تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     10-07-2020

ایک راجپوت کی موت

اسلام آباد سے سینکڑوں کلومیٹر دور‘ لیہ میں چوک اعظم شہر سے پرے ریتلے قبرستان میں پنجاب انفارمیشن گروپ کے سینئر افسر رانا اعجاز محمود کی میت رکھی تھی۔ نمازِ جنازہ صبح نو بجے ادا کر دی گئی تھی۔ میں نے نظر اٹھائی ہر طرف افسردگی، رنج اور دکھ کی چادر نظر آئی۔ رضی الدین رضی، آصف کھتران، شوکت اشفاق، صابر تھہیم، محسن عدیل سب غمگین۔
قبر کا کچھ کام باقی تھا۔ میت چھائوں میں رکھ دی گئی تھی۔ رانا اعجاز کا سولہ سترہ برس کا بیٹا باپ کی میت کے پاس کھڑا زاروقطار رو رہا تھا۔ رانا صاحب نے اولاد نہ ہونے پر بڑے بھائی خالد محمود کا بیٹا اور چھوٹے بھائی جاوید محمود کی بیٹی کو اپنی اولاد بنا لیا تھا۔ وہ بیٹا اب مسلسل رو رہا تھا۔
میں کھڑا تو سجاد جہانیہ اور آصف کھتران کے ساتھ تھا لیکن میری آنکھیں مسلسل اس بچے پر تھیں جس کی آنکھوں سے دریا بہہ رہا تھا۔ اسے روتا دیکھ کر مجھے اپنا چھوٹا بیٹا یاد آیا جو مجھے کل رات تک یہ کہنے کی کوشش کرتا رہا کہ میں لیہ جنازے کے بجائے ویک اینڈ پر فیملی کے پاس فاتحہ کے لیے چلا جائوں؟ میں خالی آنکھوں سے بیٹے کو گم سم دیکھتا رہا تھا۔ اپنے دوست کے والد کا بتانے لگا کہ وہ بھی کسی کے جنازے پر گئے تو وہاں انہیں کورونا ہو گیا تھا۔ بولا: آپ کس کس کو منع کر سکیں گے کہ وہ ہاتھ نہ ملائے یا گلے نہ لگائے؟ وہاں تو سماجی فاصلے پر کوئی یقین نہیں کرتا۔
میں چپ رہا۔ اسے کیسے سمجھاتا کہ رانا اعجاز کی روح بے چین رہے گی۔ ایک راجپوت کو لگے گا‘ دھوکا ہوگیا‘ جسے عمر بھر بیٹا سمجھا وہ مٹی ڈالنے نہ آیا۔ میں ساری عمر مجرم بن کر زندہ رہوں گاکہ چھبیس برس کی طویل رفاقت کے بعد جب ایک راجپوت، دھرتی کا بیٹا مٹی کی چادر اوڑھ رہا تھا تو میں سینکڑوں میل دور گھر میں بیٹھا تھا۔ رات گئے رانا اشرف ساتھ گاڑی میں بیٹھنے لگا تو چھوٹا بیٹا پھر میرے پاس آیاکہ آخری کوشش کر لے۔ میں خاموش رہا تو وہ اندر سے میرے لیے بہت سارے ماسک، سینی ٹائزر اٹھا لایا‘ اور دیر تک سمجھاتا رہا کہ کیسے احتیاط کرنی ہے۔
پوری رات سفر کے بعد اب قبرستان میں رانا اعجاز کے بیٹے کو دیکھ رہا تھا جو باپ کی چارپائی پر رکھی میت کو مسلسل ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ باپ کو آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے سمونا چاہتا ہے۔ رانا اعجاز کا چھوٹا بھائی جاوید مجھے دیکھ کر رونے لگ گیا۔ خالد بھائی جو اب تک حوصلے میں تھے مجھ پر نظر پڑتے ہی ان کی آنکھوں سے برسات شروع ہوگئی۔ تیسرا بھائی ناصر محمود دبئی سے نہ پہنچ سکا تھا۔ میری نظریں اب بھی میت پر جمی تھیں جس کے پاس بیٹا ثاقب مسلسل رو رہا تھا۔ مجھے اپنا بیٹا یاد آیاکہ ایک بیٹے کو اپنے زندہ باپ کی فکر تھی کہ جنازے میں احتیاط نہیں ہو سکے گی اور وہ پریشان تھاکہ جس سے ہاتھ نہ ملایا گلے نہ لگا وہ ناراض ہوگا۔ بولا: پہلے آپ کے دشمن کم ہیں‘ اب اس بات پر آپ مزید بنا کر آئیں گے جبکہ ایک اور بیٹا یہاں باپ کھو چکا تھا اور میت کے پاس کھڑا رو رہا تھا۔
نعیم بھائی، ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد وہ تیسرے انسان تھے جن کی میری سوچ اور زندگی پر گہری چھاپ تھی۔1994 میں‘ میں ملتان تھا اور اپنے لیہ شہر ایک کام پڑا تو مظہر عارف صاحب نے کہا: لیہ میں رانا اعجاز محمود انفارمیشن افسر ہیں‘ ان سے مل لو۔ اور پھر ایسی ملاقات ہوئی کہ جب ان کی وفات سے ایک دن پہلے میری آصف کھتران کے فون پر ان سے بات ہوئی تو میں نے کہا: بتائیں میں آپ کے لیے کیا کروں۔ بولے: مجھے بس ایک محبت بھرا بوسہ دو۔ بدھ والے دن موت سے چند لمحے پہلے سب اخبار منگوائے‘ پڑھے اور موت کی چادر اوڑھ کر سو گئے۔
میں نے سنا تھا‘ راجپوتوں نے تلوار ہی چلائی‘ ساری عمر جنگیں ہی لڑیں‘ لیکن یہ میری زندگی کا پہلا راجپوت تھا‘ جس کے پاس علم و دانش کا اتنا ذخیرہ تھاکہ لگتا‘ دنیا بھر کے عالموں کی روح اس میں رچ بس گئی ہے۔ سجاد جہانیہ نے درست لکھا کہ وہ قد کاٹھ اور شخصیت سے رانا سانگا کی فوج کے سپہ سالار لگتے۔ راجپوتوں کی روایات کے ایسے امین کہ ان کے آبائواجداد ان پر فخر کرتے۔ میں ملتان اور بعد میں اسلام آباد سے سفر کرکے لیہ آفس جاکر ان کے پاس ٹھہرتا۔ کئی راتیں اکٹھے گزارتے اور مسلسل بحث مباحثہ ہوتا رہتا۔ میری ابتدائی شخصیت بنانے میں ان کا ہی رول تھا۔ سیاست، لٹریچر، سماج، ورلڈ ہسٹری، کون سا موضوع تھا جس پر گرفت نہ تھی۔ ایسی انگریزی بولتے کہ ہر ڈی ایم جی اور پولیس افسر حیران ہوتا کہ ایک انفارمیشن افسر اور اتنی اعلیٰ انگریزی۔ میں کہتا تھا: آپ اسلام آباد ہوتے تو مشاہد حسین، ملیحہ لودھی اور حسین حقانی کو پیچھے چھوڑ جاتے۔ ہنس کر کہتے: پتر اتنی ترقی کا کوئی شوق نہیں ہے۔ ساری عمر لیہ میں نوکری کرتے گزار دی۔ پرموشن ہوئی تو پریشان ہوئے اور مجھے فون کیا: پتر جی! اس پروموشن کے ساتھ یہیں لیہ نوکری جاری نہیں رکھ سکتا؟ سفارش ڈھونڈو۔ خیر بہاولپور پوسٹنگ ہوئی۔ مجھے ایک دوست مرحوم صاحبزادہ حسن کے بیٹے شاہجہاں کی شادی پر بہاولپور دو گھنٹے کیلئے جمشید رضوانی کو ملتان ایئرپورٹ سے لے کر جانا پڑا اور رات کو ملتان لوٹ آیا‘ ان سے نہ ملا سکا۔ آخری سانس تک ناراض رہے۔
آتش جوان تھا۔ عشق کو ہمیشہ ایک رازداں کی ضرورت ہوتی ہے اور میرے رازداں رانا اعجاز بنے۔ جہاں رشتہ ہونا تھا وہ بھی راجپوتوں کی شاخ تھی۔ فوری طور پر راجپوتوں کی رشتہ داری ڈھونڈ نکالی اور یاری لگا لی۔ جب شادی ہوئی تو مجھے کہا ''پتر ایک بات ذہن میں رکھنا وہ راجپوتوں کی نسل سے ہے‘ کوئی شکایت ہوئی تو کاٹ ڈالیں گے‘ اسے مذاق نہ سمجھنا‘‘۔
ان کا ہر دوست سمجھتا‘ وہ بس صرف میرے دوست ہیں۔ ایک دن ان کے والد بڑے رانا صاحب بھڑک گئے کہ ان کا راجپوت پنجابی خون سرائیکی قوم پرست بن گیا ہے اور الگ صوبے کا حامی ہے۔ رانا اعجاز جب بڑے رانا صاحب کی ہمارے سامنے ڈانٹ کھاتے تو ہنستے اور ساتھ آنکھ مارتے کہ اب اباجی کو کیا کہیں۔ میں کہتا: بڑے رانا صاحب کو خوف ہے کہیں اس صوبے میں ان کی شناخت نہ چھن جائے۔ رانا اعجاز کہتے: ہمارے پنجابی کیوں نہیں سوچتے کہ یہ سرائیکی دھرتی ان کی ہے۔ انکا جینا مرنا سرائیکیوں کے ساتھ ہے تو پھر کیوں نئے صوبے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اگرچہ انفارمیشن گروپ کے افسر تھے لیکن اس معاملے پر کمپرومائز نہ کرتے۔ 
میری نظر ثاقب پر پڑی وہ ابھی تک باپ کی میت ساتھ کھڑا مسلسل رو رہا تھا۔ قبر اب تقریباً تیار تھی۔ مجھے 1997 کی ایک رات یاد آئی جب میں زندگی کے ایک امتحان میں کوشش کے باوجود مطلوبہ نتیجہ نہ لے سکا تو انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا: سُن پُتر‘ بینظیر بھٹو نے کب سوچا تھا اس کے باپ کو قدرت ہٹاکر اسے وزیراعظم بنانا چاہ رہی ہے۔ سردار فاروق لغاری کو کب نیند آئی ہوگی کہ وہ 1988 میں نواز شریف سے وزیراعلیٰ کا الیکشن ہار گئے تھے۔ لغاری کو کیا پتہ تھا صرف دس برس بعد وہ اس ملک کا صدر ہوگا اور وزیراعظم اور چار وزیراعلیٰ اس کی قلم کی نوک پر ہوں گے؟ پتر دل نہ چھوٹا کر بس لگا رہ۔ تمہیں کیا پتہ تقدیر نے تمہارے لیے کیا انتخاب کر رکھا ہے۔
میت کو اب قبر کے قریب لایا جارہا تھا۔ ثاقب کی ہچکیوں کی آواز سب سن سکتے تھے کہ بچے کو اندازہ تھا‘ بس یہی وہ لمحہ ہے جس کے بعد یہ مہربان چہرہ کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔ جس دن نعیم بھائی فوت ہوئے رانا صاحب کو علم تھا ہم پر کیا قیامت گزر گئی ہے۔ قبرستان میں مجھے مسلسل بازوئوں کے گھیرے میں لیے رکھا۔ بارش برس رہی تھی اور وہ میرے لیے چھتری بن کر کھڑے رہے۔ رانا اعجاز کی قبر پر مٹی ڈالی جا چکی تھی۔ مجھے لگا‘ نعیم بھائی اور ڈاکٹر ظفر الطاف کے بعد ایک اور قبر میرے دل میں بن گئی ہے۔ شاید انسان کے دل کا قبرستان ایسے ہی دھیرے دھیرے بھرتا رہتا ہے‘ تب تک جب ایک دن وہ خود اس قبرستان میں دفن نہیں ہو جاتا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved