قیامت تو اپنے کالے کرتوتوں کی سزا سب کو ملے گی لیکن دنیا میں انصاف کے تقاضے پورے کیے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں۔سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے بعد لیاری کو قتل وغارت گری کا گڑھ بنادینے کی دل دہلا دینے والی داستانیں بھی سامنے آرہی ہیں۔ وہاں کیسے کیسے ستم نہیں ڈھائے گئے‘ انسانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹا گیا۔ یہ سب کچھ قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے ذمہ داروں کی ناک تلے نہیں بلکہ ان میں سے بہتوں کے آشیر باد سے ہوتا رہا۔ لیاری کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس میں بھی متعدد پردہ نشینوں کے نام سامنے آرہے ہیں ۔خدا کی پناہ سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے کیسے کیسے ستم ڈھائے جاتے رہے اور سب کے سب چپ سادھے بیٹھے رہے۔خدا لگتی بات تو یہی ہے کہ ان دونوں رپورٹس نے ہمیں ایک مرتبہ پھر شدید شرمندگی سے دوچار کیا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved