تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-07-2020

ڈرنے کی ضرورت تو ہے

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدحواسی بڑھتی جارہی ہے۔ جس کے ہاتھ سے سب کچھ جارہا ہو وہ بیشتر معاملات میں بدحواسی ہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ امریکا اور یورپ کا یہی معاملہ ہے۔ دونوں کو اپنی عالمی چودھراہٹ داؤ پر لگتی دکھائی دے رہی ہے تو فکر و عمل کا توازن بگڑ رہا ہے۔ ابھی کل تک دونوں کو ایسا لگتا تھا جیسے وقت (اُن کے حق میں) تھم گیا ہے اور تاریخ نے اپنے پہیے کو روک لیا ہے۔ یہ تصور خاصے زور و شور سے پھیلا جارہا تھا کہ اب دنیا کو فکر و نظر کے حوالے سے متفکر ہونے کی ضرورت نہیں۔ مغرب کی لبرل ڈیموکریسی کو سیاسی فکر کا درجۂ کمال قرار دیا جارہا تھا اور آزاد منڈی کی معیشت کو معیشتی فکر کا نقطۂ عروج ٹھہرادیا گیا تھا۔ دنیا کو باور کرایا جارہا تھا کہ اب کوئی اپنے ذہن کو خواہ مخواہ زحمت نہ دے۔ جو کچھ بھی سوچنا تھا وہ مغرب نے سوچ لیا ہے اور جو کچھ ایجاد یا دریافت کرنا تھا وہ کیا جاچکا ہے۔ گویا کسی کو تحقیق و ترقی کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کی بھی ضرورت نہیں! 
امریکا اور یورپ کے قائدین کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ وہ چند ایک معاملات میں ایسی برتری کے حامل ہیں جو بظاہر ناقابلِ تسخیر سی ہے۔ عالمی سیاسی و مالیاتی نظام کو امریکا اور یورپ نے مل کر جکڑ رکھا ہے اور اُس کا رخ اپنی مرضی کے مطابق موڑتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ایڈوانٹیج یقینی بنایا جاسکے۔ بہت کچھ ہے جو اب تک مغرب کے حق میں دکھائی دے رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اُس کی برتری اُتنی مضبوط نہیں جتنی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ حقیقت مغرب کے بیشتر پالیسی میکرز اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے اب معاملات کو الجھانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں تاکہ جو کچھ اُن کا نہ ہوسکے وہ کسی اور کا بھی نہ ہوسکے۔ 
مغرب کے بیشتر تجزیہ کاروں اور مبصرین کو ایک طویل المیعاد ٹاسک سونپا گیا ہے۔ یہ ٹاسک ہے چین کو ہر معاملے میں زیادہ سے زیادہ مطعون کرنے کا۔ سارا زور اِس نکتے پر ہے کہ چین کو پوری دنیا کے لیے خطرہ بناکر پیش کیا جائے۔ مغربی ذہن پوری دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اِس وقت دنیا کو جس عظیم خطرے کا سامنا ہے اُسے چین کہتے ہیں۔ مغربی میڈیا یہ تاثر پروان چڑھانے میں مصروف ہیں کہ عالمی معاملات اگر کسی طرح چین کے تصرّف میں آگئے تو سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔ چین کو ایک ایسے ملک کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے جو پوری دنیا کو ہڑپ کرنے کی دھن میں ہے اور اگر معاملات اُس کے ہاتھ میں آئے تو سیاست‘ معیشت‘ معاشرت اور تہذیب کچھ بھی نہ بچے گا۔ چینیوں کو ایسے کاروباری افراد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جو کسی نہ کسی طور پوری دنیا کا خون چوسنا چاہتے ہیں۔ 
چین کے بارے میں پھیلایا جانے والا ہر تاثر کسی کے لیے حیرت انگیز نہیں۔ سولہویں صدی عیسوی سے اب تک مغرب نے بھی تو یہی کیا ہے۔ یورپی ریاستوں نے جب فطری علوم و فنون میں پیش رفت کے ذریعے دوسری اقوام اور خطوں پر واضح برتری پائی تو لوٹ مار پر اتر آئے۔ کئی خطوں کو زیر نگیں کرکے اُن کے زیادہ سے زیادہ وسائل پر قبضہ کیا اور اپنی ترقی کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ابتری کا سلسلہ دراز کرنے پر توجہ دی۔ 
تین صدیوں تک یورپ نے لوٹ مار کی اور اُن کا اقتدار کمزور پڑنے پر امریکا میدان میں آیا جس نے سات عشروں سے اندھیر مچا رکھا ہے۔ اب ان دونوں کو اپنی اپنی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ چین کی شکل میں ایک بڑا حریف سامنے آیا ہے تو لوٹ مار کی گنجائش کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ امریکا اور یورپ نے باقی دنیا کو زیر نگیں رکھ کر اُس کے وسائل سے خوب فوائد بٹورے ہیں۔ بندر بانٹ کا سلسلہ ختم ہوتا دیکھ کر دونوں کو اپنے اپنے مفادات کی ایسی فکر لاحق ہوئی ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے پوری سنجیدگی اور نیک نیتی سے کچھ کرنے کے بجائے دونوں بے عقلی کا مظاہرہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یورپ کا معاملہ تھوڑا سا مختلف یوں ہے کہ اُس نے زمینی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے معاملات کے درست ہونے کی تھوڑی بہت گنجائش ضرور چھوڑی ہے۔ وہ امریکا کی طرح آنکھیں بند کرکے نہیں چل رہا اور ضرورت کے مطابق دانش کا دامن تھام رکھا ہے۔ 
چین کے خلاف امریکا کی پروپیگنڈا مشینری خاصی متحرک ہے۔ دن رات ایسے مضامین اور کتب کی اشاعت جاری ہے جن کا مقصد چین کے حوالے سے باقی دنیا کو ڈرانا ہے۔ پروپیگنڈا خود امریکا کر رہا ہے اور الزام چین پر عائد کیا جارہا ہے۔ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ پروپیگنڈا مشین صرف چین کی ہے جو پورے زور و شور سے کام کر رہی ہے۔ 
امریکا اور یورپ کو کس بات کا ڈر ہے؟ تجزیہ کار اور مبصرین بار بار‘ تواتر سے کہہ رہے ہیں کی چین سے ڈرنے کی ضرورت نہیں‘ مگر پھر بھی یہ راگ دل جمعی سے الاپا جارہا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ اب چین سے خوف محسوس ہو رہا ہے۔ امریکا اور تمام حاشیہ برداروں کو اندازہ ہے کہ چند ایک شعبوں میں غیر معمولی برتری کے باوجود امریکا اب اپنی عالمی قائدانہ حیثیت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ امریکا میں بھی انتشار بڑھ رہا ہے۔ نسلی بنیاد پر منافرت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں چین یا کسی اور ابھرتی ہوئی قوت سے نمٹنا ایسا آسان نہیں جیسا سمجھا جارہا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اب امریکی پالیسی میکرز کو بھی اندازہ ہوچلا ہے کہ اعلیٰ تعلیم‘ ہائی ٹیک اور عسکری قوت کے حوالے سے اچھی خاصی برتری کے باوجود چین کی طرف سے بے فکر نہیں رہا جاسکتا۔ چین کی اقتصادی قوت غیر معمولی ہے۔ اگر امریکا اور یورپ مل کر عالمی معیشت کو خرابی سے دوچار کریں تو نقصان صرف چین کو نہیں بلکہ خود اُنہیں بھی پہنچے گا۔ ایسی حالت میں معاملات مکمل طور پر ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔ چین اب بھی بہت سے معاملات میں امریکا اور یورپ سے مکمل مسابقت کا اہل نہیں۔ ہاں‘ اتنا ضرور ہے کہ وہ دونوں کو پریشان کرنے کی پوزیشن میں آچکا ہے۔ جن خطوں کو امریکا اور یورپ نے عشروں کی محنت سے برباد کیا ہے اُنہیں چین کسی نہ کسی طور آباد کرکے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں افریقا کی مثال نمایاں ہے۔ علاوہ ازیں چین نے جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا کو بھی مستحکم کرنے پر توجہ دی ہے۔ روس سے بہتر ہوتے ہوئے تعلقات اور وسطِ ایشیا کی ریاستوں کو بھی دوستی کے دائرے میں لانے کی کوششیں چین کو مغرب کی نظر میں مزید پُر خطربنارہی ہیں۔ ایسے میں مغربی پالیسی میکرز کا بدحواس ہونا فطری امر ہے۔ یہی سبب ہے کہ توجہ کا مرکز چین ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چین کی ''خطرناکیت‘‘ کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ آبادی‘ محلِ وقوع اور مستقل مزاجی نے چین کو بڑی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 
زمانہ جب کروٹ بدلتا ہے تو بہت کچھ اُلٹ‘ پلٹ جاتا ہے۔ زمانے کے کروٹ بدلنے کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب ایک طاقت انحطاط سے دوچار ہوتی ہے اور دوسری ابھر رہی ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسے ہی عہد میں جی رہے ہیں۔ چین کا ابھرنا بہت سوں کے لیے عجیب امر ہے کیونکہ مغرب کی بالادستی کو حتمی نوعیت کا سمجھ لیا گیا تھا۔ ذہنوں میں یہ بات گھر کرگئی تھی کہ معاشرت‘ معیشت‘ ثقافت اور فنونِ لطیفہ کے حوالے سے مغرب کے دیئے ہوئے معیارات اب دنیا کے لیے تادیر کافی رہیں گے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ محض چار پانچ عشروں ہی میں صورتِ حال یوں تبدیل ہوگی کہ حیران رہ جانے کے سوا آپشن نہ ہوگا۔ اہلِ مغرب کے پاس اب بھی وقت ہے کہ اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں‘ پس ماندہ خطوں کے مفادات کو سمجھیں اور اُنہیں زِک پہنچانے سے باز رہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دیگر ابھرتے ہوئے ملک بھی چین یا کسی اور بڑی طاقت کے ساتھ مل کر دنیا کو بدلنے کی سعی کریں گے اور ایسا ہوا تو بہت بڑے پیمانے پر خواب خرابے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved