میں بڑے آرام سے گاڑی چلاتا ہوا جا رہا تھا کہ اچانک ایک رکشے پہ نظر پڑی ‘ اس پہ ایک بڑا سا پوسٹر لگا ہوا تھا اور اس پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا '' اپنے گردے ڈائیلسز سے ہٹوائیں‘‘میں بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا۔ رکشہ کچھ دور نکل گیا ۔ میں نے اس کا پیچھا کیا او ر قریب جا کر دوبارہ پڑھا ۔ بالکل یہی الفاظ تھے ۔نیچے مطب کا پتہ درج تھا۔مجھے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ اگر کسی ترقی یافتہ ملک میں کوئی گردوں کو ڈائیلسز سے ہٹانے کا مشورہ دیتا توانسانوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی پاداش میں اسے سزا کا سامنا کرنا پڑتا۔ پوسٹر چھاپنے اور اسے اپنے رکشے پہ آویزاں کرنے والے بھی سزا سے نہ بچ پاتے۔ کرہ ٔ ارض پہ بسنے والے 7.8ارب انسانوں میں سے کوئی بھی یہ صلاحیت اور ٹیکنالوجی نہیں رکھتا کہ گردوں کو ڈائیلسز سے واپس لے جا سکے ۔سٹیم سیلز پر لیبارٹریز میں ریسرچ ہو رہی ہے اور ایک دن آپ کے اپنے جسم سے مواد لے کر گردے بنائے جائیں گے‘ لیکن وہ وقت دور ہے ۔ جس شخص نے یہ پوسٹر لگا رکھا تھا‘ وہ نوسر باز تھا‘ اس نے زندگی میں کبھی کسی لیبارٹری کا منہ تک نہیں دیکھا ہو گا ۔
جس شخص کے گردے ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں‘ وہ ایک زندہ لاش ہوتاہے ۔ میڈیکل سائنس ڈائیلسز کی شکل میں اسے سات آٹھ سال کا تحفہ دیتی ہے کہ وہ اپنے معاملات نمٹا لے ۔ ڈائیلسز روکنے کا مطلب یہ ہے کہ دنوں میں وہ موت کی آغوش میں جا سوئے ۔ بے رحمی کی کوئی حد ہی نہیں ۔ یہی عجائبات دیکھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ صحت کے شعبے میں آگاہی کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے ‘ لالچی لوگ ورنہ اسی طرح انسانوں کو موت سے ہمکنار کر تے رہیں گے ۔انہی لالچی عناصر کے کارندے‘ بظاہر پڑھے لکھے ذہنی ٹٹو ہیں‘ جو اِن کی جعل سازیوں پہ مہرِ تصدیق ثبت کرتے پائے جاتے ہیں مثلاًنبض ہرگزہرگز آپ کو کینسر‘ ذیابیطس اور گردے کی صحت نہیں بتا سکتی۔ دن دیہاڑے بولا جانے والا یہ ایک سفید جھوٹ ہے کہ حکیم صاحب نبض سے آپ کی بیماری تشخیص کر رہے ہیں ۔
پندرہ سال ہوتے ہیں‘میرا ایک دوست گنج پن کا شکار تھا۔ وہ میرے ساتھ ایک مشہور و معروف حکیم کے پاس گیا۔ اس نے کہا: جی ہاں‘ بالکل آپ کے نئے بال نکل آئیں گے۔تیل بنانے کا ایک نسخہ لکھ دیا۔ اس میں انڈوں کی زردیاں اور پتہ نہیں کیا الا بلا ڈال کر ہلکی آگ پہ پکانا تھا۔ میرے دوست نے جب یہ تیل سر میں لگایا تو اس کی بدبو سے مجھے ابکائی آئی۔ اس کی ہمت تھی کہ لگاتارہا۔ ایک دن کہنے لگا کہ میرے بال مزید گرنا‘رک گئے ہیں ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ باقی اب رہ کیا گیا ہے ۔ پھر کچھ عرصے بعد اس نے مجھے اطلاع دی کہ اب نئے بال نکل رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا: کہاں ہیں یہ نئے بال‘ ذرا مجھے بھی دکھائو۔ اس نے کہا کہ دیکھنے میں نظر نہیں آرہے لیکن ہاتھ سے چھونے پر محسوس ہو رہے ہیں ۔دو سال تک اس کے سر کی حالت یہی رہی کہ جیسے اچار کو تیل میں ڈبو دیا جاتاہے ۔ بال کہاں سے نکلتے۔ بال گرتے ہیں جینز کی وجہ سے ۔ جینز میں لکھا ہوتاہے کہ محمد اسلم جب تیس سال کی عمر کو پہنچے گا تو اس کے صحت مند بال گریں گے اور کمزور بال نکلیں گے ۔ پھر کمزور بال گریں گے اور مزید کمزور بال نکلیں گے ؛حتیٰ کہ وہ گنجا ہو جائے گا۔ کچھ ادویات سے اس کی رفتار کم ضرور کی جا سکتی ہے لیکن جس کے جینز میں گنج لکھی ہوئی ہے‘ اسے کوئی حکیم گنجا ہونے سے روک نہیں سکتا۔ ایک وقت آئے گا جب سٹیم سیلز سے بال اگائے جائیں گے اور سر بالوں سے بھر دیا جائے گا۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں‘ وہ سائنسدان ہیں اور لیبارٹریز میں سٹیم سیلز سے بال اگا رہے ہیں ۔ بال جینز میں لکھی ہدایات کے مطابق گرتے ہیں ۔ جو شخص انڈے کی زردیوں سے بال اُگانے کی کوشش کر رہا تھا‘ اس کی سات نسلوں میں بھی کسی کو معلوم نہیں تھا کہ جینز ہوتے کیا ہیں ۔
یہی حال وزن کم کرنے کا ہے ۔ دنیا کا کوئی کوالیفائیڈ ڈاکٹر آپ کو وزن کم کرنے کی دوا نہیں دے گا۔ یہ کوئی بیماری تو نہیں کہ آپ نے کھا کھا کر چربی کا ایک پہاڑ تعمیر کر لیا ہے ۔ اس کا حل یہی ہے کہ آپ کم کھائیں۔ 1500کیلوریز والی خوراک چھ مہینے استعمال کریں ۔ اپنا منہ بند رکھیں ۔ وزن کم ہو جائے گا ۔ یہ تو ایک نعمت تھی، جو اللہ نے اس لیے انسان کو دی تھی کہ شروع شروع میں کبھی اسے شکار ملتا تھا اور کبھی نہیں ۔ اس لیے موقع ملتے ہی وہ اپنے جسم پر چربی جمع کرنے کی کوشش کرتا تھا ۔ برفانی ریچھ آج بھی یہی کرتے ہیں ۔ میرے دو دوست ہیں‘ جنہوں نے نیم حکیموں سے وزن کم کرنے کی دوا لی۔ اس کے بعد ان کا زیادہ تر وقت بیت الخلا میں گزرتا ۔ بیت الخلا کے چکر لگا کر ان کا وزن کم ہو رہا تھا۔ یہ علاج ہے ؟ علاج کی بجائے اسے جہالت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ جسم کی پتہ نہیں کون کون سی قیمتی نمکیات وہ غیر فطری طریقے سے جسم سے خارج کر رہے تھے ۔ اپنی صحت کا بیڑہ غرق کرنے کا پورا بندوبست ۔ میں نے سوچا ایک چارپائی لے کر انہیں بیت الخلا کے باہر لٹا دوں۔ ایک اندر جائے، دوسرا لیٹ کر اپنی باری کا انتظار کرتا رہے ۔ایک دوسرے کو دیکھ کر انہیں حوصلہ بھی رہے گا۔
یہی حال قد کا ہے ۔ قد بھی جینز میں لکھی گئی ہدایات کے مطابق بڑھتا ہے ۔ یہ ایک سفید جھوٹ ہے کہ دوا دے کر کسی کا قد بڑھایا جا سکتاہے ۔ جو لوگ یہ ادویات دے رہے ہیں‘ انہیں جینز کی الف ب بھی معلوم نہیں۔کیبل پر ایک اشتہار دیکھا کہ اگر آپ تیس سال سے کم عمر ہیں تو ہم آپ کا قد چھ انچ بڑھا سکتے ہیں ۔ اگر آپ تیس سے اوپر ہیں تو پھر بھی ہماری دوا کھایئے۔ اس سے آپ کا قد تو نہیں بڑھے گا لیکن آپ کی ہونے والی اولاد کا قد بڑھ جائے گا۔ان کے پائوں چوم لیجیے‘ کیسا کیسا سائنسدان مملکتِ خداداد میں پایا جاتاہے ۔
فیصل آباد میں ایک دن میں نے ایک بورڈ لگا دیکھا ''جگر کا ٹھنڈک کیپسول‘‘۔ جو شخص ٹھنڈک بیچ رہا تھا اس کی ستر پشتوں میں کسی کو علم نہیں تھا کہ جگر ہوتا کیا ہے اور کام کیسے کرتاہے‘ اس کی شکل کیا ہے ۔ اس دن میں نے محسوس کیا کہ صحت کے ساتھ کچھ زیادہ ہی شغل نہیں لگارہے یہ ان پڑھ لالچی۔ مزید دعوے سنیں ''ایک گولی سے پتھری پتے سے باہر ‘‘بندہ پوچھے گردے سے تو راستہ ہوتاہے کہ شاید پتھری نکل ہی جائے ۔ یہ پتے سے پتھری نکالنے کا راستہ آپ نے کیسے بنا لیا؟
ماڈرن میڈیسن/ایلو پیتھی جب آرہی تھی تو ظاہر ہے کہ اس کے پاس جدید آلات تھے بیماریوں کا پتہ لگانے کے لیے اور اس میں پوری دنیا سے سائنسدان تحقیق کرتے رہتے ہیں جبکہ متبادل طریقہ ہائے علاج کے پاس نہ تو کوئی ریسرچ ہے اور نہ ہی اپنے آپ کو بہتر بنانے کی امنگ۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہمارے ملکوں میں جو دیسی طریقہ علاج تھا اُس کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ پہلے یوں ہوتا تھا کہ کوئی شخص کئی دہائیوں کی محنت کے بعد جا کر طبیب بنتا تھا مگر اس دور میں اس شعبے پر کوئی توجہ نہیں ‘ نہ ہی اس کی بہتری کے لیے کوئی سنجیدہ ہے ‘ یہی حال اتائیوں کا ہے‘ لوگ ڈاکٹروں کے پاس چند برس لگا کر ‘ ڈسپنسری کا کام سیکھ کر لوگوں کی صحت کے فیصلے کرنے لگتے ہیں ۔اتائیوں نے اپنی بقا کو جب خطرے میں دیکھا تو طرح طرح کی جہالتیں تخلیق کیں اور بیماریوں کے حوالے سے طرح طرح کے غلط تصورات پیدا کئے ۔ آج آپ کسی گئے گزرے سرکاری ہسپتال کو دیکھ لیں اور اتائیوں کے نام نہاد مطب دیکھ لیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں لوگ فرش پہ پڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس نہیں جاتے۔ جاتے بھی ہیں تو آخر سٹریچر پہ ڈال کر انہی ہسپتالوں میں ہی لایا جاتا ہے ۔ ٹی بی جیسی بیماری جو بادشاہوں کو مار گئی، آج مزدوروں کے بچّے خیراتی ہسپتالوں میں اس سے شفایاب ہو جاتے ہیں ۔ یہ ہے میڈیکل سائنس !