پچھلے دنوں بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے لکھے گئے میرے ایک کالم سے جو افسوسناک بدمزگی پیدا ہوئی تھی، اس پر میں نے معذرت کر دی تھی اور اس کے علاوہ میں کر بھی کچھ نہیں سکتا تھا۔ میں گزشتہ 45 سال سے کالم لکھ رہا ہوں اور ملک عزیز میں شاید ہی کوئی اور کالم نویس ہو جو اتنی سنیارٹی کا دعویٰ کر سکے۔ میں نے پاکستان کے تقریباً ہر قابلِ ذکر اخبار میں لکھا ہے اور کبھی ایسی کوئی صورت پیدا نہیں ہوئی ‘ کیونکہ مجھے پتا ہے کہ کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں، اور جو لکھنا ہے کس طرح سے لکھنا ہے۔
میرا کالم ایک گاسپ کالم ہوتا ہے اور چونکہ غیر سنجیدہ ہوتا ہے اس لیے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا بھی زیادتی سے کم نہیں ہے۔ ''سرخیاں ان کی، متن ہمارے‘‘ میری اپنی ایجاد ہے کہ اس سے پہلے اس طرح کی کوئی مثال نہیں ملتی‘ حتیٰ کہ بعض دوستوں کی طرف سے مختلف عنوانات سے اس کی نقل بھی اتارنے کی کوشش کی گئی، مثلاً کیلے کا چھلکا وغیرہ۔ اپنے انداز میں ہلکی پھلی تنقید کرنا میرا حق ہے کیونکہ اگر یہ بھی نہ ہو تو میرا کالم پڑھے گا کون؟ پھر، میری کسی شخصیت یا پارٹی سے کوئی دشمنی بھی نہیں ہے اور ایک فکاہی کالم نویس کی ہو بھی نہیں سکتی۔ اور جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو میں خود اس کے فائونڈر ممبرز میں شامل ہوں۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے مکان پر جب اس کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اوکاڑہ سے رانا محمد اظہر اور میں شامل ہوئے تھے۔ پھر اوکاڑہ اور ضلعی صدر مقام ساہیوال کے کئی عہدے بھی میرے پاس رہے۔ پھر بھٹو صاحب کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے پہلے میں نے، پھر حنیف رامے اور پھر رانا اظہر نے پارٹی چھوڑ دی۔ اسی زمانے کا میرا ایک شعر ہے؎
ہم نے جدوجہد کرنا تھی ظفرؔ جن کے خلاف
وہ سبھی آ کر ہماری صف میں شامل ہو گئے
پھر میں اوکاڑہ سے اے این پی کے ٹکٹ پر ایم این اے کا الیکشن بھی لڑا‘ لیکن اس کے باوجود وزیراعظم بینظیر بھٹو نے 1995ء میں مجھے دو سال کے لیے اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا جو بائیسویں گریڈ کی جاب تھی۔ میری سمری فخر زمان نے بھیجی تھی اور میرا ساراریکارڈ بی بی کے سامنے تھا۔ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی ایسی جماعتیں ہیں کہ ایک بار کسی کے اندر گھس جائیں تو مشکل ہی سے باہر نکلتی ہیں۔ بی بی کے پیشِ نظر بھی یہی نکتہ تھا کہ یہ ہمارا ہی آدمی ہے۔ میں یہ بات کئی بار لکھ بھی چکا ہوں اور اسے دُہرا بھی رہا ہوں کہ قابلِ ذکر سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی واحد تنظیم ہے جو لیفٹ کی طرف جھکائو رکھتی ہے اور یہ کسی بھی وقت ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے‘ جبکہ بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں لکھ چکا ہوں کہ وہ ملک کی واحد امید ہیں‘ اگر انہیں آزادی سے کام کرنے دیا ۔ کوئی دس سال پہلے میں جب ہسپتال داخل تھا تو صدر زرداری نے فون کر کے میری خیریت دریافت کی جس کے لیے میں ان کا ممنون ہوں۔ سو، بلاول ایک روشن خیال نوجوان ہیں اور کچھ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ پھر، جس جماعت میں بیرسٹر اعتزاز احسن اور قمر زمان کائرہ جیسے لوگ موجود ہوں اس سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے‘ جبکہ زرداری ہائوس کے بھیجے ہوئے آم تو ہم پچھلے سال تک کھاتے رہے ہیں!
ماضی کے جھروکے سے کچھ مزید تصویریں آپ کو دکھانا چاہتا ہوں۔ 70ء کی الیکشن مہم کے دوران بھٹو صاحب اوکاڑہ میں جلسۂ عام میں خطاب کرنے کے لیے آئے تو سٹیج سیکرٹری میں تھا۔ پنڈال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور رش اس قدر تھا کہ بھٹو صاحب ‘ ملک قدیر اور مصطفی کھر کو پچھلی طرف سے سیڑھی لگا کر سٹیج تک لانا پڑا۔ جب میں نے فخرِ ایشیا کہتے ہوئے بھٹو صاحب کو تقریر کی دعوت دی تو پنڈال پورے ایک منٹ تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ اسی الیکشن میں اوکاڑہ کے دیہاتی حلقے میں واقع صوبائی نشست کے لیے مجھے نامزد کیا گیا تھا‘ لیکن حلقہ طویل و عریض تھا؛ چنانچہ وسائل کی کمی کی وجہ سے میں نے معذرت کر لی کہ اس نشست کے لیے رائے میاں خاں کھرل کو وہ ٹکٹ دے دیا گیا جو بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ دراصل مجھے اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ پیپلز پارٹی ایک طوفان کی طرح چھا جائے گی اور میں اگر حلقے میں نہ بھی جاتا تو کامیابی یقینی تھی۔
کچھ عرصے بعد پارٹی کے تنظیمی معاملات کی کچھ شکایات لے کر میں پارٹی کے ایک اور عہدیدار ملک ظفر مسعود اور کچھ دیگر ارکان کے ساتھ لاڑکانہ گیا اور بھٹو صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ میاں افضل رائے ‘جو اُن دنوں پنجاب میں پارٹی کے صدر تھے، سے بات کریں گے لیکن اس کا نتیجہ بھی کچھ نہ نکلا۔اس کے بعد 80 کی دہائی کے الیکشن میں مَیں نے پارٹی سے عدم وابستگی کے باوجود پارٹی کے امیدوار رائو سکندر اقبال کی بھرپور حمایت کی اور انہیں کامیاب کرایا جبکہ قومی اسمبلی کے اس الیکشن میں ان کے مخالف امیدوار میرے ایک قریبی عزیز میاں محمد زمان تھے جو وفاقی وزیر بھی رہ چکے تھے؛ چنانچہ فیملی کے ایک بڑے حصے نے میرا ایک عرصے تک مکمل بائیکاٹ کیے رکھا حتیٰ کہ آفتاب اقبال کی شادی میں بھی شریک نہ ہوئے۔ بھٹو صاحب کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا تو اس دوران میں نے ایک غزل لکھی جو حنیف رامے کے ہفت روزہ ''نصرت‘‘ میں شائع ہوئی جس کا مطلع تھا؎
شرح و شمارِ شوق کی حالت میں آئے گا
آیا تو اک ادا سے عدالت میں آئے گا
اس کا دوسرا مصرعہ اس قدر وائرل ہوا کہ جا بجا اس کا حوالہ دیا جانے لگا۔ اب کچھ بات میرے الیکشن کی بھی ہو جائے۔ اے این پی کا ٹکٹ دلانے میں ہمارے صحافی دوست کامریڈ عبدالسلام پیش پیش تھے ۔ میری اس پارٹی میں شمولیت بھی انہی کے توسط سے اور اس موقع پر ہوئی تھی جب عبدالولی خاں ملتان جیل سے رہا ہو کر اوکاڑہ پہنچے تھے جہاں گولی چوک مسجد میں ہم نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔ پنجاب بھر کی اپوزیشن کی ٹکٹوں کے فیصلے ظہور الٰہی پیلس میں ہوا کرتے تھے۔ سو، اے این پی کے حصے کا ایک ٹکٹ محفوظ تھا جو مجھے دے دیا گیا۔ میری الیکشن مہم کے انچارج اینکر پرسن جنید سلیم کے والد، جناب سلمان غنی کے فرسٹ کزن اور میرے دیرینہ دوست ڈاکٹر محمد سلیم تھے۔ میرے جلسوں میں خان عبدالولی خان اور سیدہ عابدہ حسین نے بھی شریک ہو کر تقریریں کیں اور اس طرح یہ کھیل تمام ہوا!
آج کامطلع
کچھ ہوئے باٖغی یہاں کچھ لوگ بے دل ہو گئے
اور کچھ شائستۂ معیارِ محفل ہو گئے